بزم یار

محمل ابراہیم

لائبریرین
اُستاد محترم جناب احسن سمیع راحل صاحب

درج ذیل غزل پر یوں تو آپ نے کافی پہلے اصلاح دی تھی مگر میں لبمے وقفے کے بعد آج اسے دوبارہ ارسال کر پا رہی ہوں۔آپ کی نظر ثانی کی آرزومند _____
سحر

جو تم نہیں تو بزم میں، چراغ بھی جلے نہیں
ہیں رونقیں دھواں دھواں، دور مئے چلے نہیں

تھا اس کو زعم اس کے بن، مرا وجود کچھ نہیں
چلا گیا وہ چھوڑ کر ،ہم ہاتھ بھی ملے نہیں

کہ بستیوں میں سانپ کی،میں پل کے ہوں جواں ہوئی
مگر یہ بات اور ہے ،کہ مجھ سے وہ پلے نہیں

اڑان بھرنے کے لئے،پروں کو اپنے تول لو
سفر ہو کتنا بھی طویل ،فیصلہ ٹلے نہیں

تمام ہوگی کب یہ شب، گزر ہے اس کا کب تلک
وہ صبح لا مرے خدا، جو پھر کبھی ڈھلے نہیں
 

الف عین

لائبریرین
اس سے پہلے کہ راحل دیکھیں اسے، میں ہی دو باتیں کہہ دوں۔
مطلع کا ثانی مصرع بحر سے خارج ہے، دوسرا ٹکڑا محض فاعلن ہو گیا ہے بجائے مفاعلن کے۔
اس کا اگلا شعر بھی دوسرا مصرع خارج از بحر ہو گیا ہے، بحر میں ہ کے اسقاط بلکہ وصال کے ساتھ درست وزن ہو سکتا ہے
'ہمات بھی ملے نہیں' لیکن ہ کو الف کی طرح وصال نہیں کیا جا سکتا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
سر اب دیکھیے___

جو تم نہیں تو بزم میں ،چراغ بھی جلے نہیں
اُداسیاں ہیں چار سو، دل مرا لگے نہیں

تھا اس کو زعم اس کے بن ،مرا وجود کچھ نہیں
چلا گیا وہ چھوڑ کر،کف بھی ہم ملے نہیں

کہ بستیوں میں سانپ کی،میں پل کے ہوں جواں ہوئی
مگر یہ بات اور ہے، کہ مجھ سے وہ پلے نہیں

اڑان بھرنے کے لئے، پروں کو اپنے تول لو
سفر ہو کتنا بھی طویل،فیصلہ ٹلے نہیں

کھلے ہوئے تھے در سبھی،قریب تر تھیں منزلیں
صدا بھی شہرِ آرزو نے دی،پہ ہم گئے نہیں

چہار سو شمع کے کیوں، ہے رقص اضطراب سا
سجی ہے بزمِ عشق پر،کوئی بھی دل جلے نہیں

جو مجھ سے تم کو عار ہے،تو کیسے جوش و ولولے
ملاؤ ہاتھ دور سے ،لگاؤ تم گلے نہیں

تمام ہوگی کب یہ شب،گزر ہے اس کا کب تلک
وہ صبح لا مرے خدا، جو پھر کبھی ڈھلے نہیں
 
محمل بہن، آداب!
مجھے یاد پڑتا ہے کہ شاید آپ نے یہ غزل پہلے بھی پوسٹ کی تھی؟
خیر، استادِ محترم کے اصلاحی نکات کی متابعت کچھ مزید باتیں نوٹ کرلیجیے۔ آسانی کے پیش نظر اقتباس میں ہی سرخ رنگ میں لکھ دیے ہیں۔

جو تم نہیں تو بزم میں ،چراغ بھی جلے نہیں
اُداسیاں ہیں چار سو، دل مرا لگے نہیں
میرے خیال میں دوسرا مصرعہ اب بھی بحر میں نہیں
دوسرے ٹکڑے کا پہلا رکن فاعلن بن رہا ہے، جبکہ اس کو مفاعلن ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں مصرعۂ ثانی کے لئے اصل والا ہی بہتر تھا، وزن کی درستی کے بعد، مثلاً
دھواں دھواں تھیں رونقیں کہ دورِ مے چلے نہیں


تھا اس کو زعم اس کے بن ،مرا وجود کچھ نہیں
چلا گیا وہ چھوڑ کر،کف بھی ہم ملے نہیں
دوسرے مصرعے میں ’’کف بھی ہم ملے نہیں‘‘ کہنا غیر معیاری اور غیر فصیح معلوم ہوتا ہے۔ یہاں ’’ہم نے‘‘ ہونا چاہیے، لیکن وزن درست رکھنے کے لئے الفاظ کی نشست و ترتیب بدلنا پڑے گی۔

کہ بستیوں میں سانپ کی،میں پل کے ہوں جواں ہوئی
مگر یہ بات اور ہے، کہ مجھ سے وہ پلے نہیں
پہلا مصرعہ ’’کہ‘‘ سے شروع ہونا مجھے تو ہمیشہ ہی بہت عجیب لگتا ہے۔ دوسرے یہ کہ یہاں سانپ کی بستیاں نہیں، سانپوں کی بستی کہنا چاہیے۔
مگر یہ شعر مفہوم کے اعتبار سے بہت واجبی سا لگتا ہے، اس لئے میرے خیال میں اس کو نکال دیں تو بہترہے۔


اڑان بھرنے کے لئے، پروں کو اپنے تول لو
سفر ہو کتنا بھی طویل،فیصلہ ٹلے نہیں
یہاں دوسرے مصرعے میں وہی مطلع والا مسئلہ درپیش ہے، مصرعۂ ثانی کا دوسرا ٹکڑا فاعلن مفاعلن پر موزوں ہورہا ہے۔
سفر ہو کتنا بھی کٹھن، یہ فیصلہ ٹلے نہیں


کھلے ہوئے تھے در سبھی،قریب تر تھیں منزلیں
صدا بھی شہرِ آرزو نے دی،پہ ہم گئے نہیں
یہاں قافیہ درست نہیں۔ مطلع میں جلے اور چلے کی تخصیص ہوچکی، اب صرف وہی الفاظ بطور قافیہ لائے جا سکتے ہیں ج میں ’’لے‘‘ مشترک ہو اور ل سے پہلے والے حرف پر زبر ہو۔

چہار سو شمع کے کیوں، ہے رقص اضطراب سا
سجی ہے بزمِ عشق پر،کوئی بھی دل جلے نہیں
شمع کا تلفظ ٹھیک نہیں میرے خیال میں۔ شمع کی م اور ع دونوں ساکن ہوتی ہیں۔
اضطراب سا رقص؟؟؟ اگر اضطراب کا رقص کہا جائے تو شاید قابل قبول ہو۔
’’کوئی بھی دل جلے نہیں‘‘ کہنا بھی گرامر کے لحاظ سے ٹھیک نہیں کوئی کی تخصیص کے بعد واحد کا صیغہ آئے گا، یعنی کوئی بھی دل جلا نہیں۔
پھر دونوں مصرعوں کا ربط بھی واضح نہیں۔ گویا اگر ہم شعر کو یوں بھی فرض کرلیں
چہار سو کیوں شمع کے، ہے رقص اضطراب کا
سجی ہے بزمِ عشق پر یہاں پہ دل جلے نہیں
تب بھی مفہوم واضح نہیں ہوتا۔


جو مجھ سے تم کو عار ہے،تو کیسے جوش و ولولے
ملاؤ ہاتھ دور سے ،لگاؤ تم گلے نہیں
یہ بھی بہت واجبی سا شعر لگتا ہے، دور سے ہاتھ ہلایا تو جاسکتا ہے، ملایا کیسے جائے گا؟؟؟ دوبارہ فکر کر کے دیکھیں، نہیں تو نکال دیں۔

تمام ہوگی کب یہ شب،گزر ہے اس کا کب تلک
وہ صبح لا مرے خدا، جو پھر کبھی ڈھلے نہیں
درست
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جو تم نہیں تو بزم میں، چراغ بھی جلے نہیں
ہیں رونقیں دھواں دھواں، دور مئے چلے نہیں

تھا اس کو زعم اس کے بن، مرا وجود کچھ "نہیں"
چلا گیا وہ چھوڑ کر ،ہم ہاتھ بھی ملے نہیں
الف عین محمّد احسن سمیع :راحل:
ممکن تو نہیں کہ آپ حضرات کی نگاہوں سے اوجھل ہوا ہو مگر میں اطمینانِ قلب اور اپنی جہالت دور کرنے کے لیے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ردیف کسی قافیہ کے بغیر بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے جیسا کہ دوسرے شعر میں "نہیں" کا استعمال ہوا ہے
 
کیا ردیف کسی قافیہ کے بغیر بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے جیسا کہ دوسرے شعر میں "نہیں" کا استعمال ہوا ہے
abdul.rouf620 بھائی
یہ دراصل غزل کے معمولی عیوب میں سے ہے، جسے تقابل ردیفین کہتے ہیں۔ اس سے احتراز کرنا بہرحال بہتر ہے۔
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
ہاں سر اسے میں نے پہلے پوسٹ کیا تھا اور اصلاح بھی ملی تھی مجھے۔

اس غزل نے بہت تھکا دیا بن ہی کے نہیں دے رہی۔۔۔۔۔اب کی بار تو پوری غزل کا ستیا ناس ہو گیا(n)

خیر پھر سے کوشش کرتی ہوں۔
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
سر اگر اس شعر کو یوں کر دیں ۔


تھا اُس کو زعم اس کے بن ،مرا وجود کچھ نہیں
چلا گیا وہ چھوڑ کر،پہ ہاتھ ہم ملے نہیں
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
اب کچھ ٹھیک ہے سر!


جو تم نہیں تو بزم میں ،چراغ بھی جلے نہیں
ہیں رونقیں دھواں دھواں،کہ دور مئے چلے نہیں

تھا اس کو زعم اس کے بن ،مرا وجود کچھ نہیں
چلا گیا وہ چھوڑ کر، پہ ہاتھ ہم ملے نہیں

اڑان بھرنے کے لئے، پروں کو اپنے تول لو
سفر ہو کتنا بھی کٹھن، یہ فیصلہ ٹلے نہیں

بہت حسین شام ہے،مگر یہ مجھ کو کیا ہوا؟
کیوں دل اُداس ہے مرا؟کیوں اس میں ولولے نہیں؟

سنبھالا جب سے ہوش ہے،ہیں جھیلی صرف مشکلیں
ہم ایسے سخت جان ہیں،جو عیش میں پلے نہیں

تمام ہوگی کب یہ شب،گزر ہے اس کا کب تلک
وہ صبح لا مرے خدا، جو پھر کبھی ڈھلے نہیں

وہ اور لوگ تھے سحر،جو رومیو اور قیس تھے
ہے اب بھی عاشقوں کا رش،پر ویسے دل جلے نہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
وہ اور لوگ تھے سحر،جو رومیو اور قیس تھے
ہے اب بھی عاشقوں کا رش،پر ویسے دل جلے نہیں

"رش" تو انگریزی کا لفظ ہے عمومی طور پر یا پھر مزاحیہ شاعری میں تو استعمال ہوتا ہو گا مگر سنجیدہ شاعری میں تو اساتذہ کبھی اجازت نہیں دیں گے
 
"رش" تو انگریزی کا لفظ ہے عمومی طور پر یا پھر مزاحیہ شاعری میں تو استعمال ہوتا ہو گا مگر سنجیدہ شاعری میں تو اساتذہ کبھی اجازت نہیں دیں گے
اساتذہ کی رائے یقیناً واجب الاحترام ہے، تاہم میری ناچیز رائے میں یہ لفظ تو اردو میں اس قدر کثرت سے مستعمل ہے کہ اب اس کو اسی طرح برتنا چاہیے جیسے عربی اور فارسی الفاظ کو برتا جاتا ہے۔ میرے خیال میں کم از کم نوجوان شعرا کو تو اس معاملے میں کچھ رعایت دی جانی چاہیے۔ ہاں، مصرعے میں الفاظ کی ترتیب و نشست کے حساب سے کوئی لفظ جچ بھی رہا ہو ۔۔۔ یہ الگ قصہ ہے۔ اور یہ صرف انگریزی الفاظ کے ساتھ خاص نہیں۔ کچھ عربی اور فارسی زدہ نئے شعرا تو لگتا ہے عربی اور فارسی کی لغات سامنے رکھ کر شعر کہتے ہیں۔ اس قدر اجنبی اور نامانوس الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ تشریح کرنے کے لئے فرہنگِ آصفیہ بھی کافی نہیں رہتی :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اساتذہ کی رائے یقیناً واجب الاحترام ہے، تاہم میری ناچیز رائے میں یہ لفظ تو اردو میں اس قدر کثرت سے مستعمل ہے کہ اب اس کو اسی طرح برتنا چاہیے جیسے عربی اور فارسی الفاظ کو برتا جاتا ہے۔ میرے خیال میں کم از کم نوجوان شعرا کو تو اس معاملے میں کچھ رعایت دی جانی چاہیے۔ ہاں، مصرعے میں الفاظ کی ترتیب و نشست کے حساب سے کوئی لفظ جچ بھی رہا ہو ۔۔۔ یہ الگ قصہ ہے۔ اور یہ صرف انگریزی الفاظ کے ساتھ خاص نہیں۔ کچھ عربی اور فارسی زدہ نئے شعرا تو لگتا ہے عربی اور فارسی کی لغات سامنے رکھ کر شعر کہتے ہیں۔ اس قدر اجنبی اور نامانوس الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ تشریح کرنے کے لئے فرہنگِ آصفیہ بھی کافی نہیں رہتی :)
پہلے میں ایک خاموش قاری تھا محفل کا چکر لگاتا ہر ایک کی بات سنتا اور چلا جاتا جتنا کچھ نیا سیکھنے کو ملتا وہ کچھ دیر میں دماغ سے محو ہو جاتا ا ور اب جب کہ جاسمن کے کہنے پر میں اپنی حاضری کو درج کراتا ہوں یعنی لب کشائی شروع کر دی ہے تو سیکھنے کو مل رہا ہے جس پر ذاتی تجربہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ پلے بھی پڑ رہا ہے جس کے محو ہو جانے کا اندیشہ بھی نہیں ہو رہا :)
 
تھا اس کو زعم اس کے بن ،مرا وجود کچھ نہیں
چلا گیا وہ چھوڑ کر، پہ ہاتھ ہم ملے نہیں
بیٹا مسئلہ اس شعر کے مصرعۂ ثانی کے دوسرے جزو میں ہے۔ ’’ہاتھ ہم ملے نہیں‘‘ کہنا غیر معیاری ہے۔ پوری غزل ہی پوربی ٹائپ عوامی لہجے میں کہی گئی ہو تو پھر بھی قابل ہوسکتا تھا، مگر موجودہ صورت میں یہ مناسب نہیں لگتا۔ کچھ اس طرح کیا جاسکتا ہے۔
تھا اس کو زعم، اس کے بن، مرا وجود کچھ نہیں
مگر وہ جب گیا تو ہم نے ہاتھ تک ملے نہیں!

بہت حسین شام ہے،مگر یہ مجھ کو کیا ہوا؟
کیوں دل اُداس ہے مرا؟کیوں اس میں ولولے نہیں؟
کیوں کی واؤ کا دونوں دفعہ اسقاط اچھا نہیں۔ دوسرے مصرعے میں الفاظ کی ترتیب بدل دیں تو بہتر رہے گا۔
ہے دل مرا اداس کیوں؟ کیوں اس میں ولولے نہیں؟

وہ اور لوگ تھے سحر،جو رومیو اور قیس تھے
ہے اب بھی عاشقوں کا رش،پر ویسے دل جلے نہیں
دونوں مصرعے بحر میں نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں رومیو اور قیس کا ایک ہی بریکٹ میں آنا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔
دوانے مثلِ قیس یاں، کہاں رہے ہیں اب سحرؔ
ہجومِ عاشقاں ہے بس، مگر وہ دل جلے نہیں
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
پہلے میں ایک خاموش قاری تھا محفل کا چکر لگاتا ہر ایک کی بات سنتا اور چلا جاتا جتنا کچھ نیا سیکھنے کو ملتا وہ کچھ دیر میں دماغ سے محو ہو جاتا ا ور اب جب کہ جاسمن کے کہنے پر میں اپنی حاضری کو درج کراتا ہوں یعنی لب کشائی شروع کر دی ہے تو سیکھنے کو مل رہا ہے جس پر ذاتی تجربہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ پلے بھی پڑ رہا ہے جس کے محو ہو جانے کا اندیشہ بھی نہیں ہو رہا :)

زبردست۔
واقعی عبدالروف ! یہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔:)
الحمدللہ۔
 
Top