نوید ناظم
محفلین
آج کا انسان نفسا نفسی کا شکار ہوتا جا رہا ہے...اس کا ہر کام اپنی ذات کے لیے ہے...محض اپنے لیے جینے والا صرف اپنے اوپر مرتا ہے...یہ آئنہ دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے' اگر اسے آئنہ دکھایا جائے تو ناراض ہو جاتا ہے. اسے جب اچھے انسانوں کی خصوصیات بتائی جائیں تو اپنے آپ میں تلاش کرتا ہے' لیکن کسی خامی کا ذکر کیا جائے تو فوراً دوسروں کے بارے میں سوچتا ہے...حالانکہ اپنی خامی تلاش کر لینا خوبی ہے اور اس خامی کو دور کرنا خوبصورتی...مگر انسان اپنے باطن کو بھلا کر ظاہر پہ مر مٹا...ظاہر ہے کہ پھر نتیجہ ظاہر پرستی کی صورت میں ظاہر ہونا تھا۔ آنکھوں پر حَوص کا غلاف اور دل پر حرص کا حجاب آ گیا' اور یوں بصارت رکھنے والا انسان بصیرت سے محروم ہو گیا۔ اس نے لوگوں کو دل سے نکالا تو لوگ اس کے ہاتھ سے نکلنا شروع ہو گئے...گروپ فوٹو سے سیلفی تک کا سفر اصل میں محفل سے تنہائی تک کا سفر ہے...ایک اکیلا انسان مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی تصویر فیس بک پر سجاتا ہے اور کئی اکیلے انسان اس کو پسندیدہ قرار دینا شروع کر دیتے ہیں' ایسے تو قرار نہیں ملتا...قرار کی پہلی اور ناگزیر شرط یہ ہے کہ بندہ اندر سے 'بھرپور' ہو...بندے کا باطن بے چین ہو جائے تو سکون کا حصول نا ممکن ہو جاتا ہے...باہر سے ہنستا ہوا انسان اندر سے پِستا رہتا ہے' آج اس نے مادیت کو انسانیت کا متبادل سمجھ لیا ہے، پہلے اس کے پاس دوست یار ہوا کرتے تھے' آج کل ٹی وی اخبار' کار اور کاروبار ہی رہ گئے ہیں۔ اب یہ کیس ٹو کیس ہی فیس ٹو فیس مل سکتا ہے کسی سے' ورنہ وقت ندارد۔ انسان نے جب دل سے دل کا رشتہ کمزور کیا تو مفاد کا رشتہ مفاد سے مضبوط ہو گیا' اب بھائی اپنے سٹیٹس کی ساکھ بچانے کے لیے اپنے غریب بھائی کو اپنی کسی دعوت میں مدعو نہیں کرتا۔۔۔ آج یہ صرف اس سے گلے مل سکتا ہے جس سے فائدہ مل سکتا ہو۔۔۔ اور یہی وہ نقصان ہے جس کا خمیازہ انسانیت بھگت رہی ہے۔۔۔ ابھی وقت ہے کہ ہم ایک دوسرے کے قریب آ جایئں۔۔۔ اپنے دکھ سانجھے کر لیں۔۔۔ اک دوجے کے لیے امیدِ سحر لے کر آئیں' اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج غروب ہو جائے!