بس بہت ہوگئے نیلام ، چلو لوٹ چلو

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بس بہت ہوگئے نیلام ، چلو لوٹ چلو
اتنے ارزاں نہ کرو دام ، چلو لوٹ چلو

نہ مداوا ہے کہیں جن کا ، نہ امیدِ قرار
ہر جگہ ہیں وہی آلام ، چلو لوٹ چلو

معتبر ہوتی نہیں راہ میں گزری ہوئی رات
اس سے پہلے کہ ڈھلے شام ، چلو لوٹ چلو

ماہِ نخشب سے یہ چہرے ہیں نظر کا دھوکا
چاند اصلی ہے سرِ بام ، چلو لوٹ چلو

پتے اُڑتے ہیں ہواؤں میں پرندوں کی جگہ
رُت بدلنے کا ہے پیغام ، چلو لوٹ چلو

اس سے پہلے کہ زمانہ کوئی دیدے عنوان
واقعہ ہے ابھی بے نام ، چلو لوٹ چلو

اک ہوس کہتی ہے ’’کچھ دور ذرا اور ابھی“
اک صدا آتی ہے ہرگا م’’چلو لوٹ چلو “

منتظر کوئی نہیں مانا وہاں ، پھر بھی ظہیر
کچھ ادھورے ہیں ابھی کام ، چلو لوٹ چلو

ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۴​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا تلمیح ہے۔۔۔ اعلیٰ

بہت خوب سر۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔

سرکار ، جہاں ہم ہیں وہاں یہ تلمیح ایک تلخ حقیقت ہے۔ کبھی موقع ملے تو ہمارے پسندیدہ شاعر افتخار عارف کی ایک نظم ’’پس چہ باید کرد‘‘ پڑھئے گا ۔ میری پسندیدہ ترین نظموں میں سے ہے ۔ اکثر بے ساختہ زبان پر آتی ہے ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
سرکار ، جہاں ہم ہیں وہاں یہ تلمیح ایک تلخ حقیقت ہے۔ کبھی موقع ملے تو ہمارے پسندیدہ شاعر افتخار عارف کی ایک نظم ’’پس چہ باید کرد‘‘ پڑھئے گا ۔ میری پسندیدہ ترین نظموں میں سے ہے ۔ اکثر بے ساختہ زبان پر آتی ہے ۔
بلاشبہ وہ نظم ایک شاہکار ہے۔
 

شکیب

محفلین
بہت اعلیٰ ظہیر بھائی۔
معتبر ہوتی نہیں راہ میں گزری ہوئی رات
اس سے پہلے کہ ڈھلے شام ، چلو لوٹ چلو
مصرع اولیٰ میں ”ہوتی نہیں (ہوتِ نہی)“ پر نادیدہ سا وقفہ محسوس ہورہا ہے، نیز آپ اور عمدہ طریقے سےیہی مضمون باندھ سکتے ہیں، تاکہ رواں ہوجائے۔
مطلع اور مقطع سچ میں بے حد پسند آئے۔ ڈھیروں داد!
 
Top