بغرض اصلاح

محترمی الف عین
محروم شگوفے ہیں, گر اس میں صبا سے
جل جائے بھلے گلشن پھر میری بلا سے

پیغام حریفوں کو پہنچا دو مرا یہ
دشمن سے نہیں اب میں لڑتا ہوں انا سے

آندھی سے نکل آیا تھا بچ کے مگر اب
میں اُلجھا ہوا ہوں اک دامن کی ہوا سے

رِستے ہیں بہت اس میں اک یاد کے پھوڑے
سو بچ کے میں رہتا ہوں خوشیوں کی وبا سے

خود جن کے ہیں حاکم کے دربار میں سر خم
لوگوں کو وہ ڈرنے کا کہتے ہیں خدا سے

سر پر مرے سایا ہے جب ماں کی دعا کا
کچھ کام نہیں مجھ کو صحرا میں گھٹا سے

سمجھا ہوں اناالحق کی, جب سے میں حقیقت
ہر موڑ پہ ملتا ہوں دنیا میں خدا سے
 

الف عین

لائبریرین
بحر تم نے عجیب بنائی ہے، مفعول مفاعیلن دو بار ہوتا تومترنم بحر بنتی، لیکن اس
میں بات یا لفظ نہ ٹوٹے۔ لیکن تم نے اس کے بعد مفعول فعولن رکھا ہے۔ پھر بھی یہ بحر منقسم قسم کی ہے۔بہترین تو یوں ہو گا کہ کچھ الفاظ بدل کر یا ان کی ترتیب بدل کر بحر کو مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن کر دو جیسے
محروم شگوفے ہیں اگر اس میں صبا سے
جل جائے بھلے ہی یہ چمن میری بلا سے
اگر ایسی ہی رکھنی ہو تو مزید اصلاح کی ضرورت نہیں
 
بحر تم نے عجیب بنائی ہے، مفعول مفاعیلن دو بار ہوتا تومترنم بحر بنتی، لیکن اس
میں بات یا لفظ نہ ٹوٹے۔ لیکن تم نے اس کے بعد مفعول فعولن رکھا ہے۔ پھر بھی یہ بحر منقسم قسم کی ہے۔بہترین تو یوں ہو گا کہ کچھ الفاظ بدل کر یا ان کی ترتیب بدل کر بحر کو مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن کر دو جیسے
محروم شگوفے ہیں اگر اس میں صبا سے
جل جائے بھلے ہی یہ چمن میری بلا سے
اگر ایسی ہی رکھنی ہو تو مزید اصلاح کی ضرورت نہیں
بہت شکریہ سر
دوسری لڑی میں پوسٹ کر چکا ہوں
 
Top