علی فاروقی
محفلین
بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی میرا ہے
آنکھیں بھی میری خوابِ پریشاں بھی میرا ہے
جو ڈوبتی جاتی ہے وہ کشتی بھی ہے میری
جو ٹوٹتا جاتا ہے وہ پیماں بھی میرا ہے
جو ہاتھ اُٹھے تھے وہ سبھی ہاتھ تھے میرے
جو چاک ہو اہے وہ گریباں بھی میرا ہے
جس کی کوئی آواز نہ پہچان نہ منزل
وہ قافلہِ بے سر ساماں بھی میرا ہے
ویرانہ مقتل پہ ہجاب آیا تو اس بار
خود چیخ پڑا میں کہ یہ عنواں بھی میرا ہے
وارفتگئ صبحِ بشارت کو خبر کیا
اندیشہ ءِ صد شامِ غریباں بھی میرا ہے
میں وارثِ گُل ہوں کہ نہیں ہوں مگر اے جاں
خمیازہءِ توہینِ بہاراں بھی میرا ہے
مٹی کو گواہی سے بڑی دل کی گواہی
یوں ہو تو یہ زنجیر یہ زنداں بھی میرا ہے
آنکھیں بھی میری خوابِ پریشاں بھی میرا ہے
جو ڈوبتی جاتی ہے وہ کشتی بھی ہے میری
جو ٹوٹتا جاتا ہے وہ پیماں بھی میرا ہے
جو ہاتھ اُٹھے تھے وہ سبھی ہاتھ تھے میرے
جو چاک ہو اہے وہ گریباں بھی میرا ہے
جس کی کوئی آواز نہ پہچان نہ منزل
وہ قافلہِ بے سر ساماں بھی میرا ہے
ویرانہ مقتل پہ ہجاب آیا تو اس بار
خود چیخ پڑا میں کہ یہ عنواں بھی میرا ہے
وارفتگئ صبحِ بشارت کو خبر کیا
اندیشہ ءِ صد شامِ غریباں بھی میرا ہے
میں وارثِ گُل ہوں کہ نہیں ہوں مگر اے جاں
خمیازہءِ توہینِ بہاراں بھی میرا ہے
مٹی کو گواہی سے بڑی دل کی گواہی
یوں ہو تو یہ زنجیر یہ زنداں بھی میرا ہے