بس میں نہیں کہ شوقِ محبت بڑھاؤں میں
لیکن یہ طے کِیا ہے کہ چلتا ہی جاؤں میں
مجھ سے نظر چرا کے چلے عجز و انکسار
مٹی کو، اپنی خاک سے ، بہتر بتاؤں میں
پہنچے نہ میری ذات سے خلقِ خدا کو رنج
حتٰی کہ اِس کے پیر کے نیچے بھی آؤں میں
اب مجھ کو اس جہان کے دل جیتنے ہیں بس
کل تک یہ آرزو تھی بہت داد پاؤں میں
پہلے سی چشمِ تر میں روانی نہیں جو اب
پلکوں کے بھیگنے پہ بھی خوشیاں مناؤں میں
کھنچتا ہے شعر گوئی کی جانب ہی میرا دل
جتنی بھی اس طرف سے توجہ ہٹاؤں میں
جب تک نہیں کلام پہ قدرت مجھے عظیم
تب تک نہ کیوں، یہ طبعِ رواں آزماؤں میں
*****
السلام علیکم ۔ یہ غزل بابا (الف عین) سے اصلاح کے بعد پیش کی گئی ہے ۔ شکریہ