ان لوگوں نے ہر چیز بلڈوز کرڈالی کم از کم قبروں کے نشان تو رہنے دیتے۔ عجیب انتہا پسندانہ ذہنیت ہے ہماری۔ مستنصر حسین تارڑ صحیح کہتا ہے کہ اسلام بھی اب ماورائی دیو مالائی داستانوں میں رہ جائے گا۔ تاریخ اسلام سے متعلق ہر اس مقام سے ہر اس حد تک لاپرواہی برتی جاتی ہے جہاں تک برتی جاسکتی ہے۔ غار حرا کے نزدیک کولڈ ڈرنک کی بوتلوں کے ڈھیر، ریپرز اور ایسی چیزیں پڑی ہیں اور کوئی اٹھانے والا نہیں۔ ترکوں نے ہر اس جگہ مساجد بنا دی تھیں جہاں انھیں پتا چلا کہ یہاں کوئی اہم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ ہوا تھا وہ مساجد یا تو بوسیدہ ہو کر ڈھے گئیں، یا ڈھا دی گئیں یا "ترقیاتی" منصوبوں تلے آگئیں۔ خیبر پورا ایک شہر تھا اور اس کے قلعے، اب ان قلعوں کی دیواریں ہی رہ گئی ہیں وہ بھی ایک دن ڈھے جائیں گی۔ جب یہ بھی نہیں رہیں گی تو خیبر کے یہ چھوٹے چھوٹے قلعے پھیل کر کئی کئی میل ہوجائیں گے، ذاکرین اور واعظین ان میں جذباتی مرچ مصالحہ لگا کر ایسے ایسے بیان کریں گے کہ ایک وقت میں علی رضی اللہ عنہ انسان نہیں دیومالائی مخلوق لگیں گے جنہوںنے یہ قلعے فتح کیے۔ نعوذ باللہ۔ جذباتیت ہمارا شعار ہے بلکہ ہمارا مذہب ہی جذباتیت کے ایندھن پر چلتا ہے لیکن تاریخی ثبوت بھی موجود ہونے چاہئیں تاکہ آنے والی نسلوں کو پتا رہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی انسان تھے وہ کسی مکان میں پیدا ہوئے اور پھر وفات پا گئے۔ ان کے استعمال کی اشیا یہ تھیں۔ لیکن بدقسمتی سے موجودہ سعودی حکومت اس سلسلے میں انتہائی غیر محتاط ہے۔ اللہ ہمیں ہدایت دے۔