کاشفی
محفلین
غزل
(فرزانہ خان نیناں)
بسی ہے یاد کوئی آکے میرے کاجل میں
لپٹ گیا ہے اَدھورا خیال آنچل میں
میں ایک سیپ ابھی مجھ کو تہہ میں رہنے دو
گہر بنا نہیںکرتے ہیں ایک دو پَل میں
خزاں کا دور ہے لیکن کسی کی چاہت سے
دھڑک رہی ہے بہار ایک ایک کونپل میں
میں زندگی کے لیئے پھول چننا چاہتی ہوں
کہیں اداس نہ ہو وہ خزاں زدہ کل میں
اُسی چراغ کی لَو سے یہ دل دھڑکتا ہے
جلائے رکھتی ہوںجس کو شبِ مسلسل میں
ٹپک رہے ہیںدَر و بام سے مرے آنسو
چھپے ہوئے تھے ابھی تک وہ جیسے بادل میں
یہ تتلیوںکی طرح خوشگوار سے نیناں
بلا رہے ہیںتمہیں روشنی کے جنگل میں
(فرزانہ خان نیناں)
بسی ہے یاد کوئی آکے میرے کاجل میں
لپٹ گیا ہے اَدھورا خیال آنچل میں
میں ایک سیپ ابھی مجھ کو تہہ میں رہنے دو
گہر بنا نہیںکرتے ہیں ایک دو پَل میں
خزاں کا دور ہے لیکن کسی کی چاہت سے
دھڑک رہی ہے بہار ایک ایک کونپل میں
میں زندگی کے لیئے پھول چننا چاہتی ہوں
کہیں اداس نہ ہو وہ خزاں زدہ کل میں
اُسی چراغ کی لَو سے یہ دل دھڑکتا ہے
جلائے رکھتی ہوںجس کو شبِ مسلسل میں
ٹپک رہے ہیںدَر و بام سے مرے آنسو
چھپے ہوئے تھے ابھی تک وہ جیسے بادل میں
یہ تتلیوںکی طرح خوشگوار سے نیناں
بلا رہے ہیںتمہیں روشنی کے جنگل میں