بزمِ انجم میں قمر اب نہ بلایا جائے - از سلمان حمید

سلمان حمید

محفلین
جوانی کی دنوں کے کچھ کچے پکے اشعار ملاحظہ کریں اور اساتذہ تنقید بھری نگاہوں سے پڑھتے ہوئے اصلاح بھی فرما دیں۔ شکریہ

بزمِ انجم میں قمر اب نہ بلایا جائے
بس رخِ یار سے آنچل کو ہٹایا جائے

جانے کس آس پہ اس بار یہ غنچے چپ ہیں
آج گلشن میں اسی شخص کو لایا جائے

تشنہ لب بھول گئے اشک کی لذت پھر سے
آج دل کھول کے پھر ہم کو ستایا جائے

آج شب ناز اٹھانے کو نہیں کرتا دل
اب یہ ضد ہے کہ مجھے آ کے منایا جائے

جلتی پلکوں سے سدا تیری پرستش کی ہے
اب تری زلف کے سائے میں سلایا جائے۔

سلمان حمید
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میں تو آپ کو ابھی بھی جوان ہی سمجھتا ہوں سلمان بھائی :)۔ اگر چہ زمرہ اصلاح کا نہیں( اور ہم استاد بھی نہیں :)) مگر آپ کے قول کی مناسبت سے ایک اشارہ کرنا چاہوں گا۔
پلکوں اور پرستش کے امتزاج کی مناسبت سے جلنے کی بجائے جھکنے کا استعمال شاید بہتر ہو۔بہر حال غزل اچھی ڈھب سے کہی گئی ہے۔
 

سلمان حمید

محفلین
میں تو آپ کو ابھی بھی جوان ہی سمجھتا ہوں سلمان بھائی :)۔ اگر چہ زمرہ اصلاح کا نہیں( اور ہم استاد بھی نہیں :)) مگر آپ کے قول کی مناسبت سے ایک اشارہ کرنا چاہوں گا۔
پلکوں اور پرستش کے امتزاج کی مناسبت سے جلنے کی بجائے جھکنے کا استعمال شاید بہتر ہو۔بہر حال غزل اچھی ڈھب سے کہی گئی ہے۔
عاطف بھائی، جوان سمجھنے کا بہت بہت شکریہ لیکن اب جب کہ لکھا نہیں جاتا تو اب بڑھاپا آ گیا ہے بس۔
آپ کی نشاندہی کا شکریہ، میں اگر جلتی آنکھوں کر لوں تو چلے گا؟ یا جھکتی پلکوں ہی ٹھیک ہے؟

اب کی بار اصلاح میں شریک کر دیا کروں گا کیونکہ میری ہر غزل کو داد سے زیادہ اصلاح ہی کی ضرورت ہے :p
 
عاطف بھائی، جوان سمجھنے کا بہت بہت شکریہ لیکن اب جب کہ لکھا نہیں جاتا تو اب بڑھاپا آ گیا ہے بس۔
:p
سلمان بھیا اگر کوئی بندہ سہی معنوں میں تخلیق کار ہے تو وہ کبھی چُپ بیٹھ ہی نہیں سکتا ہے ۔یعنی وہ یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ اب نہیں لکھا جاتا ۔اگر واقعی ایسا ہے تو اسے تخلیق کار نہیں کہا جائے گا کہ تخلیق کار کے ذہن میں کچھ نا کچھ کُلبُلاتا رہتا ہے ۔اور معاشرے کی بے حسی یا خوبصورتی دیکھ کر خاموش ہو جائے ایسا نہیں ہو سکتا اور چونکہ آپ ایک تخلیق کار ہیں اس لئے دھڑا دھڑ لکھے جا رہے ہیں ۔ابھی کچھ ہی دن پہلے تو آپ کا ایک دھاگہ گاوں کے حوالہ سے کافی پاپولر رہا ہے اسی محفل میں اور پھر یہ اتنی خوبصورت غزل ۔آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ لکھا نہیں جاتا ۔نا بابا ایسا نہ کہئے ۔:)
 

سلمان حمید

محفلین
سلمان بھیا اگر کوئی بندہ سہی معنوں میں تخلیق کار ہے تو وہ کبھی چُپ بیٹھ ہی نہیں سکتا ہے ۔یعنی وہ یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ اب نہیں لکھا جاتا ۔اگر واقعی ایسا ہے تو اسے تخلیق کار نہیں کہا جائے گا کہ تخلیق کار کے ذہن میں کچھ نا کچھ کُلبُلاتا رہتا ہے ۔اور معاشرے کی بے حسی یا خوبصورتی دیکھ کر خاموش ہو جائے ایسا نہیں ہو سکتا اور چونکہ آپ ایک تخلیق کار ہیں اس لئے دھڑا دھڑ لکھے جا رہے ہیں ۔ابھی کچھ ہی دن پہلے تو آپ کا ایک دھاگہ گاوں کے حوالہ سے کافی پاپولر رہا ہے اسی محفل میں اور پھر یہ اتنی خوبصورت غزل ۔آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ لکھا نہیں جاتا ۔نا بابا ایسا نہ کہئے ۔:)
اصلاحی بھائی آپ کا بڑا پن ہے کہ آپ مجھے تخلیق کار سمجھتے ہیں ورنہ مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس جتنے الفاظ تھے ان کے جتنے اشعار لکھ سکا، لکھ چکا اب تو بس نثرپر آگیا ہوں کہ چلو جو خیالات ذہن میں کلبلاتے ہیں وہ کچے پکے طریقے سے کسی نہ کسی صورت تو کاغذ پر اتاروں :)
اور گاؤں کے حوالے سے تو میں نے کچھ نہیں لکھا ابھی تک، کسی اور کی تخلیق تو میرے نام نہیں کر رہے؟ :( ہاں اپنے شہر کے بارے میں تھوڑا بہت لکھا تھا :)
 

سلمان حمید

محفلین
ااچھی غزل ہے۔
آخری شعر میں کس کو سلانے کی بات کی گئی ہے؟
بہت شکریہ انکل، آپ نے وقت نکال کر میرے اشعار پڑھے، میرے لیے یہ بھی کسی اعزاز سے کم نہیں :)
باقی سلانے کی تو شاعر اپنی ہی بات کر رہا ہے، شاید صحیح طرح بیان نہیں ہو رہا خیال۔
 
اصلاحی بھائی آپ کا بڑا پن ہے کہ آپ مجھے تخلیق کار سمجھتے ہیں ورنہ مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس جتنے الفاظ تھے ان کے جتنے اشعار لکھ سکا، لکھ چکا اب تو بس نثرپر آگیا ہوں کہ چلو جو خیالات ذہن میں کلبلاتے ہیں وہ کچے پکے طریقے سے کسی نہ کسی صورت تو کاغذ پر اتاروں :)
اور گاؤں کے حوالے سے تو میں نے کچھ نہیں لکھا ابھی تک، کسی اور کی تخلیق تو میرے نام نہیں کر رہے؟ :( ہاں اپنے شہر کے بارے میں تھوڑا بہت لکھا تھا :)
ارے وہی شہر والا بھیا ۔
میں بھی کتنا بھلکڑ ہوتا جا رہا ہوں ۔
 
Top