بس محبت سے پیش آیا جائے
یہ طریقہ بھی آزمایا جائے
دل سے نفرت نکال کر دیکھوں
ہو بھی سکتا ہے، مسکرایا جائے
شاید آ جائے مجھ پر اُس کو رحم
اپنی حالت کو جا دِکھایا جائے
جان چھوڑے گا کب یہ پاگل پن
اور کب تک یہ منہ چھپایا جائے
پھر تو کچھ دیکھنے کو بچتا نہیں
رخ سے پردہ جو وہ، اٹھایا جائے
کیا ہے اوقات اِس جہان کی دوست
دل کو اُس یار سے لگایا جائے
جیتے رہنا ہی زندگی ہے عظیم
کس لیے آپ کو مٹایا جائے
*****