بسمل عظیم آبادی -- تنگ آگئے ہیں کیا کریں اِس زندگی سے ہم

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
بسمل عظیم آبادی
تنگ آگئے ہیں کیا کریں اِس زندگی سے ہم
گھبرا کے پُوچھتے ہیں اکیلے میں جی سے ہم
مجبُوریوں کو اپنی، کہیں کیا کسی سے ہم
لائے گئے ہیں ، آئے نہیں ہیں خوشی سے ہم
کمبخت دل کی مان گئے ، بیٹھنا پڑا
یوں تو ہزار بار اُٹھے اُس گلی سے ہم
یارب! بُرا بھی ہو دلِ خانہ خراب کا
شرما رہے ہیں اِس کی بدولت کسی سے ہم
دن ہی پہاڑ ہے! شَبِ غم کیا ہو، کیا نہ ہو
گھبرا رہے ہیں آج سرِ شام ہی سے ہم
دیکھا نہ تم نے آنکھ اُٹھا کربھی ایک بار
گُزرے ہزار بار تمہاری گلی سے ہم
مطلب یہی نہیں؟ دلِ خانہ خراب کا
کہنے میں اِس کے آئیں، گُزرجائیں جی سے ہم
چھیڑا عدُو نے، رُوٹھ گئے ساری بزْم سے
بولے، کہ اب نہ بات کریں گے کسی سے ہم
تم سُن کے کیا کرو گے کہانی غریب کی
جوسب کی سُن رہا ہے، کہیں گے اُسی سے ہم
محفل میں اُس نے غیر کو، پہلو میں دی جگہ
گُزری جو دل پہ کیا کہیں بسمل کسی سے ہم
بسمل عظیم آبادی
(سیّد شاہ محمد حسن عرف چھبو)
1978 - 1900
 
Top