فخرنوید
محفلین
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اب بہت جارحانہ موڈ میں ہیں۔ وہ اچھی حکمرانی کے حوالے سے بھی سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے وفاقی کابینہ میں رد و بدل کا فیصلہ کر لیا ہے اور ایسا ایوان صدرکی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ میرٹ کے مطابق ہوگا۔ وزیر اعظم شرم الشیخ سے ایک فاتح کے طور پر واپس آنے کے بعد بہت با اعتماد نظر آ رہے ہیں۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے حوالے سے ان کا جارحانہ موقف من موہن سنگھ کیلئے بہت بڑی حیرت تھی اور اب امور مملکت میں ایوان صدر کی مداخلت کے خلاف ان کا جارحانہ موقف آنے والے چند دنوں میں صدر زرداری کو حیران کر دے گا۔ ایوان صدر کی جانب سے فرانس میں پاکستان کے سفیر کے لیے ڈی ایم جی آفیسر جہاں زیب خان کی نمائندگی وزیر اعظم کی اتھارٹی کے لیے چیلنج تھی۔ یہ فیصلہ ایوان صدر کی جانب سے ٹیلیفون پر براہ راست دفتر خارجہ تک پہنچایا گیا تھا۔ وزیر اعظم نے کبھی فوری ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ انہوں نے چند روز انتظار کیا اور پھر یہ تجویز پیش کی کہ جہانزیب خان ڈی ایم جی کی ملازمت سے مستعفی ہو جائیں تو وہ انہیں فرانس میں سفیر مقرر کر دیں گے۔ جہانزیب خان فرانس میں چند برس کی سفارت کی خاطر ڈی ایم جی سروس کی قربانی دینے پر آمادہ نہیں تھے اور یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے ایوان صدر کی طرف سے تمام تر مہربانیاں ہونے کے باوجود جہانزیب خان کی نامزدگی کو مسترد کر دیا۔ وزیر اعظم گیلانی نے جہانزیب خان کی نامزدگی کو مسترد کر کے ہر کسی کو ایک بہت سخت پیغام دیا ہے۔ انہوں نے یہ فیصلہ پیپلز پارٹی اور کابینہ میں کئی ساتھیوں سے مشاورت کے بعد کیا ہے۔ وزیر اعظم گیلانی نے وفاقی کابینہ میں بھی کچھ حیرت انگیز تبدیلیوں کو حتمی شکل دے دی ہے۔ وہ کچھ اہم وزارتوں سے صدر زرداری کے کم از کم 3 اہم دوستوں کو ہٹانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ اس نمائندہ کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ” بس بہت ہو چکا، میں نے گزشتہ ایک سال کے دوران اپنے وزراء کی کارکردگی کا اندازہ لگا لیا ہے اور اب مجھے کسی کی پسند نا پسند نہیں بلکہ میرٹ کے مطابق کچھ تبدیلیاں کرنا ہیں کیونکہ میں 170 ملین افراد کے ملک کو چلانے کا ذمہ دار ہوں۔ وزیر اعظم نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وزیر داخلہ رحمان ملک کی جانب سے حکومت مخالف ایس ایم ایس اور ای میل پر ممکنہ اقدامات کے حالیہ اعلان پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے رحمان ملک کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں کسی کو بھی وفاقی کابینہ سے مشورہ کیے بغیر اعلانات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ” میں کسی ای میل یا ایس ایم ایس سے پریشان نہیں ہوں کیونکہ میرے خلاف کوئی کچھ نہیں بھیج رہا “۔ وزیر اعظم کے قریبی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے کم از کم 90 ارکان قومی اسمبلی کسی بھی صورتحال میں گیلانی کو اپنی حمایت کا یقین دلا چکے ہیں، ان کے علاوہ ن لیگ کے 91، ق لیگ کے 54، اے این پی کے 13 اور 16 آزاد ارکان وزیر اعظم گیلانی کا ساتھ دیں گے۔ ایوان صدر کی ممکنہ طاقت میں ایم کیو ایم کے 24، مولانا فضل الرحمٰن کے 6 اور پیپلز پارٹی کے کچھ وزراء سمیت دیگر 35 ارکان قومی اسمبلی شامل ہیں۔ صدر زرداری وزیر اعظم گیلانی کو ہٹانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں چونکہ گیلانی کو ایوان صدر کی جانب سے ان دیکھی مخالفت کے باوجود سادہ اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ وزیر اعظم کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ صدرکے کچھ قریبی ساتھی ان کی کردار کشی میں ملوث رہے ہیں۔ خاموشی سے کام کرنے والے ان لوگوں نے کچھ صحافیوں میں بھاری رقوم تقسیم کی ہیں تا کہ یہ ثابت کرایا جا سکے کہ گیلانی اچھے آدمی نہیں ہیں لیکن وہ ناکام ہوگئے۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ صدر زرداری براہ راست وزیر اعظم کی کردار کشی کی مہم میں ملوث رہے ہوں لیکن ان کے کچھ خاموش سپاہی اب بھی ان سے بہت قریب ہیں۔ تمام تر صدارتی اختیارات کے باوجود زرداری قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی جرات نہیں کر سکتے کیونکہ آئین کی دفعہ 58(3) کے تحت تحلیل کے 15 روز کے اندر صدر کو معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے اور سپریم کورٹ ایک ماہ میں فیصلہ سنا دے گی۔ وزیر اعظم گیلانی کو اعتماد ہے کہ نئی پارلیمنٹ 17 ویں ترمیم سے یقیناً جان چھڑا لے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا انتخابی منشور ہے ہم ن لیگ کی مدد سے میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کریں گے۔ وزیر اعظم گیلانی نے دعویٰ کیا کہ دراصل انہوں نے چند روز قبل صدر زرداری سے کہا تھا کہ وہ نواز شریف سے بات کریں۔ گیلانی نے کہا کہ میں نے صدر زرداری اور نواز شریف کے مابین تعطل ختم کرایا۔ وزیر اعظم گیلانی ایک سال تک دفاعی پوزیشن میں رہے ہیں لیکن اب ان کا رویہ جارحانہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے مستقبل کے کچھ منصوبوں سے دی نیوز کو آگاہ کیا اور کہا کہ ” میں ایک طاقتور پارلیمنٹ چاہتا ہوں اور مجھے ایک متحرک اور موثر کابینہ کی ضرورت ہے میں تاریخ رقم کرنا چاہتا ہوں، میں ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ دوبارہ چلواؤں گا اور یہ میرا آپ سے وعدہ ہے “۔