مبارک چودھری
محفلین
بزم سجانے میں تو پل بھی نہیں لگتا
میں خود کو بلا لیتا ہوں جب جی نہیں لگتا
میں خود کو بلا لیتا ہوں جب جی نہیں لگتا
جب بن میں میرا دل تھا تو کچھ اور ہی رنگ تھا
اب رنگ ہے جو بن میں، میرا جی نہیں لگتا
اب رنگ ہے جو بن میں، میرا جی نہیں لگتا
وہ ریت ستارہ جو میرے ہاتھ پہ بکھرا
آکاش پہ، ساحل پہ، کہیں جی نہیں لگتا
آکاش پہ، ساحل پہ، کہیں جی نہیں لگتا
بہلاتا رہا دل کو میں لفظوں کی چمک سے
اس شعبدہ بازی میں بھی اب جی نہیں لگتا
اس شعبدہ بازی میں بھی اب جی نہیں لگتا
وہ ہم کو بھلا پائے، یہ ممکن تو نہیں ہے
ہم اس کو منا پائیں گے، یہ بھی نہیں لگتا
ہم اس کو منا پائیں گے، یہ بھی نہیں لگتا
حسرت کی گزرگاہ پہ امید کا بازار
پہلے جو لگا رہتا تھا، وہ بھی نہیں لگتا
پہلے جو لگا رہتا تھا، وہ بھی نہیں لگتا
آج اُس کی محبت میں عداوت کی جھلک ہے
آغوش میں بیٹھا ہے، گلے بھی نہیں لگتا
آغوش میں بیٹھا ہے، گلے بھی نہیں لگتا
اک رنگ اداسی کا ابھرتا ہے، وہ آنکھیں؛
جب موند کے کہتا ہے، کہ اب جی نہیں لگتا
جب موند کے کہتا ہے، کہ اب جی نہیں لگتا