بظاہر ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ چیف جسٹس

زیرک

محفلین
بظاہر ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ چیف جسٹس
آج سپریم کورٹ آف پاکستان میں شریف خاندان کی سزا معطلی کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ”اسلام آباد فیصلہ بظاہر ماضی کے فیصلوں سے مطابقت نہیں رکھتا، کیا ماضی میں عدالت نے کبھی ایسا فیصلہ دیا؟۔ فیصلہ محفوظ کر کے تاثر دیا گیا کہ پہلے اپیل سنی جائے گی، اپیل سنی جاتی تو چند دنوں میں فیصلہ ہو سکتا تھا۔ ہائی کورٹ نے فیصلے میں قیاس آرائیوں اور شواہد کا ذکر کیا، کیا سزا معطلی کا فیصلہ ایسا ہو سکتا ہے؟۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ ''ایسا فیصلہ بر قرار نہیں رکھا جا سکتا''، ہائی کورٹ نے فیصلے میں سخت ترین الفاظ کا استعمال کیا۔ بظاہر ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ احتساب عدالت کے فیصلے میں کیا نقائص ہیں؟۔ احتساب عدالت کے فیصلے میں کوئی ایک نقص ہی دکھا دیں۔ اگلی سماعت پر فیصلہ معطل کرنے کے نقطے پر تیاری کر کے آئیں۔ جہاں تک لندن فلیٹس کی بات ہے تو اس کے لیے من و سلویٰ تو نہیں اتر رہا تھا؟ لندن فلیٹس درخت سے نہیں اُگے تھے، اثاثے اڑ کر تو نہیں آ گئے؟ ثابت نہ کرنا تو منفی تاثر پیدا کرتا ہے۔ اگر پراپرٹی کی ملکیت تسلیم کر لی تو بتانا پڑے گا کہ پراپرٹی کیسے خریدی گئی تھی۔ خواجہ حارث صاحب! صرف 6 دن ٹائم ہے لندن فلیٹس کی رسیدیں لائیں نہیں تو ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا جائے گا“۔ چیف جسٹس
 

جاسم محمد

محفلین
جہاں تک لندن فلیٹس کی بات ہے تو اس کے لیے من و سلویٰ تو نہیں اتر رہا تھا؟ لندن فلیٹس درخت سے نہیں اُگے تھے، اثاثے اڑ کر تو نہیں آ گئے؟ ثابت نہ کرنا تو منفی تاثر پیدا کرتا ہے۔ اگر پراپرٹی کی ملکیت تسلیم کر لی تو بتانا پڑے گا کہ پراپرٹی کیسے خریدی گئی تھی۔ خواجہ حارث صاحب! صرف 6 دن ٹائم ہے لندن فلیٹس کی رسیدیں لائیں نہیں تو ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا جائے گا“۔ چیف جسٹس
چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ نواز شریف خاندان نے اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک عدالت میں لندن فلیٹس کی منی ٹریل جمع نہیں کرائی۔ یعنی کہ وہ سارا کیس تکنیکی یا سیاسی بنیادوں پر لڑ کر عدالت سے ریلیف لینا چاہتے ہیں۔
اگر یہ کیس نواز شریف کے خلاف کسی سیاسی انتقام کا نتیجہ ہے۔ تو پچھلے سال وزیر اعظم عمران خان سے بھی ان کےبنی گالہ گھر سے متعلق عدالت نے رسیدیں مانگی تھی۔ جو ان کی سابقہ اہلیہ جمائماخان نے ڈھونڈ کر فراہم کر دی۔
جس کے بعد عدالت نے عمران خان کو صادق و امین کا لقب دے کر با عزت رخصت کیا تھا۔ یہی کام نواز شریف کے بچے کیوں نہیں کر رہے؟ کیونکہ بقول ان کے وکلا لندن فلیٹس کی ملکیت بچوں کے پاس ہے۔ تو ظاہر ہے منی ٹریل بھی وہ دیں اور اپنے بزرگ باپ اور بہن کو بری کر دیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ابھی تک ان فلیٹس کی منی ٹریل سامنے نہیں آئی؟کیا یہ صرف شریفین کی سیاست زندہ رکھنے کا بہانہ ہے؟ یا کوئی اور بات ہے؟
 

فاخر رضا

محفلین
چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ نواز شریف خاندان نے اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک عدالت میں لندن فلیٹس کی منی ٹریل جمع نہیں کرائی۔ یعنی کہ وہ سارا کیس تکنیکی یا سیاسی بنیادوں پر لڑ کر عدالت سے ریلیف لینا چاہتے ہیں۔
اگر یہ کیس نواز شریف کے خلاف کسی سیاسی انتقام کا نتیجہ ہے۔ تو پچھلے سال وزیر اعظم عمران خان سے بھی ان کےبنی گالہ گھر سے متعلق عدالت نے رسیدیں مانگی تھی۔ جو ان کی سابقہ اہلیہ جمائماخان نے ڈھونڈ کر فراہم کر دی۔
جس کے بعد عدالت نے عمران خان کو صادق و امین کا لقب دے کر با عزت رخصت کیا تھا۔ یہی کام نواز شریف کے بچے کیوں نہیں کر رہے؟ کیونکہ بقول ان کے وکلا لندن فلیٹس کی ملکیت بچوں کے پاس ہے۔ تو ظاہر ہے منی ٹریل بھی وہ دیں اور اپنے بزرگ باپ اور بہن کو بری کر دیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ابھی تک ان فلیٹس کی منی ٹریل سامنے نہیں آئی؟کیا یہ صرف شریفین کی سیاست زندہ رکھنے کا بہانہ ہے؟ یا کوئی اور بات ہے؟
Everyone is innocent until proven guilty beyond doubt
نیب کا قانون سیاسی انتقام کے لئے بنایا گیا ہے. نہ تو اس طرح انصاف ہوتا ہے نہ عدالتی کارروائی
یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ وکلاء سے کہا جاتا ہے کہ آپ کے پاس چھ دن کا وقت ہے ورنہ ہم ہر صورت میں فیصلہ سنا دیں گے. یہ انصاف نہیں کررہے
 

فرقان احمد

محفلین
میاں صاحب ایک بار پھر جیل جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے۔ جو 'معصوم فرشتے' ہیں، وہ دھمکیاں دے رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی رہی ہو گی کہ اُن کا دامن صاف ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
نیب کا قانون سیاسی انتقام کے لئے بنایا گیا ہے. نہ تو اس طرح انصاف ہوتا ہے نہ عدالتی کارروائی
حضرت نیب کیا، دیگر مہذب دنیا میں بھی یہی قانون ہے۔ آمدن سے زائد اثاثے بنائیں گے تو قانون حرکت میں آئے گا۔ ایک غریب چوری کرے اور گھر میں نیا سامان ڈلوا لے تو پورے اہل محلہ کو خبر ہو جاتی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ ادھر پاکستان میں ساری دال ہی کالی تھی مگر کسی قانون کو جرات نہ ہوئی کہ حکمرانوں کے آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق تفتیش کرے۔ اب اللہ اللہ کر کے پکڑ شروع ہوئی ہے تو اسے سیاسی انتقام کانام دیا گیا ہے۔
برطانیہ میں اثاثے، خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں
461402_45018005.jpg

لاہور: ( روزنامہ دنیا) برطانیہ نے نئے انسداد بدعنوانی قانون کا پہلا نشانہ بننے والی خاتون کا نام ظاہر کر دیا، وہ ایک کروڑ 15 لاکھ پاؤنڈ کا گھر بچانے کی کوشش میں تھی۔

برطانوی میڈیا کے مطابق ضمیرہ حاجی ایوا کا تعلق آذربائیجان سے ہے، وہ ایک سرکاری بینکار کی اہلیہ ہیں، انہوں نے دس سال کے دوران لندن کے پوش علاقے میں ایک کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ خرچ کئے، ایک بڑا گھر اور ایک گالف کورس خریدا۔ ہائی کورٹ نے انہیں دولت کے ذرائع بتانے کا حکم دیا ہے، ایسا نہ کرنے پر جائیداد ضبط ہو نے کا خطرہ ہے۔ نئے برطانوی قانون کے تحت حاجی ایوا کو نیشنل کرائم ایجنسی میں مکمل تفصیل فراہم کرنا ہے۔ اس قانون کا مقصد بدعنوان غیر ملکیوں کو نشانہ بنانا ہے۔

نیشنل کرائم ایجنسی کے مطابق کرپشن کی رقم سے برطانیہ میں اربوں پاؤنڈ کی املاک خریدی گئیں، ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے باعث مالکان پر مقدمہ چلانا لگ بھگ ناممکن تھا، مگر نئے قانون کے تحت ایسے مالکان کو دولت کے ذرائع بتانا ہو نگے، وگرنہ ہائی کورٹ میں جائیداد ضبطی کی درخواست دی جا سکتی ہے۔ انٹر نیشنل بینک آف آذربائیجان کے سابق چیئرمین جہانگیر حاجی ایوا کو 2016 میں غبن کے جرم میں 15 سال قید اور 3 کرو ڑ 90 لاکھ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

7 سال قبل برٹش ورجن آئی لینڈ کی ایک کمپنی نے لندن کے پوش علاقے میں ایک بڑے گھر کی خریداری کیلئے ایک کروڑ 15 لاکھ پاؤنڈ ادا کئے۔ 2013 میں حاجی ایوا کی ایک اور کمپنی نے گالف کلب خریدنے کیلئے ایک کروڑ پاؤنڈ سے زائد رقم خرچ کی۔ ہوم آفس نے امیر سرمایہ کاروں کی ویزا سکیم کے تحت اس جوڑے کو برطانیہ میں رہنے کی اجازت دی تھی۔ عدالت میں پیش تفصیلات کے مطابق خاتون نے مہنگے زیورات، پرفیوم اور گھڑیوں کی خریداری پر ایک دن میں ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ خرچ کئے، حاجی ایوا نے 4 کروڑ 20 لاکھ ڈالر مالیت کا ایک نجی جیٹ بھی خریدا تھا۔ حاجی ایوا کے وکلا کے مطابق نئے قانون کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی موکلہ یا ان کے شوہر نے کرپشن کی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے باعث مالکان پر مقدمہ چلانا لگ بھگ ناممکن تھا، مگر نئے قانون کے تحت ایسے مالکان کو دولت کے ذرائع بتانا ہو نگے، وگرنہ ہائی کورٹ میں جائیداد ضبطی کی درخواست دی جا سکتی ہے۔
یہ جو آپ لیگیوں سے آئے روز سنتے رہتے ہیں کہ نیب عدالت کا فیصلہ کمزور ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہی ٹھوس شواہد کا نہ ہونا ہے۔ البتہ نیب قانون اور حالیہ برطانوی قانون میں یہ شواہد فراہم کرنا ملزم کا کام ہے۔ جب آپ نے کسی اثاثے کی قانونی ملکیت تسلیم کر لی۔ تو اس کی منی ٹریل کی ذمہ داری اب آپ پر آجاتی ہے۔ بصورت دیگر یہ حرام کمائی کا اثاثہ ثابت ہو کر ضبط کر لیا جائے گا۔
یہاں پر چیف جسٹس صاحب بالکل صحیح فرما رہے ہیں کہ یہ کوئی من و سلویٰ نہیں جو آسمان سے اترے۔ کروڑوں پاؤنڈز کی جائیدادیں ہیں جن کا حساب دینا ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
میاں صاحب ایک بار پھر جیل جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے۔ جو 'معصوم فرشتے' ہیں، وہ دھمکیاں دے رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی رہی ہو گی کہ اُن کا دامن صاف ہے۔ :)
صاحب ایک نظریہواٹس ایپ گروپ والا ابھی بھی قائم و دائم ہے۔ ایک نظر فرما لیں :)
عدل قبل از ریٹائرمنٹ
تحریر: مطیع اللہ جان
جی ہاں بے شرمی اور اخلاقی بزدلی ہمارا قومی اثاثہ بنتی جا رہی ھے- منگل کو شریف خاندان کی سزاؤں کی معطلی کے خلاف نیب کی سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت میں جو کچھ ہوا اس سے پوری قوم کا سر شرم سے جھک جانا چاہئیے- پاکستان کی اعلی ترین عدالت کے سربراہ کا بھری عدالت میں جو رویہ دیکھنے کو ملا اس نے ساتھی ججوں کو بھی مجبور کر دیا کہ بہانے سے کاروائی ملتوی کرائی جائے- چیف جسٹس ثاقب نثار نے نہ صرف شریف خاندان کے اس کیس سے اپنے ذاتی جذباتی لگاؤ کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے ریمارکس سے اسلام آباد ہائی کورٹ، اسکے ججوں اور انکے فیصلے کو بھی سر عام تضحیک کا نشانہ بنایا- انکے اس غیر معمولی طور پر پہلے سے زیادہ جارحانہ روئیے کے سامنے ساتھی ججز اور وکلاء بے بسی اور پریشانی کی تصویر بنے نظر آئے- نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب کے پراسیکیوٹر اکرم قریشی دونوں نے ایک موقعے پر مشورہ دیا کہ چیف جسٹس کو اپنی صحت کی خاطر کچھ دن آرام کرنا چاہئیے تھا-
ایک دن پہلے اینجوپلاسٹی کروانے اور ملک میں امراض قلب کے سینئیر ترین ڈاکٹر جنرل کیانی اور ساتھی ججوں کے مشورے کے بھی برخلاف چیف جسٹس کا منگل کے روز ایک ڈاکٹر اور ویل چیئر سمیت سپریم کورٹ پہنچ جانا اور پھر محض شریف خاندان کے خلاف نیب اپیلوں کی سماعت کرنا انتہائی نامناسب اقدام تھا- منصف اعظم نے کمرہ عدالت میں از خود انکشاف کیا کہ انکے لیئے ایک ڈاکٹر کمرہ عدالت سے متصل دوسرے کمرے میں “ہنگامی صورت حال” سے نمٹنے تیار بیٹھا ھے اور یہ کہ جنرل کیانی نے بھی انہیں کام سے روکا ھے- حیرانی کی بات یہ تھی کہ سماعت کے دوران دو ساتھی ججز ایسے محتاط اور خاموش تھے جیسے کہ ڈاکٹر چیف جسٹس نہیں بلکہ انکے لیئے بلایا گیا تھا- سماعت کے دوران چیف جسٹس نے تابڑ توڑ ریمارکس دئیے اور ایک موقعے پر جب نواز شریف کے وکیل ایڈوکیٹ خواجہ حارث نے بات مکمل کرنے کی اجازت چاہی تو چیف صاحب جذباتی انداز میں بولے “خواجہ صاحب یہ سول کورٹ یا ہائی کورٹ نہیں ہے، یہ سپریم کورٹ ہے جہاں جج دلائل میں مداخلت کر سکتے ہیں اور آپکو پہلے جج کی بات سننی ہو گی۔” سماعت کے دوران معزز چیف جسٹس کا بار بار گلا خشک ہوا اور انہوں نے کئی مرتبہ پانی کا گلاس منہ سے لگا لیا- دوران سماعت چیف جسٹس نے ایسے ایسے ریمارکس دئیے کہ جو وزیر اطلاعات فواد چودھری یا عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر پریس کانفرنسوں میں دیتے رہے ہیں- ایسا کرتے ہوئے انہوں نے نہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ بلکہ سپریم کورٹ کے ساتھی ججوں کے کردار پر بھی سوال اٹھا دئیے- فرمایا کہ پاناما سکینڈل میں سپریم کورٹ کے ججوں نے معاملہ احتساب عدالت میں بھیج کر شریف خاندان پر مہربانی کی کیونکہ انکی ہمیشہ سے یہ رائے رہی ھے کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں ہی کر دینا چاہئیے تھا- ایسے بیان سے ایک چیف جسٹس نے اپنے ساتھی ججوں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الا حسن کی پیشہ وارانہ صلاحیت اور انکے کردار پر سوال اٹھا دیا ہے۔ آیا ان تین ججوں نے پاناما کیس احتساب عدالت بھیج کر شریف خاندان پر ذاتی مہربانی کی کہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا ؟ پھر یہ کہنا کہ اگر میں (بنچ پر) ہوتا تو سپریم کورٹ میں ہی فیصلہ کر دینا تھا- ایسے بیانات نہ صرف یہ کہ چیف جسٹس کے عہدے کے شایان شان نہیں بلکہ اعلی عدلیہ کہ ججوں کے ضابطہ اخلاق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہیں- ضابطہ اخلاق میں یہ واضح طور پر لکھا ھے کہ ججز حضرات ساتھی ججوں سے متعلق کوئی بات کرتے ہوئے احترام کا اور محتاط رویہ اختیار کرینگے- اس کے برخلاف چیف جسٹس نے تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے نامزد چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ کا بھی نام لیئے بغیر ان پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے فقہ قانون(jurisprudence) یعنی عدالتی فیصلوں کے ذریعہ طے شدہ قانونی معاملات کو تباہ کر کے رکھ دیا ھے- جسٹس من اللہ نے وہ فیصلہ تحریر کیا تھا جس میں انہوں نے شریف خاندان کو دی گئی جیل اور جرمانے کی سزاؤں کو معطل کر دیا تھا- باوجود اسکے کہ اس فیصلے میں بار بار کہا گیا تھا کہ یہ فیصلہ صرف ضمانت پر رہائی کی حد تک ہے اور اصل کیس کے شواہد سے متعلق حتمی رائے نہیں اور اس حوالے سے اپیلیں ابھی بھی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں چیف جسٹس انتہائی غصے میں نظر آ رہے تھے- خواجہ حارث نے اس سماعت میں صرف سزاؤں کی عارضی معطلی کے قانونی جواز پر بحث کرنا تھی- ابھی انہوں نے باقاعدہ طور پر اپنے دلائل شروع بھی نہیں کیئے تھے کہ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس سے شریف خاندان پر لگے پاناما الزامات پر براہ راست سوال کرنے شروع کر دئیے- یوں لگ رہا تھا کہ وہ نہ صرف سزاؤں کو بحال کر کے شریف خاندان کو دوبارہ جیل بھیج رہے ہیں بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اپیلوں کا حتمی فیصلہ بھی وہ اسی وقت سنا دیں گے- معاملہ صرف اتنا تھا کہ کیا ہائی کورٹ کی طرف سے سزاؤں کی عارضی معطلی اور دی گئی عارضی ضمانت کا کوئی ہلکا پھلکا سا قانونی جواز بنتا ھے؟ مگر چیف صاحب نے جذباتی انداز میں خواجہ حارث سے فواد چودھری کا پسندیدہ سوال پوچھ لیا کہ بتائیں لندن جائداد کس کی ھے۔ اس مرحلے پر جب اسلام آباد ہائی کورٹ اس سوال کے احتساب عدالت کے فیصلے میں تلاش کردہ جواب کی قانونی حیثیت کا جائزہ لی رہی ھے تو ایک چیف جسٹس کا سزاؤں کی محض عارضی معطلی کا جائزہ لیتے ہوئے ایسا براہ راست سوالکرنا از خود اس نام نہاد “فقہ قانون” کی عصمت دری سے کم نہیں- اس ساری شرمناک عدالتی سماعت کے بعد سینئیر وکلاُحضرات زیر لب مسگراتے باہر آئے تو اخلاقی بزدلی کا یہ عالم تھا کہ آف آ ریکارڈ تمام کاروائی پر افسوس کا اظہار کیا۔ افسوس اس بات کا ہوا کہ یہ سب کچھ کھلی عدالت میں ملک کے نامور وکلا کی نظروں کے سامنے ہوتا رہا- فقہ قانون اور قانون کے نام پر انہی دونوں کے ساتھ جوکمرہ عدالت میں ہوا بڑے بڑے قانون دان اس پر خاموش تماشائی بنے رہے- حتی کہ خواجہ حارث جیسا وکیل بھی قانون کو قربان کر کے اپنی وکالت بچاتا نظر آیا- شاید بندر کے ہاتھ استرے سے اپنی گردن بچانا ہی فرض ہوتا ھے دوسروں کی نہیں۔
چیف جسٹس کے پریس کانفرنس نما جارحانہ اور غیرُمناسب ریمارکس کی وجہ سب کو پتہ ھے- “واٹس ایپ گروپ” نے گزشتہ سویلین حکومت اور جمہوریت کا ایک سال سے زائد عرصہ جو سپریم کورٹ میں پاناما سلینڈل کے نام پر میڈیا ٹرائل کیا تھا اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک عارضی مگر دلائل سے بھرپور ضمانت کے فیصلے نے ہی اس کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی- گارڈ فادر اور سیسیلین مافیا جیسے القابات کے ذریعے سیاسی حکومت اور سیاست کو ذلیل کرنے والوں کے منہ پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ایک ذوردار طمانچہ ھے- لوگ پوچھتے ہیں کہ خلائی مخلوق اور عدالت عظمی پچھلے کئی سال سے مل کرایک منتخب حکومت اور ایک سیاسی جماعت کے احتساب کی جس دیگ کو ہلکی آنچ پر پکا رہے تھے اس میں سے کیوں کچھ نہیں نکلا؟
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان عوامی شکوک و شبہات کو اپنے یمارکس کے ذریعے رد کرنے کی ایک نحیف کوشش کی ہے- اور جب سارے میڈیا میں پاناما سکینڈل پر سپریم کورٹ کا اداراتی موقف ٹی وی ٹکروں اور ہیڈ لائنوں کی صورت چھپ گیا تو خواجہ حارث کا جوابی موقف اور جوابی ٹی وی ٹکر و ہیڈ لائنیں آنے سے پہلے ہی سماعت ملتوی کر دی گئی- آج اخبارات میں بھی سپریم کورٹ کا پاناما سکینڈل میں یکطرفہ اداراتی موقف چھپا ہے- نجانے کیوں معزز چیف جسٹس بستر مرگ (اللہ صحت دے) سے اٹھ کر شریف خاندان کا ہی کیس سننے سپریم کورٹ پہنچے- کیا ضروری ھے کہ پاناما کا کیس انکی ریٹائرمنٹ سے پہلے آخری حد یعنی نظر ثانی تک مخصوص حتمی فیصلے کی بھینٹ ہی چڑے؟ یوں لگتا ھے کہ شریف خاندان کی ضمانت منسوخ نہ بھی ہوئی تو تو اسلام ہائی کورٹ کو اصل اپیلوں کا فیصلہ مخصوص وقت سے پہلے کرنے کا کہا جائے گا جسکی کوئی ہائی کورٹ قانونا پابند نہیں ہوتی- جو نئی “فقہ قانون” جنم لے رہی ھے تو یہ بھی بعید نہیں کہ اگر مخصوص وقت سے پہلے اصل اسلام آباد ہائی کورٹ کی اپیلوں کا فیصلہ نہ ہوا تو اسکے بعد شریف خاندان کی ضمانت کو منسوخ تصور کیا جائے- بظاہر اٹھاراں جنوری سے پہلے نیب یا شریف خاندان کو ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل (دس دنوں میں) دائر کرنا اور اسکا چیف جسٹس کی عدالت میں ہی سماعت و فیصلہ ہونا ضروری دکھائی دے رہا ھے- سپریم کورٹ کے تاریخی پاناما ٹرائل یا میڈیا ٹرائل اور فیصلوں کی عزت جو داؤ پر لگی ھے- اور چیف جسٹس ریٹائر ہو گئے تو جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجازالحسن ویسے ہی وہ اپیلیں نہیں سن سکتے اور اگر چیف صاحب بھی ریٹائر ہو گئے تو معاملہ غیر یقینی صورت حال اختیار کر سکتا ہے- جب تک نظر ثانی کو مرحلہ باقی رہے گا تب تک ن لیگ کی سانسیں برقرار رہیں گی- اقامہ کو ہتھیار شاید ایسی ہی غیر یقینی صورت حال سے بچنے کیلیئے بروقت استعمال کر لیا گیا تھا- جو بھی ایک چیف کے ریٹائر ہونے سے کوئی زیادہ فرق بھی نہیں پڑتا- مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ فرق تو شاید دوسرے چیف کی ریٹائرمنٹ سے بھی نہیں پڑتا-
 

فرقان احمد

محفلین
صاحب ایک نظریہواٹس ایپ گروپ والا ابھی بھی قائم و دائم ہے۔ ایک نظر فرما لیں :)
عدل قبل از ریٹائرمنٹ
تحریر: مطیع اللہ جان
جی ہاں بے شرمی اور اخلاقی بزدلی ہمارا قومی اثاثہ بنتی جا رہی ھے- منگل کو شریف خاندان کی سزاؤں کی معطلی کے خلاف نیب کی سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت میں جو کچھ ہوا اس سے پوری قوم کا سر شرم سے جھک جانا چاہئیے- پاکستان کی اعلی ترین عدالت کے سربراہ کا بھری عدالت میں جو رویہ دیکھنے کو ملا اس نے ساتھی ججوں کو بھی مجبور کر دیا کہ بہانے سے کاروائی ملتوی کرائی جائے- چیف جسٹس ثاقب نثار نے نہ صرف شریف خاندان کے اس کیس سے اپنے ذاتی جذباتی لگاؤ کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے ریمارکس سے اسلام آباد ہائی کورٹ، اسکے ججوں اور انکے فیصلے کو بھی سر عام تضحیک کا نشانہ بنایا- انکے اس غیر معمولی طور پر پہلے سے زیادہ جارحانہ روئیے کے سامنے ساتھی ججز اور وکلاء بے بسی اور پریشانی کی تصویر بنے نظر آئے- نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب کے پراسیکیوٹر اکرم قریشی دونوں نے ایک موقعے پر مشورہ دیا کہ چیف جسٹس کو اپنی صحت کی خاطر کچھ دن آرام کرنا چاہئیے تھا-
ایک دن پہلے اینجوپلاسٹی کروانے اور ملک میں امراض قلب کے سینئیر ترین ڈاکٹر جنرل کیانی اور ساتھی ججوں کے مشورے کے بھی برخلاف چیف جسٹس کا منگل کے روز ایک ڈاکٹر اور ویل چیئر سمیت سپریم کورٹ پہنچ جانا اور پھر محض شریف خاندان کے خلاف نیب اپیلوں کی سماعت کرنا انتہائی نامناسب اقدام تھا- منصف اعظم نے کمرہ عدالت میں از خود انکشاف کیا کہ انکے لیئے ایک ڈاکٹر کمرہ عدالت سے متصل دوسرے کمرے میں “ہنگامی صورت حال” سے نمٹنے تیار بیٹھا ھے اور یہ کہ جنرل کیانی نے بھی انہیں کام سے روکا ھے- حیرانی کی بات یہ تھی کہ سماعت کے دوران دو ساتھی ججز ایسے محتاط اور خاموش تھے جیسے کہ ڈاکٹر چیف جسٹس نہیں بلکہ انکے لیئے بلایا گیا تھا- سماعت کے دوران چیف جسٹس نے تابڑ توڑ ریمارکس دئیے اور ایک موقعے پر جب نواز شریف کے وکیل ایڈوکیٹ خواجہ حارث نے بات مکمل کرنے کی اجازت چاہی تو چیف صاحب جذباتی انداز میں بولے “خواجہ صاحب یہ سول کورٹ یا ہائی کورٹ نہیں ہے، یہ سپریم کورٹ ہے جہاں جج دلائل میں مداخلت کر سکتے ہیں اور آپکو پہلے جج کی بات سننی ہو گی۔” سماعت کے دوران معزز چیف جسٹس کا بار بار گلا خشک ہوا اور انہوں نے کئی مرتبہ پانی کا گلاس منہ سے لگا لیا- دوران سماعت چیف جسٹس نے ایسے ایسے ریمارکس دئیے کہ جو وزیر اطلاعات فواد چودھری یا عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر پریس کانفرنسوں میں دیتے رہے ہیں- ایسا کرتے ہوئے انہوں نے نہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ بلکہ سپریم کورٹ کے ساتھی ججوں کے کردار پر بھی سوال اٹھا دئیے- فرمایا کہ پاناما سکینڈل میں سپریم کورٹ کے ججوں نے معاملہ احتساب عدالت میں بھیج کر شریف خاندان پر مہربانی کی کیونکہ انکی ہمیشہ سے یہ رائے رہی ھے کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں ہی کر دینا چاہئیے تھا- ایسے بیان سے ایک چیف جسٹس نے اپنے ساتھی ججوں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الا حسن کی پیشہ وارانہ صلاحیت اور انکے کردار پر سوال اٹھا دیا ہے۔ آیا ان تین ججوں نے پاناما کیس احتساب عدالت بھیج کر شریف خاندان پر ذاتی مہربانی کی کہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا ؟ پھر یہ کہنا کہ اگر میں (بنچ پر) ہوتا تو سپریم کورٹ میں ہی فیصلہ کر دینا تھا- ایسے بیانات نہ صرف یہ کہ چیف جسٹس کے عہدے کے شایان شان نہیں بلکہ اعلی عدلیہ کہ ججوں کے ضابطہ اخلاق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہیں- ضابطہ اخلاق میں یہ واضح طور پر لکھا ھے کہ ججز حضرات ساتھی ججوں سے متعلق کوئی بات کرتے ہوئے احترام کا اور محتاط رویہ اختیار کرینگے- اس کے برخلاف چیف جسٹس نے تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے نامزد چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ کا بھی نام لیئے بغیر ان پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے فقہ قانون(jurisprudence) یعنی عدالتی فیصلوں کے ذریعہ طے شدہ قانونی معاملات کو تباہ کر کے رکھ دیا ھے- جسٹس من اللہ نے وہ فیصلہ تحریر کیا تھا جس میں انہوں نے شریف خاندان کو دی گئی جیل اور جرمانے کی سزاؤں کو معطل کر دیا تھا- باوجود اسکے کہ اس فیصلے میں بار بار کہا گیا تھا کہ یہ فیصلہ صرف ضمانت پر رہائی کی حد تک ہے اور اصل کیس کے شواہد سے متعلق حتمی رائے نہیں اور اس حوالے سے اپیلیں ابھی بھی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں چیف جسٹس انتہائی غصے میں نظر آ رہے تھے- خواجہ حارث نے اس سماعت میں صرف سزاؤں کی عارضی معطلی کے قانونی جواز پر بحث کرنا تھی- ابھی انہوں نے باقاعدہ طور پر اپنے دلائل شروع بھی نہیں کیئے تھے کہ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس سے شریف خاندان پر لگے پاناما الزامات پر براہ راست سوال کرنے شروع کر دئیے- یوں لگ رہا تھا کہ وہ نہ صرف سزاؤں کو بحال کر کے شریف خاندان کو دوبارہ جیل بھیج رہے ہیں بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اپیلوں کا حتمی فیصلہ بھی وہ اسی وقت سنا دیں گے- معاملہ صرف اتنا تھا کہ کیا ہائی کورٹ کی طرف سے سزاؤں کی عارضی معطلی اور دی گئی عارضی ضمانت کا کوئی ہلکا پھلکا سا قانونی جواز بنتا ھے؟ مگر چیف صاحب نے جذباتی انداز میں خواجہ حارث سے فواد چودھری کا پسندیدہ سوال پوچھ لیا کہ بتائیں لندن جائداد کس کی ھے۔ اس مرحلے پر جب اسلام آباد ہائی کورٹ اس سوال کے احتساب عدالت کے فیصلے میں تلاش کردہ جواب کی قانونی حیثیت کا جائزہ لی رہی ھے تو ایک چیف جسٹس کا سزاؤں کی محض عارضی معطلی کا جائزہ لیتے ہوئے ایسا براہ راست سوالکرنا از خود اس نام نہاد “فقہ قانون” کی عصمت دری سے کم نہیں- اس ساری شرمناک عدالتی سماعت کے بعد سینئیر وکلاُحضرات زیر لب مسگراتے باہر آئے تو اخلاقی بزدلی کا یہ عالم تھا کہ آف آ ریکارڈ تمام کاروائی پر افسوس کا اظہار کیا۔ افسوس اس بات کا ہوا کہ یہ سب کچھ کھلی عدالت میں ملک کے نامور وکلا کی نظروں کے سامنے ہوتا رہا- فقہ قانون اور قانون کے نام پر انہی دونوں کے ساتھ جوکمرہ عدالت میں ہوا بڑے بڑے قانون دان اس پر خاموش تماشائی بنے رہے- حتی کہ خواجہ حارث جیسا وکیل بھی قانون کو قربان کر کے اپنی وکالت بچاتا نظر آیا- شاید بندر کے ہاتھ استرے سے اپنی گردن بچانا ہی فرض ہوتا ھے دوسروں کی نہیں۔
چیف جسٹس کے پریس کانفرنس نما جارحانہ اور غیرُمناسب ریمارکس کی وجہ سب کو پتہ ھے- “واٹس ایپ گروپ” نے گزشتہ سویلین حکومت اور جمہوریت کا ایک سال سے زائد عرصہ جو سپریم کورٹ میں پاناما سلینڈل کے نام پر میڈیا ٹرائل کیا تھا اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک عارضی مگر دلائل سے بھرپور ضمانت کے فیصلے نے ہی اس کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی- گارڈ فادر اور سیسیلین مافیا جیسے القابات کے ذریعے سیاسی حکومت اور سیاست کو ذلیل کرنے والوں کے منہ پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ایک ذوردار طمانچہ ھے- لوگ پوچھتے ہیں کہ خلائی مخلوق اور عدالت عظمی پچھلے کئی سال سے مل کرایک منتخب حکومت اور ایک سیاسی جماعت کے احتساب کی جس دیگ کو ہلکی آنچ پر پکا رہے تھے اس میں سے کیوں کچھ نہیں نکلا؟
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان عوامی شکوک و شبہات کو اپنے یمارکس کے ذریعے رد کرنے کی ایک نحیف کوشش کی ہے- اور جب سارے میڈیا میں پاناما سکینڈل پر سپریم کورٹ کا اداراتی موقف ٹی وی ٹکروں اور ہیڈ لائنوں کی صورت چھپ گیا تو خواجہ حارث کا جوابی موقف اور جوابی ٹی وی ٹکر و ہیڈ لائنیں آنے سے پہلے ہی سماعت ملتوی کر دی گئی- آج اخبارات میں بھی سپریم کورٹ کا پاناما سکینڈل میں یکطرفہ اداراتی موقف چھپا ہے- نجانے کیوں معزز چیف جسٹس بستر مرگ (اللہ صحت دے) سے اٹھ کر شریف خاندان کا ہی کیس سننے سپریم کورٹ پہنچے- کیا ضروری ھے کہ پاناما کا کیس انکی ریٹائرمنٹ سے پہلے آخری حد یعنی نظر ثانی تک مخصوص حتمی فیصلے کی بھینٹ ہی چڑے؟ یوں لگتا ھے کہ شریف خاندان کی ضمانت منسوخ نہ بھی ہوئی تو تو اسلام ہائی کورٹ کو اصل اپیلوں کا فیصلہ مخصوص وقت سے پہلے کرنے کا کہا جائے گا جسکی کوئی ہائی کورٹ قانونا پابند نہیں ہوتی- جو نئی “فقہ قانون” جنم لے رہی ھے تو یہ بھی بعید نہیں کہ اگر مخصوص وقت سے پہلے اصل اسلام آباد ہائی کورٹ کی اپیلوں کا فیصلہ نہ ہوا تو اسکے بعد شریف خاندان کی ضمانت کو منسوخ تصور کیا جائے- بظاہر اٹھاراں جنوری سے پہلے نیب یا شریف خاندان کو ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل (دس دنوں میں) دائر کرنا اور اسکا چیف جسٹس کی عدالت میں ہی سماعت و فیصلہ ہونا ضروری دکھائی دے رہا ھے- سپریم کورٹ کے تاریخی پاناما ٹرائل یا میڈیا ٹرائل اور فیصلوں کی عزت جو داؤ پر لگی ھے- اور چیف جسٹس ریٹائر ہو گئے تو جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجازالحسن ویسے ہی وہ اپیلیں نہیں سن سکتے اور اگر چیف صاحب بھی ریٹائر ہو گئے تو معاملہ غیر یقینی صورت حال اختیار کر سکتا ہے- جب تک نظر ثانی کو مرحلہ باقی رہے گا تب تک ن لیگ کی سانسیں برقرار رہیں گی- اقامہ کو ہتھیار شاید ایسی ہی غیر یقینی صورت حال سے بچنے کیلیئے بروقت استعمال کر لیا گیا تھا- جو بھی ایک چیف کے ریٹائر ہونے سے کوئی زیادہ فرق بھی نہیں پڑتا- مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ فرق تو شاید دوسرے چیف کی ریٹائرمنٹ سے بھی نہیں پڑتا-
کالم کے مندرجات سے قطع نظر مطیع اللہ جان ایک جی دار اور دلیر صحافی ہیں اور حق بات کہنے سے نہیں کتراتے۔ کسی اور میں یہ ہمت اور جرات کہاں!
 

فرقان احمد

محفلین
جب تک لفافہ ملتا رہے گا۔ ایسے بے سروپا کالم لکھتے رہیں گے۔
آپ کو کیا خبر؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ اپنے دلی جذبات کی عکاسی کر رہے ہوں۔ مطیع اللہ جان صاحب کے بارے میں ہمارا ذاتی خیال ہے کہ وہ کم از کم لفافہ صحافی نہیں ہیں۔ واللہ اعلم!
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کو کیا خبر؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ اپنے دلی جذبات کی عکاسی کر رہے ہوں۔
کالم میں تمام باتیں غلط بھی نہیں۔ جیسے دل کی حساس سرجری کے اگلے ہی روز ہی ڈاکٹروں کی موجودگی میں یہ کیس سننے کی ایسی کیا ایمرجنسی تھی؟ اورمتوقع فیصلہ وقت سے قبل کیوں بتا یا؟ نیز دیگر معزز ججوں کی خاموشی بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔
مجھے بنیادی اختلاف اس قسم کے مفروضوں سے ہے کہ یہ سب کسی "واٹس ایپ گروپ" پر ملنے والی ہدایات کا شاخسانہ ہے۔ یا فوج اور عدلیہ مل کر سابقہ حکمرانوں کے خلاف سازشیں کر رہی ہے۔ اگر حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں تو عدالتوں اور پارلیمان کو تالے لگا دیں۔ عوام فوجی جرنیلوں کے مابین ہر 5 سال بعد انتخاب کر لیا کریں۔
 

فرقان احمد

محفلین
کالم میں تمام باتیں غلط بھی نہیں۔ جیسے دل کی حساس سرجری کے اگلے ہی روز ہی ڈاکٹروں کی موجودگی میں یہ کیس سننے کی ایسی کیا ایمرجنسی تھی؟ اورمتوقع فیصلہ وقت سے قبل کیوں بتا یا؟ نیز دیگر معزز ججوں کی خاموشی بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔
مجھے بنیادی اختلاف اس قسم کے مفروضوں سے ہے کہ یہ سب کسی "واٹس ایپ گروپ" پر ملنے والی ہدایات کا شاخسانہ ہے۔ یا فوج اور عدلیہ مل کر سابقہ حکمرانوں کے خلاف سازشیں کر رہی ہے۔ اگر حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں تو عدالتوں اور پارلیمان کو تالے لگا دیں۔ عوام فوجی جرنیلوں کے مابین ہر 5 سال بعد انتخاب کر لیا کریں۔
اپنے اندر حوصلہ اور برداشت پیدا کریں۔ مخالف نکتہء نظر کو سامنے آنے دیں۔ ہر اختلافی نکتے کو دیکھ کر بھڑک اٹھنا بچگانہ پن نہیں ہے تو کیا ہے؟ فوری طور پر آپ نے الزام جڑ دیا کہ مطیع لفافہ صحافی ہے۔ اب بات کس سے کی جائے اور کیا کی جائے؟ ہم بطور احتجاج اس لڑی سے واک آؤٹ کا اعلان کرتے ہیں۔ ہمیں منانے کے لیے کسی کو بھیج ضرور دیجیے گا۔ :)
 
Top