مغزل
محفلین
غزل
بس آنکھ لایا ھُوں اور وُہ بھی تَر نہیں لایا
حوالہ دھیان کا مَیں مُعتبر نہیں لایا
سوائے اسکے تعارف کوئی نہیں میرا
میں وُہ پرندہ ھُوں جو اپنے پر نہیں لایا
نجانے کس کو ضرورت پڑے اندھیرے میں
چراغ راہ میں دیکھا تھاگھر نہیں لایا
مُجھے اکیلا حدِ وقت سے گُزرنا ھے
میں اپنے ساتھ کوئی ھم سفر نہیں لایا
گُلِ سیاہ کِھلا ھے تو رو پڑا ھُوں میں
کہ روشنی کا شجر بھی ثمر نہیں لایا
شُمار کر ابھی چنگاریاں مرے ناقد
کہ مَیں الاؤ اُٹھا کے اِدھر نہیں لایا
مری روانی کی اب خیر ھو مرے مالک
ستارہ ٹُوٹ کے اچھی خبر نہیں لایا!
بھنور نکال کے لایا ھُوں میں کنارے پر
مُجھے نکال کے کوئی بھنور نہیں لایا
رفیع رضا ( ٹورانٹو )
بس آنکھ لایا ھُوں اور وُہ بھی تَر نہیں لایا
حوالہ دھیان کا مَیں مُعتبر نہیں لایا
سوائے اسکے تعارف کوئی نہیں میرا
میں وُہ پرندہ ھُوں جو اپنے پر نہیں لایا
نجانے کس کو ضرورت پڑے اندھیرے میں
چراغ راہ میں دیکھا تھاگھر نہیں لایا
مُجھے اکیلا حدِ وقت سے گُزرنا ھے
میں اپنے ساتھ کوئی ھم سفر نہیں لایا
گُلِ سیاہ کِھلا ھے تو رو پڑا ھُوں میں
کہ روشنی کا شجر بھی ثمر نہیں لایا
شُمار کر ابھی چنگاریاں مرے ناقد
کہ مَیں الاؤ اُٹھا کے اِدھر نہیں لایا
مری روانی کی اب خیر ھو مرے مالک
ستارہ ٹُوٹ کے اچھی خبر نہیں لایا!
بھنور نکال کے لایا ھُوں میں کنارے پر
مُجھے نکال کے کوئی بھنور نہیں لایا
رفیع رضا ( ٹورانٹو )