مخلص انسان
محفلین
ہزار غم ہیں زمانے میں ، تیرا غم ہی نہیں
جگر بھی چاک ہے جن پر ، یہ آنکھ نم ہی نہیں
کبھی تو اپنے ہی گھر سے نکل کے دیکھ ذرا
ہر ایک چوک پہ بھوکے بھکاریوں کی صدا
نجانے شہر میں پھیلی ہوئی ہے کیسی وبا
کہ ہسپتال سے غائب ہوئے طبیب و دوا
کہیں تو بھوک نے ڈالا ہوا ہے ڈیرہ ، کہیں
نئی رسوم کے پیچھے ہوا غذا کا ضیاع
اناج تک کو جلاتے ہیں حاسدین کہیں
کسی کسان کے کھیتوں سے دیکھ ، دھواں اٹھا
ترقیوں کی منازل کو گامزن یہ جہاں
فقیح شہر کے گھر سے بھی اٹھے شرم و حیا
یہ قتل و غارت انساں ، اسی کے ہاتھوں سے
یہ رنج و کرب میں ڈوبے ہوؤں کی آہ و بقا
ہر ایک موڑ پہ بے شرمیوں کا جم غفیر
ہر ایک بام پہ نوحہ کناں ہے روح وفا
یہ جنگ ، جس میں ہوئے جا رہے ہیں قتل جواں
کبھی یہاں تو کبھی اس طرف جنازہ اٹھا
یہ دیکھ زر نے لگائی کسی کی کیا قیمت
یہ دیکھ بھوک نے بیچی ہے آج اپنی قبا
یہ روز روز سیاست کے ہیچ مکر و فریب
کہ شرم سار ہے وعدوں پہ جن کے روح وفا
شکست ہو گیا قانون و ضابطے کا وجود
کہ جب امیر کے در پر کوئی غریب جھکا
پھٹا نہ آسماں کہ مل کے شہر والوں نے
کسی غریب کی ننھی کلی کو نوچ لیا
ہزار غم ہیں زمانے میں ، تیرا غم ہی نہیں
جگر بھی چاک ہے جن پر، یہ آنکھ نم ہی نہیں
مگر یہ دیکھ ، میرے دردناک نغموں نے
کیا کبھی تو فقط تجھ سے ہی کلام کیا
کبھی چلی تو تیرے گیسوؤں کی بات چلی
تیرا ہی ذکر کیا ، صبح کیا ، شام کیا
تجھی کو میں نے پکارا ، ہر ایک دم ، ہر سو
تُجھی کو یاد میری جاں ، ہر ایک گام کیا
نظر چرا کے زمانے کی ہر اذیت سے
ہر ایک لفظ قلم کا ، تیرے ہی نام کیا
مگر یہ دکھ بھی مجھے عمر بھر جلائے گا
کہ تیری چاہتوں کے ریختوں کو عام کیا
ہزار غم ہیں زمانے میں تیرا غم ہی نہیں
جگر بھی چاک ہے جن پر، یہ آنکھ نم ہی نہیں
بس ایک عہد وفا ہے، نبھا رہا ہوں میں
نہیں کہ میرے سسکتے قلم میں دم ہی نہیں
جگر بھی چاک ہے جن پر ، یہ آنکھ نم ہی نہیں
کبھی تو اپنے ہی گھر سے نکل کے دیکھ ذرا
ہر ایک چوک پہ بھوکے بھکاریوں کی صدا
نجانے شہر میں پھیلی ہوئی ہے کیسی وبا
کہ ہسپتال سے غائب ہوئے طبیب و دوا
کہیں تو بھوک نے ڈالا ہوا ہے ڈیرہ ، کہیں
نئی رسوم کے پیچھے ہوا غذا کا ضیاع
اناج تک کو جلاتے ہیں حاسدین کہیں
کسی کسان کے کھیتوں سے دیکھ ، دھواں اٹھا
ترقیوں کی منازل کو گامزن یہ جہاں
فقیح شہر کے گھر سے بھی اٹھے شرم و حیا
یہ قتل و غارت انساں ، اسی کے ہاتھوں سے
یہ رنج و کرب میں ڈوبے ہوؤں کی آہ و بقا
ہر ایک موڑ پہ بے شرمیوں کا جم غفیر
ہر ایک بام پہ نوحہ کناں ہے روح وفا
یہ جنگ ، جس میں ہوئے جا رہے ہیں قتل جواں
کبھی یہاں تو کبھی اس طرف جنازہ اٹھا
یہ دیکھ زر نے لگائی کسی کی کیا قیمت
یہ دیکھ بھوک نے بیچی ہے آج اپنی قبا
یہ روز روز سیاست کے ہیچ مکر و فریب
کہ شرم سار ہے وعدوں پہ جن کے روح وفا
شکست ہو گیا قانون و ضابطے کا وجود
کہ جب امیر کے در پر کوئی غریب جھکا
پھٹا نہ آسماں کہ مل کے شہر والوں نے
کسی غریب کی ننھی کلی کو نوچ لیا
ہزار غم ہیں زمانے میں ، تیرا غم ہی نہیں
جگر بھی چاک ہے جن پر، یہ آنکھ نم ہی نہیں
مگر یہ دیکھ ، میرے دردناک نغموں نے
کیا کبھی تو فقط تجھ سے ہی کلام کیا
کبھی چلی تو تیرے گیسوؤں کی بات چلی
تیرا ہی ذکر کیا ، صبح کیا ، شام کیا
تجھی کو میں نے پکارا ، ہر ایک دم ، ہر سو
تُجھی کو یاد میری جاں ، ہر ایک گام کیا
نظر چرا کے زمانے کی ہر اذیت سے
ہر ایک لفظ قلم کا ، تیرے ہی نام کیا
مگر یہ دکھ بھی مجھے عمر بھر جلائے گا
کہ تیری چاہتوں کے ریختوں کو عام کیا
ہزار غم ہیں زمانے میں تیرا غم ہی نہیں
جگر بھی چاک ہے جن پر، یہ آنکھ نم ہی نہیں
بس ایک عہد وفا ہے، نبھا رہا ہوں میں
نہیں کہ میرے سسکتے قلم میں دم ہی نہیں