بغرض اصلاح: ’’مرادل جلاؤ ، یہ مرضی ہے تیری‘‘

فاخر

محفلین
بے مطلع غزل اساتذہ کی خدمت بغرض اصلاح :
الف عین صاحب اور دیگر صاحبان

افتخاررحمانی فاخرؔ ،نئی دہلی

ملے تجھ کو تسکیں، تو پھر میر ے مشفق
مرادل جلاؤ ، یہ مرضی ہے تیری


شرابِ وفا کے بجائے اے ساقی !
مئے غم ، پلاؤ یہ مرضی ہے تیری !

مرے اشک ِ الفت ، ہیں جاری مسلسل
مجھے یوں ’رلاؤ ‘، یہ مرضی ہے تیری !

سبھی عکس ہائے وفا میرے دلبر
اگر تم مٹاؤ ، یہ مرضی ہے تیری !

چراغِ محبت ہتھیلی پہ رکھ کر
جلاکر بجھاؤ ، یہ مرضی ہے تیری

( یہ شعر کشمیر کے موجودہ حالات کے پس منظر میں ہے )

کیا تھا جو وعدہ اسے تم بھلا کر
کبھی بھی نہ آؤ، یہ مرضی ہے تیری

تو فاخرؔ کی غزلوں کے بدلے ستم گر !
مراثی سناؤ، یہ مرضی ہے تیری !
 
مدیر کی آخری تدوین:
بے مطلع غزل اساتذہ کی خدمت بغرض اصلاح :
الف عین صاحب اور دیگر صاحبان

افتخاررحمانی فاخرؔ ،نئی دہلی

شرابِ وفا کے بجائے اے ساقی !
مئے غم ، پلاؤ یہ مرضی ہے تیری !

ملے تجھ کو تسکیں، تو پھر میر ے مشفق
مرادل جلاؤ ، یہ مرضی ہے تیری

مرے اشک ِ الفت ، ہیں جاری مسلسل
مجھے یوں ’رلاؤ ‘، یہ مرضی ہے تیری !

وفا کے ،سبھی عکس کو میرے دلبر
اگر تم مٹاؤ ، یہ مرضی ہے تیری !

چراغِ محبت ہتھیلی پہ رکھ کر
جلاکر بجھاؤ ، یہ مرضی ہے تیری
( یہ شعر کشمیر کے موجودہ حالات کے پس منظر میں ہے )

غزل تجھ کو فاخرؔ سنائے مگر تم!
مراثی سناؤ، یہ مرضی ہے تیری !

ردیف "یہ مرضی ہے تیری" کو "یہ مرضی تمہاری" کردیجیے اور اسی مناسبت سے دوسرے اور پانچویں شعر میں "تجھ" کو "تم" کردیجیے، سقم دور ہو جائے گا۔
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ان قوافی کے ساتھ 'تیری' درست واقعی نہیں ہے، 'یہ مرضی تمہاری' سے شتر گربہ تو دور ہو رہا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ آپ کا جو مطلب ہے کہ 'تم پر ہے' وہ بالکل ویسا ہی ادا نہیں ہوتا۔
'ہے مرضی تمہاری' مجھے زیادہ بہتر معلوم ہو رہا ہے۔

ملے تجھ کو تسکیں، تو پھر میر ے مشفق
مرادل جلاؤ ، یہ مرضی ہے تیری
۔۔۔اس شعر میں اگر ردیف بدل کر 'ہے مرضی تمہاری' کر بھی دی جائے تو مجھے لگتا ہے کہ شعر پھر بھی معنوی اعتبار سے نامکمل ہی رہے گا۔ مجھے 'مرا دل جاؤ یا نہ جلاؤ' کا ہونا درست لگ رہا ہے۔
یعنی تمہاری مرضی ہے کہ دل جلاؤ یا نہ جلاؤ

دوسرے شعر میں 'اے' کی ے کو گرایا گیا ہے جو درست نہیں ہے
اور آخری شعر میں بھی 'غزل تجھ' کی بجائے 'غزل تم' ہونا چاہیے
 

فاخر

محفلین
ان قوافی کے ساتھ 'تیری' درست واقعی نہیں ہے، 'یہ مرضی تمہاری' سے شتر گربہ تو دور ہو رہا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ آپ کا جو مطلب ہے کہ 'تم پر ہے' وہ بالکل ویسا ہی ادا نہیں ہوتا۔
'ہے مرضی تمہاری' مجھے زیادہ بہتر معلوم ہو رہا ہے۔

ملے تجھ کو تسکیں، تو پھر میر ے مشفق
مرادل جلاؤ ، یہ مرضی ہے تیری
۔۔۔اس شعر میں اگر ردیف بدل کر 'ہے مرضی تمہاری' کر بھی دی جائے تو مجھے لگتا ہے کہ شعر پھر بھی معنوی اعتبار سے نامکمل ہی رہے گا۔ مجھے 'مرا دل جاؤ یا نہ جلاؤ' کا ہونا درست لگ رہا ہے۔
یعنی تمہاری مرضی ہے کہ دل جلاؤ یا نہ جلاؤ

دوسرے شعر میں 'اے' کی ے کو گرایا گیا ہے جو درست نہیں ہے
اور آخری شعر میں بھی 'غزل تجھ' کی بجائے 'غزل تم' ہونا چاہیے
آپ کے مشورہ پر عمل کرلیا گیا ہے ۔ مقطع بدل دیا گیا ہے ۔
 

فاخر

محفلین
کچھ ترمیم و اضافہ کے بعد پھر پیش خدمت ہے

ملے تجھ کو تسکیں، تو اےمیر ے مشفق
مرادل جلاؤ ، یہ مرضی ہے تیری

شرابِ وفا کے بجائے اے ساقی !
مئے غم ، پلاؤ یہ مرضی ہے تیری !

مرے اشک ِ الفت ، ہیں جاری مسلسل
مجھے یوں ’رلاؤ ‘، یہ مرضی ہے تیری !

سبھی عکس ہائے وفا میرے دلبر
اگر تم مٹاؤ ، یہ مرضی ہے تیری !

چراغِ محبت ہتھیلی پہ رکھ کر
جلاکر بجھاؤ ، یہ مرضی ہے تیری
( یہ شعر کشمیر کے موجودہ حالات کے پس منظر میں ہے )

کیا تھا جو وعدہ اسے تم بھلا کر
کبھی بھی نہ آؤ، یہ مرضی ہے تیری

ترحم کی تھی اک گزارش مگر اب
رعونت دکھاؤ، یہ مرضی ہے تیری !

تو فاخرؔ کی غزلوں کے بدلے ستم گر
مراثی سناؤ، یہ مرضی ہے تیری !
 

عظیم

محفلین
ملے تجھ کو تسکیں، تو اےمیر ے مشفق
مرادل جلاؤ ، یہ مرضی ہے تیری
۔۔۔آپ کی اس غزل میں اصل جو خرابی ہے وہ قوافی کی وجہ سے ہے، مثلاً جلاؤ، بجھاؤ، پلاؤ وغیرہ کے ساتھ 'تیری' استعمال نہیں ہو سکتا۔ شتر گربہ ہو جاتا ہے۔
اگر قوافی 'جلائے، بجھائے، پلائے، وغیرہ ہوں تو آپ کی ردیف 'یہ مرضی ہے تیری' درست ہو گی۔
مثلاً
ملے تجھ کو تسکیں تو اے میرے مشفق
مرا دل جلا لے، یہ مرضی ہے تیری
۔۔تکنیکی اعتبار سے درست ہو گا۔
اور
ملے تجھ کو تسکیں تو اے میرے مشفق
مرا دل جلاؤ، ہے مرضی تمہاری
بھی تکنیکی اعتبار سے درست ہو گا۔
یعنی 'جلا لے یا جلائے کے ساتھ ردیف میں 'تیری' کا استعمال چلا جائے گا مگر 'جلاؤ، پلاؤ وغیرہ کے ساتھ 'تم' استعمال کرنا پڑے گاا ورنہ شتر گربہ رہے گا۔ اور شعر درست تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
مختصراً یہ کہ مکمل غزل میں شتر گربہ ہے، اگر ردیف یہی رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو قوافی بدلنا پڑیں گے اور اگر قوافی یہی رکھنا چاہتے ہیں تب آپ کو ردیف بدلنا پڑے گی۔ باقی باتیں بعد کی ہیں

شرابِ وفا کے بجائے اے ساقی !
مئے غم ، پلاؤ یہ مرضی ہے تیری !

مرے اشک ِ الفت ، ہیں جاری مسلسل
مجھے یوں ’رلاؤ ‘، یہ مرضی ہے تیری !

سبھی عکس ہائے وفا میرے دلبر
اگر تم مٹاؤ ، یہ مرضی ہے تیری !

چراغِ محبت ہتھیلی پہ رکھ کر
جلاکر بجھاؤ ، یہ مرضی ہے تیری
( یہ شعر کشمیر کے موجودہ حالات کے پس منظر میں ہے )

کیا تھا جو وعدہ اسے تم بھلا کر
کبھی بھی نہ آؤ، یہ مرضی ہے تیری

ترحم کی تھی اک گزارش مگر اب
رعونت دکھاؤ، یہ مرضی ہے تیری !

تو فاخرؔ کی غزلوں کے بدلے ستم گر
مراثی سناؤ، یہ مرضی ہے تیری !
 
ملے تجھ کو تسکیں، تو اےمیر ے مشفق
مرادل جلاؤ ، یہ مرضی ہے تیری
۔۔۔آپ کی اس غزل میں اصل جو خرابی ہے وہ قوافی کی وجہ سے ہے، مثلاً جلاؤ، بجھاؤ، پلاؤ وغیرہ کے ساتھ 'تیری' استعمال نہیں ہو سکتا۔ شتر گربہ ہو جاتا ہے۔
اگر قوافی 'جلائے، بجھائے، پلائے، وغیرہ ہوں تو آپ کی ردیف 'یہ مرضی ہے تیری' درست ہو گی۔
مثلاً
ملے تجھ کو تسکیں تو اے میرے مشفق
مرا دل جلا لے، یہ مرضی ہے تیری
۔۔تکنیکی اعتبار سے درست ہو گا۔
اور
ملے تجھ کو تسکیں تو اے میرے مشفق
مرا دل جلاؤ، ہے مرضی تمہاری
بھی تکنیکی اعتبار سے درست ہو گا۔
یعنی 'جلا لے یا جلائے کے ساتھ ردیف میں 'تیری' کا استعمال چلا جائے گا مگر 'جلاؤ، پلاؤ وغیرہ کے ساتھ 'تم' استعمال کرنا پڑے گاا ورنہ شتر گربہ رہے گا۔ اور شعر درست تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
مختصراً یہ کہ مکمل غزل میں شتر گربہ ہے، اگر ردیف یہی رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو قوافی بدلنا پڑیں گے اور اگر قوافی یہی رکھنا چاہتے ہیں تب آپ کو ردیف بدلنا پڑے گی۔ باقی باتیں بعد کی ہیں

شرابِ وفا کے بجائے اے ساقی !
مئے غم ، پلاؤ یہ مرضی ہے تیری !

مرے اشک ِ الفت ، ہیں جاری مسلسل
مجھے یوں ’رلاؤ ‘، یہ مرضی ہے تیری !

سبھی عکس ہائے وفا میرے دلبر
اگر تم مٹاؤ ، یہ مرضی ہے تیری !

چراغِ محبت ہتھیلی پہ رکھ کر
جلاکر بجھاؤ ، یہ مرضی ہے تیری
( یہ شعر کشمیر کے موجودہ حالات کے پس منظر میں ہے )

کیا تھا جو وعدہ اسے تم بھلا کر
کبھی بھی نہ آؤ، یہ مرضی ہے تیری

ترحم کی تھی اک گزارش مگر اب
رعونت دکھاؤ، یہ مرضی ہے تیری !

تو فاخرؔ کی غزلوں کے بدلے ستم گر
مراثی سناؤ، یہ مرضی ہے تیری !

یہی نکتہ ہم اپنے پہلے مراسلے میں اٹھا چکے ہیں، لیکن اسے درخورِ اعنتا نہیں سمجھا گیا!

ردیف "یہ مرضی ہے تیری" کو "یہ مرضی تمہاری" کردیجیے اور اسی مناسبت سے دوسرے اور پانچویں شعر میں "تجھ" کو "تم" کردیجیے، سقم دور ہو جائے گا۔
 

فاخر

محفلین

غزل پھر دوبارہ قافیہ بدل کر پیش خدمت ہے،ملاحظہ کریں ۔


ملے تجھ کو تسکیں، تو اےمیر ے مشفق
مرادل جلاؤ ، ہے مرضی تمہاری

شرابِ وفا کے بجائے اے ساقی !
مئے غم پلاؤ ،ہے مرضی تمہاری

مرے اشک ِ الفت ، ہیں جاری مسلسل
مجھے یوں ’رلاؤ ‘، ،ہے مرضی تمہاری

سبھی عکس ہائے وفا میرے دلبر
اگر تم مٹاؤ ،ہے مرضی تمہاری

چراغِ محبت ہتھیلی پہ رکھ کر
جلاکر بجھاؤ ، یہ مرضی ہے تیری

کیا تھا جو وعدہ اسے تم بھلا کر
کبھی بھی نہ آؤ ،ہے مرضی تمہاری

ترحم کی تھی اک گزارش مگر اب
رعونت دکھاؤ ،ہے مرضی تمہاری

غزل چھیڑ ے فاخرؔ،عوض میں ستمگر !
مراثی سناؤ،ہے مرضی تمہاری !
 

عظیم

محفلین
صرف پہلے شعر میں مجھے لگتا ہے کہ دوسرا مصرع میں جلاؤ یا نہ جلاؤ' ہونا چاہیے تھا۔
دوسرے شعر کے پیلے مصرع میں 'اے' کی ے ابھی بھی گر رہی ہے
پانچویں شعر میں ردیف بدلی ہوئی ہے۔
مقطع کا پہلا مصرع
تو فاخرؔ کی غزلوں کے بدلے ستم گر
ہی بہتر تھا۔ صرف 'تو' ہٹا کر 'یوں' کر دیں تو بہت بہتر ہو جائے گا
باقی اشعار مجھے درست لگ رہے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں ردیف 'یہ مرضی ہے تیری' ہی بہتر ہے، ہے مرضی تمہاری' ہر جگہ پسندیدہ نہیں۔ عظیم کا صائب مشورہ ہے کہ قافیہ بتائے، جلانے وغیرہ. کر دیا جائے
پہلے شعر میں مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ آپشن کا سوال نہیں ہے، محض یہی کہا جا رہا ہے کہ تمہاری مرضی ہے تو دل جلاؤ، مجھے اعتراض نہیں۔
 

عظیم

محفلین
میرے خیال میں ردیف 'یہ مرضی ہے تیری' ہی بہتر ہے، ہے مرضی تمہاری' ہر جگہ پسندیدہ نہیں۔ عظیم کا صائب مشورہ ہے کہ قافیہ بتائے، جلانے وغیرہ. کر دیا جائے
پہلے شعر میں مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ آپشن کا سوال نہیں ہے، محض یہی کہا جا رہا ہے کہ تمہاری مرضی ہے تو دل جلاؤ، مجھے اعتراض نہیں۔
جی بابا، جب پہلی بار یہ غزل پڑھی تھی تب سے ہی اس شعر کے بارے میں یہ خیال تھا تو آج بھی بغیر غور کیے یہی اعتراض کر گیا ہوں۔ اور آپ کے مراسلے سے قبل اپنا اعتراض درست بھی لگ رہا تھا
 
Top