ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
اقدار و آداب تہذیب و تمدن کے عکاس ہوتے ہیں۔ ہمارے آداب و اقدار کا ہماری تاریخ اور مذہب سے گہرا تعلق رہا ہے۔ لیکن بدلتے زمانے کے ساتھ یہ آداب و اقدار زندگی کے ہر پہلو سے رفتہ رفتہ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ ذرائع مواصلات اور تیز رفتار سہولیاتِ سفر نے دنیا کو سکیڑ کر گویا ایک چھوٹی سی بستی کی شکل دے دی ہے اور اس بستی میں مجموعی طور پر مغربی رہن سہن اور اقدار کا اثر بتدریج حاوی ہوتا جا رہا ہے۔ ویسے تو اس موضوع پر آئے دن کئی تحاریر سامنے آتی رہتی ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس دھاگے میں مجلسی آداب کے متعلق چند باتیں عرض کروں۔ مجلسی آداب ہمارے تمدن کا خاصہ ہوا کرتے تھے خصوصاً شعر و ادب کی محفلوں میں ان کا اہتمام و التزام سختی سے کیا جاتا تھا اور شاید کسی حد تک اب بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن شعر و ادب کی وہ بزم جو اب انٹرنیٹ پر سجائی جاتی ہے اس میں مجلسی ادب آداب کا فقدان یا انحطاط واضح نظر آتا ہے۔ اس کی ایک وجہ غالباً ان مجلسی روایات سے ناواقفیت بھی ہے۔ میری اس تحریر کا مقصد قارئین کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف متوجہ کرنا ہے جو انٹرنیٹ پر میرے مشاہدے میں آئی ہیں۔ اس مضمون کے لکھنے کا خیال اور اس کی ابتدا تین چار سال پہلے ہوئی تھی لیکن بہت سارے اور کاموں کی طرح اس کی تکمیل میں تاخیر ہوتی چلی گئی۔ بہرحال ، دیر آید درست آید کے مصداق اب اس کو پوسٹ کر رہا ہوں۔
حاشا و کلا یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اب محفلین ایک دوسرے کو حسبِ مراتب (اور حسبِ توفیق) گالیاں دینا شروع کر دیں بلکہ اس نکتے کی وضاحت مقصود ہے کہ کسی بھی شخص کو اس کی عمر ، مرتبے اور اس سے اپنے ذاتی تعلق کے مطابق مخاطب کیا جاتا ہے اور مراسلے کا اسلوب بھی اسی مناسبت سے اختیار کیا جاتا ہے۔
۔۔۔ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے:
اردو زبان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تخاطب کے کئی انداز موجود ہیں جنہیں حسبِ موقع و مراتب استعمال کیا جاتا ہے۔ تو ، تم ، آپ کے ضمائر اور انہی کی مناسبت سے افعال کے صیغے موجود ہیں۔ بعض اوقات "اصلاح کر دے" یا اصلاح کردیں لکھا نظر آتا ہے۔ اس موقع پر اصلاح کر دیجیے یا اصلاح فرما دیجیے مناسب ہے کہ یہاں خطاب استاد سے ہے۔ بتاؤ ، بتا دو ، بتادیں ، بتا دیجیے ، بتا دیجیے گا وغیرہ کے صیغے حسبِ موقع و مراتب استعمال کرنا چاہئیں۔
علیک سلیک:
سلام کرنے (اور لکھنے) کا درست طریقہ السلام علیکم ہے۔ سلام علیکم ، سلام و علیکم ، السلام و علیکم وغیرہ درست نہیں۔ اب ایک نئی بدعت "سلام" کی صورت میں چل نکلی ہے۔ بلکہ بعض اوقات ایمیل کے شروع ؔمیں بزبانِ انگریزی "سلامز" بھی لکھا ہوا آتا ہے۔ جسے پڑھ کر بے اختیار زبان پر یہ مصرع آتا ہے : اُن کے خط میں مجھے انگریزی سلام آتے ہیں
وجودِ زن سے ہے لغات میں رنگ:
بعض حضرات اکثر کسی خاتون کو بہنا کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ یہ درست نہیں۔ بہنا یا ائے بہنا عورتوں کی زبان کا لفظ ہے۔ خواتین ایک دوسرے کو آپس میں کہتی ہیں۔ مرد حضرات اس کی جگہ خواہر، خواہرم یا بہن کہہ کر مخاطب کر سکتے ہیں۔ پرانی تہذیب میں خانہ دار مسلمان عورتوں اور بیگمات کی ایک مخصوص زبان ہوا کرتی تھی اور اس کے مخصوص الفاظ و محاورات ہوتے تھے ۔ یہ زبان اب بھی بعض خاندانوں اور گھرانوں میں رائج ہے۔ فرہنگِ آصفیہ کے مؤلف سید احمد دہلوی نے اس زبان کی ایک لغت بنام لغات النساء شائع کی تھی جو اب نادر و نایاب ہے۔
دعا دیتا ہوں رہزن کو:
گالی کی طرح دعا دینے کے بھی کچھ آداب ہیں۔ بچوں کے لئے خوش رہو ، جیتے رہو ، پھولو پھلو قسم کا صیغہ مناسب ہے۔ ذرا بڑے لیکن اپنے سے کم عمروں کو جیتے رہیے ، خوش رہیے کے صیغے میں دعا دی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ طرزِ تخاطب بڑے لوگوں اور خصوصاً بزرگوں کے لئے قطعاً نامناسب بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ اکثر کوئی کم عمر محفلین کسی بڑے کو "خوش رہیے" یا "خوش رہیں" کا لٹھ مارتا نظر آتا ہے۔ بڑوں کو اگر دعا دینی ہو تو وہ بھی ادب و احترام کے ساتھ دی جاتی ہے۔ اللّٰہ آپ کا سایا سلامت رکھے ، آپ کو خیر و عافیت سے رکھے ، اپنی امان میں رکھے ، خوش رکھے وغیرہ قسم کا پیرایہ استعمال کیا جاتا ہے۔
گفتگو میں جزاک اللّٰہ کا کلمہ اکثر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ درست نہیں۔ جزا کا مطلب بدلہ ہے اور یہ مثبت و منفی دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جزاک اللّٰہ خیر کہنا چاہیے یعنی اللّٰہ آپ کو اس عمل کا اچھا بدل یا انعام عطا فرمائے۔ (اصل فقرہ تو جزاک اللّٰہُ خیراً ہے لیکن اردو میں جزاک اللّٰہ خیر یا جزاک اللّٰہ خیرا دونوں طرح سے درست ہے)۔
غزل اس نے چھیڑی:
بزمِ سخن میں کسی سے کلام کی فرمائش کی جائے تو "غزل پیش کیجیے" نہیں بلکہ عطا کیجیے ، عنایت کیجیے ، ارشاد کیجیے ، مرحمت فرمائیے وغیرہ کہنا چاہیے۔ پیش کرنا تو انکساری کا صیغہ ہے۔ یہ تو کلام سنانے والا کہتا ہے کہ میں غزل پیش کرتا ہوں یعنی غزل پیشِ خدمت ہے۔
کلام پر داد دینے کے بھی روایتی طریقے ہیں۔سبحان اللّٰہ، واہ واہ ، خوب اور بہت خوب وغیرہ سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کلماتِ تحسین میں اب انٹرنیٹ کی برکت سے "زبردست" بھی شامل ہو گیا ہے۔ " مبارکباد قبول کیجیے" کا ایک نیا انداز بھی کبھی کبھار نظر آتا ہے( گویا غزل نہ ہوئی میٹرک کا رزلٹ ہوگیا ) ۔ خیر، داد بے اختیار اور بے ساختہ ہو تو کسی بھی طریقے میں کوئی قباحت نہیں۔ مقصد تو اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کرنا ہے۔ " کیا بات ہے" میرا پسندیدہ کلمۂ تحسین ہے۔ لیکن اس فقرے کے آخر میں فجائیہ (!) لگانا چاہیے۔ استفہامیہ (؟) لگانے کے نتائج خاطر خواہ نہیں نکلیں گے -
داد و تحسین کے جواب میں آداب ، تسلیمات ، نوازش ، مہربانی ، عنایت وغیرہ کہنا روایتی طور پر معروف و مقبول ہیں۔ ویسے شاعر جن الفاظ میں چاہے اظہارِ تشکر کرسکتا ہے، کوئی قباحت نہیں۔ اب انٹرنیٹ پر آگے جھک کر فرشی سلام کرنا تو ممکن نہیں۔ (ایک دفعہ ایسی کوشش کی تھی لیکن کیبورڈ سے ناک زخمی ہونے کے بعد آئندہ کو کان ہو گئے۔ )
ادب پہلا قرینہ ہے تمدن کے قرینوں میں:
یہ کہنے کی شاید ضرورت نہیں کہ شائستگی کسی بھی محفل (خصوصاً بزمِ شعر و ادب) کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ شائستہ زبان اور باادب رویوں سے باہمی محبت اور احترام کی فضا قائم ہوتی ہے۔ اچھے شرکا کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ جس محفل میں بچے بڑے ، خواتین اور بزرگ ہر عمر کے لوگ موجود ہوں وہاں اشارے بازی ، گھٹیا زبان ، بازاری الفاظ اور ناگفتہ بہ موضوعات سے پرہیز کرنا شرفا کا دستور ہے۔ اس قسم کی باتوں کے لئے ٹوئٹر یا فیس بک وغیرہ موجود ہیں۔ بدتہذیبی اور بداخلاقی کا مظاہری کرنے پرکسی کو انٹرنیٹ محفل سے نکالا تو نہیں جاسکتا لیکن اس کی اصل شخصیت کھل کر سب کے سامنے آجاتی ہے۔ اختلاف کے موقع پر طنز و تضحیک کے بجائے شگفتگی سے کام لینا چاہیے۔ کسی کی تصحیح کا زیادہ مؤثر طریقہ یہی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
اب اس سے پہلے کہ مجھ پر خدائی فوجدار کا الزام لگے اس تحریر کو یہاں انیسؔ کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں۔
اردو کوئی زباں نہیں تہذیب ہے جناب
اردو کو زندگی کا سلیقہ بنائیے
مشہور واقعہ ہے کہ جب غالب نے برہانِ قاطع (فارسی لغت) کے جواب میں اپنا رسالہ بنام قاطع برہان شائع کیا تو انہیں اپنے معاندین اور مخالفین کی طرف سے گالیوں بھرے خطوط موصول ہونے لگے۔ اسی طرح کے ایک خط کا شکوہ کرتے ہوئے غالب نے اپنے ایک دوست کو لکھا تھا کہ عموماً بچے کو ماں کی ، جوان کو بہن کی اور بوڑھے کو بیٹی کی گالی دی جاتی ہے تاکہ انہیں غصہ آئے۔ لیکن ان بدتہذیبوں کو تو گالی دینا بھی نہیں آتی۔ مجھ بڈھے کو ماں کی گالی دیتے ہیں!اردو کو زندگی کا سلیقہ بنائیے
حاشا و کلا یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اب محفلین ایک دوسرے کو حسبِ مراتب (اور حسبِ توفیق) گالیاں دینا شروع کر دیں بلکہ اس نکتے کی وضاحت مقصود ہے کہ کسی بھی شخص کو اس کی عمر ، مرتبے اور اس سے اپنے ذاتی تعلق کے مطابق مخاطب کیا جاتا ہے اور مراسلے کا اسلوب بھی اسی مناسبت سے اختیار کیا جاتا ہے۔
۔۔۔ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے:
اردو زبان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تخاطب کے کئی انداز موجود ہیں جنہیں حسبِ موقع و مراتب استعمال کیا جاتا ہے۔ تو ، تم ، آپ کے ضمائر اور انہی کی مناسبت سے افعال کے صیغے موجود ہیں۔ بعض اوقات "اصلاح کر دے" یا اصلاح کردیں لکھا نظر آتا ہے۔ اس موقع پر اصلاح کر دیجیے یا اصلاح فرما دیجیے مناسب ہے کہ یہاں خطاب استاد سے ہے۔ بتاؤ ، بتا دو ، بتادیں ، بتا دیجیے ، بتا دیجیے گا وغیرہ کے صیغے حسبِ موقع و مراتب استعمال کرنا چاہئیں۔
علیک سلیک:
سلام کرنے (اور لکھنے) کا درست طریقہ السلام علیکم ہے۔ سلام علیکم ، سلام و علیکم ، السلام و علیکم وغیرہ درست نہیں۔ اب ایک نئی بدعت "سلام" کی صورت میں چل نکلی ہے۔ بلکہ بعض اوقات ایمیل کے شروع ؔمیں بزبانِ انگریزی "سلامز" بھی لکھا ہوا آتا ہے۔ جسے پڑھ کر بے اختیار زبان پر یہ مصرع آتا ہے : اُن کے خط میں مجھے انگریزی سلام آتے ہیں
وجودِ زن سے ہے لغات میں رنگ:
بعض حضرات اکثر کسی خاتون کو بہنا کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ یہ درست نہیں۔ بہنا یا ائے بہنا عورتوں کی زبان کا لفظ ہے۔ خواتین ایک دوسرے کو آپس میں کہتی ہیں۔ مرد حضرات اس کی جگہ خواہر، خواہرم یا بہن کہہ کر مخاطب کر سکتے ہیں۔ پرانی تہذیب میں خانہ دار مسلمان عورتوں اور بیگمات کی ایک مخصوص زبان ہوا کرتی تھی اور اس کے مخصوص الفاظ و محاورات ہوتے تھے ۔ یہ زبان اب بھی بعض خاندانوں اور گھرانوں میں رائج ہے۔ فرہنگِ آصفیہ کے مؤلف سید احمد دہلوی نے اس زبان کی ایک لغت بنام لغات النساء شائع کی تھی جو اب نادر و نایاب ہے۔
دعا دیتا ہوں رہزن کو:
گالی کی طرح دعا دینے کے بھی کچھ آداب ہیں۔ بچوں کے لئے خوش رہو ، جیتے رہو ، پھولو پھلو قسم کا صیغہ مناسب ہے۔ ذرا بڑے لیکن اپنے سے کم عمروں کو جیتے رہیے ، خوش رہیے کے صیغے میں دعا دی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ طرزِ تخاطب بڑے لوگوں اور خصوصاً بزرگوں کے لئے قطعاً نامناسب بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ اکثر کوئی کم عمر محفلین کسی بڑے کو "خوش رہیے" یا "خوش رہیں" کا لٹھ مارتا نظر آتا ہے۔ بڑوں کو اگر دعا دینی ہو تو وہ بھی ادب و احترام کے ساتھ دی جاتی ہے۔ اللّٰہ آپ کا سایا سلامت رکھے ، آپ کو خیر و عافیت سے رکھے ، اپنی امان میں رکھے ، خوش رکھے وغیرہ قسم کا پیرایہ استعمال کیا جاتا ہے۔
گفتگو میں جزاک اللّٰہ کا کلمہ اکثر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ درست نہیں۔ جزا کا مطلب بدلہ ہے اور یہ مثبت و منفی دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جزاک اللّٰہ خیر کہنا چاہیے یعنی اللّٰہ آپ کو اس عمل کا اچھا بدل یا انعام عطا فرمائے۔ (اصل فقرہ تو جزاک اللّٰہُ خیراً ہے لیکن اردو میں جزاک اللّٰہ خیر یا جزاک اللّٰہ خیرا دونوں طرح سے درست ہے)۔
غزل اس نے چھیڑی:
بزمِ سخن میں کسی سے کلام کی فرمائش کی جائے تو "غزل پیش کیجیے" نہیں بلکہ عطا کیجیے ، عنایت کیجیے ، ارشاد کیجیے ، مرحمت فرمائیے وغیرہ کہنا چاہیے۔ پیش کرنا تو انکساری کا صیغہ ہے۔ یہ تو کلام سنانے والا کہتا ہے کہ میں غزل پیش کرتا ہوں یعنی غزل پیشِ خدمت ہے۔
کلام پر داد دینے کے بھی روایتی طریقے ہیں۔سبحان اللّٰہ، واہ واہ ، خوب اور بہت خوب وغیرہ سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کلماتِ تحسین میں اب انٹرنیٹ کی برکت سے "زبردست" بھی شامل ہو گیا ہے۔ " مبارکباد قبول کیجیے" کا ایک نیا انداز بھی کبھی کبھار نظر آتا ہے( گویا غزل نہ ہوئی میٹرک کا رزلٹ ہوگیا ) ۔ خیر، داد بے اختیار اور بے ساختہ ہو تو کسی بھی طریقے میں کوئی قباحت نہیں۔ مقصد تو اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کرنا ہے۔ " کیا بات ہے" میرا پسندیدہ کلمۂ تحسین ہے۔ لیکن اس فقرے کے آخر میں فجائیہ (!) لگانا چاہیے۔ استفہامیہ (؟) لگانے کے نتائج خاطر خواہ نہیں نکلیں گے -
داد و تحسین کے جواب میں آداب ، تسلیمات ، نوازش ، مہربانی ، عنایت وغیرہ کہنا روایتی طور پر معروف و مقبول ہیں۔ ویسے شاعر جن الفاظ میں چاہے اظہارِ تشکر کرسکتا ہے، کوئی قباحت نہیں۔ اب انٹرنیٹ پر آگے جھک کر فرشی سلام کرنا تو ممکن نہیں۔ (ایک دفعہ ایسی کوشش کی تھی لیکن کیبورڈ سے ناک زخمی ہونے کے بعد آئندہ کو کان ہو گئے۔ )
ادب پہلا قرینہ ہے تمدن کے قرینوں میں:
یہ کہنے کی شاید ضرورت نہیں کہ شائستگی کسی بھی محفل (خصوصاً بزمِ شعر و ادب) کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ شائستہ زبان اور باادب رویوں سے باہمی محبت اور احترام کی فضا قائم ہوتی ہے۔ اچھے شرکا کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ جس محفل میں بچے بڑے ، خواتین اور بزرگ ہر عمر کے لوگ موجود ہوں وہاں اشارے بازی ، گھٹیا زبان ، بازاری الفاظ اور ناگفتہ بہ موضوعات سے پرہیز کرنا شرفا کا دستور ہے۔ اس قسم کی باتوں کے لئے ٹوئٹر یا فیس بک وغیرہ موجود ہیں۔ بدتہذیبی اور بداخلاقی کا مظاہری کرنے پرکسی کو انٹرنیٹ محفل سے نکالا تو نہیں جاسکتا لیکن اس کی اصل شخصیت کھل کر سب کے سامنے آجاتی ہے۔ اختلاف کے موقع پر طنز و تضحیک کے بجائے شگفتگی سے کام لینا چاہیے۔ کسی کی تصحیح کا زیادہ مؤثر طریقہ یہی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
اب اس سے پہلے کہ مجھ پر خدائی فوجدار کا الزام لگے اس تحریر کو یہاں انیسؔ کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں۔
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
آخری تدوین: