نوید ناظم
محفلین
ہم صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں اس لیے ہماری سوچ کو زنگ لگنا شروع ہو گیا۔۔۔ خیال میں بلندی اور دل میں روشنی نہ رہی۔۔۔ آج انسان' سب کچھ بننا چاہتا ہے' بس 'انسان' بننے سے گھبراتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ معاشرے میں رہنے کے لیے امیر ہونا ضروری ہے مگر انسانوں کی دنیا میں رہنے کے لیے ' انسان' ہونا ضروری ہوتا ہے۔ دولت کا احساس ہمیں احساس کی دولت سے محروم کر رہا ہے۔ سبھی غم میں مبتلا ہیں مگر سبھی اک دوسرے سے لا تعلق ہیں۔ انسان نے بڑی بڑی سوسائٹیاں بنائی ہیں اور پھر انہی کے اندر نظر بند ہو گیا۔ اس نے یہ طے کیا کہ اب باہر وہ غربت اور غریب کے بچوں کو کھیلتا ہوا نہیں دیکھے گا۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ ہم پیسے سے زندگی بنانا چاہتے ہیں یا زندگی میں پیسہ بنانا چاہتے ہیں' اور بس۔ مگر زندگی کے مزاج میں ایسا نہیں ہے' دن کو بھائی کا حق کھانے والا رات کو لاکھ دوائیاں کھا لے مگر سکون کی نیند سے محروم رہے گا۔ جو کسی کا ساتھ نہ دے وہ اندر سے تنہا ہوتا جائے گا۔۔۔۔ اپنی تنہائی دور کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ کسی کی تنہائی دور کر دی جائے' کسی کا دکھ سانجھا کرنا ہی دکھ سے نجات دلاتا ہے۔ ہم اپنی اپنی خواہشوں میں قید' زندگی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اور یہ سزا اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک انسان لالچ کے لوبھ سے آزاد نہ ہو جائے۔۔۔۔ ہوس اور حرص سے باہر آئے بغیر زندگی کا لطف نصیب ہونا نا ممکن ہے۔ ایثار کا جذبہ نہ ہو تو حاصل کی تمنا عذاب ہے۔ اب ہمیں ایک دوسرے کے لیے کچھ کرنا چاہیے' ورنہ وہی کچھ ہو گا جو ہو رہا ہے۔۔۔ لوگ زندہ رہ کر زندگی کو ترستے رہیں گے۔۔۔ اشیاء کی محبت میں گرفتار انسان کبھی اسیرِ زلف نہ ہو سکے گا۔۔۔۔ اور خدا نہ کرے ایسا ہو کہ ہم بینک اکاونٹ بھر کر اور خالی دل لے کر دنیا سے رخصت ہو جائیں!