loneliness4ever
محفلین
بلا عنوان
س ن مخمور
س ن مخمور
وہ سڑک کے کنارے واقع عارضی انتظار گاہ میں میرے بائیں جانب بیٹھی تھی، میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر مسلسل اس کو دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا، یقینا وہ بہت حسین تھی، کیونکہ نظر اس کی جانب سے ہٹنے سے انکار کر رہی تھی، دل اس سے کلام کرنے پر اصرار کر رہا تھا، مگر اس کا وقار اور شخصیت کی بردباری مجھ جیسے خستہ حال مفلوک الحال شخص کو روک رہی تھی، ڈر تھا کہ روبرو اس کے کھڑا ہو بھی پاونگا یا نہیں، دل بے چین ہو رہا تھا، میں کتنی ہی حسیناوں سے باتیں کر چکا تھا مگر سخت گرمی اور حبس کے عالم میں بھی سر پر قرینے سے لیا گیا دوپٹہ جو اس کی شخصیت کو اپنی بنیا دوں سے مضبوطی سے پیوستہ ثابت کر رہا تھا میرے آڑے آ رہا تھا، میں بمشکل اس کے چہرے کو دیکھ پا رہا تھا، دوپٹے کی اوٹ سے نکلتا اس کا چہرہ شام کے سائے میں ماہتاب لگ رہا تھا، ہلکے آسمانی لباس میں اس کا سراپا زمیں پر افق کا منظر پیش کر رہا تھا، میں ایک خوش شکل اور جذب ِ نظر جوان اور مضبوط جسم کا مالک تھا، راہ چلتی لڑکیاں بھی ایک نظر ضرور مجھ پر ڈالتی تھیں مگر وہ تو جیسے بے نیاز تھی، میں واقعِی اس کے آگے کچھ نہیں تھا، اس کے حسن کا غلبہ نہ صرف مجھ پر اثر انداز تھا ، بلکہ آس پاس کا منظر بھی اس حسین سراپے کے حسن سے مغلوب ہوا جا رہا تھا، وہ اپنے حسن سے کمزور ہونے کے بجائے بہت مضبوط لگ رہی تھی، اس نے عبایہ تو نہیں لے رکھا تھا مگر بڑے ارض کے دوپٹے سے اس کا سراپا یوں چھپا ہوا تھا کہ میں لاکھ کوشش کے باوجود اپنی آنکھوں کی طلب مٹا نہیں پا رہا تھا، اور اس کے ان ہی طور طریقوں نے اس کے حسن کو بے نظیر کیا ہوا تھا۔
میں نفس سے لپٹا انسان اپنی سوچ کو بھٹکنے سے نہ روک سکا، ابھی آلودہ تصور کی گلی میں قدم رکھا تھا کہ جیسے قدرت نے زور کا تھپڑ میرے چہرے پر مارا، میں واپس حقیقت میں آیا تو معلوم پڑا کہ تیز ہوا نے میرے پاس رکھا ہوا میری تعلیمی اسناد کا لفافہ اس کے قدموں میں ڈال دیا تھا، وہ لفافہ تو جیسے میرا سرمایہ تھا، میں لپک کر اس لفافے کو اٹھانے کے لئے اس کے پاس گیا تو اس نے جلدی سے اپنے پاوں پیچھے کر لئے اور چہرہ دوسری جانب پھیر لیا، میں نے جلدی سے اپنا لفافہ اٹھا لیا اور اس سے بے تکلف ہونے کے لئے کہنے لگا
" معاف کجیے گا، گھنٹوں سے تو ہوا جیسے چل نہیں رہی تھی مگر اس پل ایسا زور کا جھونکا آیا کہ میری اسناد آپ کے پاس آ گریں جس سے آپ کو بھی زحمت ہوئی "
میری بات سن کر وہ دھیرے سے مسکرا دی
" نہیں آپ شرمندہ نہ ہوں ایسی کوئی بات نہیں، بعض اوقات چھوٹی تکلیف بھی نعمت ہوتی ہے اور بڑی تکلیف سے بہتر ہوتی ہے، انسان کو اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ وہ اس کو تصور کے عالم میں بھی گمراہی سے بچنے کے مواقع فراہم کرتا ہے"
میں اس کی یہ بات سن کر گڑبڑا گیا، جو کچھ میں سوچ رہا تھا وہ سب کیا اس پرعیاں تھا؟ مجھے شرم بھی آرہی تھی اور ایک خوف بھی دل میں جڑ پکڑتا جا رہا تھا کہ شام کے ڈھلتے سائوں میں یہ حسن کی دیوی کوئی غیر انسانی شے نہ ہو، ٹھنڈے پسینے چھوٹ گئے تھے، میں نے جواب دینا چاہا مگر بے معنی سی ہکلاہٹ کے سوا کچھ کہہ نہ پایا۔
میری یہ حالت دیکھ کر وہ مسکرا دی، میں اب بھی اس طرح کھڑا تھا کہ بس چہرے کا بایاں حصہ ہی دیکھ پا رہا تھا، مگر اب مجھے خوف لگنے لگا تھا، کچھ پل قبل میں اس اشیاق میں تھا کہ اس حسینہ سے بات کروں مگر اب یہ ہمت جمع کرنا چاہ رہا تھا کہ وہاں سے سر پر پیڑ رکھ کر بھاگ جاوں، مگر ٹانگوں میں لرزش محسوس کر رہا تھا، اسے شاید میری اس کیفیت کا بھی علم ہو چلا تھا، وہ کھل کھلا کر مسکرا دی، کہنے لگی
" آپ تو بہت بزدل نکلے، دیکھنے میں تو مضبوط جسم والے ہیں مگر حوصلے اور حواس میں شاید بجے سے بھی کمزور، مگر یہ حال اب نیا نہیں ہے، آپ اکیلے اس دوہرے پن کا شکار نہیں ہیں، اس ظاہری فریب میں تو اب تمام عالم ہی مبتلا ہے ، اس خوف کا سبب اپنے رب سے دوری اور حب ِ رسول سے بڑھ کر حب ِ دنیا میں مبتلا ہونا ہے، خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی، آپ کانپنا تو بند کریں"
اس کی آواز میں جو مٹھاس اور ترنم تھا اس سے ماحول پر وجد طاری ہو گیا تھا، میں بھی اسی سحر کے زیر اثر آگیا، مگر اب تک پسینے پسینے ہو چکا تھا، اس نے اپنے دائیں جانب اشارہ کیا کہ آپ یہاں بیٹھ جائیں، میں تھوڑا سا ہچکچایا مگر پھر جسے سحر زدہ انداز میں اس کے دائیں جانب جا بیٹھا،
اب جو اسکی طرف دیکھا تو منظر دوسرا ہی لگا، اس کا چہرہ اداس تھا، حسن پر اداسی کے بادلوں نے نمایاں اثر ڈالا ہوا تھا، جس کے سبب اس کے دائیں جانب کا ماحول اداس اور رنج آلود فضا میں لپٹا محسوس ہوا، مگر سب سے چبنے والا منظر اس کی شانے سے پھٹکی ہوئی آستین تھی ، جس کے پھٹے ہونے سے اس کا شانہ عیاں ہو رہا تھا، میں اتنی دیر سے جو اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنا چاہ رہا تھا وہ سامان، وہ موقعہ اس پری کے دائیں جانب میسر تھا میں گھبرا گیا، فورا اٹھنا چاہا مگر اس نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، میں ڈر گیا، ادھر ادھر دیکھا مگر اردگرد کے لوگوں کو جیسے ہماری پرواہ نہ تھی یا ہم دونوں ان کی نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے، میں خوف زدہ تھا، بھاگنا چاہتا تھا مگر لگتا تھا جیسے اس پری سے باندھ دیا گیا ہوں، اس نے میرے اس احساس اور کیفیت کو نظر انداز کر دیا اور کہنے لگی
" تم اچھے ہو مگر معاشرے کی دھول اور اس کی بھٹکتی سوچ کے روبرو محکوم ہو چکے ہو، مگر اب بھی اس کی مکمل گرفت میں نہیں ہو اس لئے تم سے بات کر رہی ہوں، کتنا افسوس ہوتا ہے ناں جب آپ کا حال آپ کے شاندار ماضی سے مل نہیں پا رہا ہو، تمہارے گھر میں پہلے روپے کی ریل پیل تھی، سورج کی تمازت بھی تمہارے گھر میں تمہاری مرضی سے داخل ہوتی تھی اور آج تم صبح سے شام جلستی زمین پر تپتے سورج تلے نوکری کی تلاش میں گرد آلود ہوتے ہو، افسوس ہوتا ہے ناں؟"
"ہاں بہت ہوتا ہے" میری آنکھوں میں میرے مرتے ہوئے خواب آگئے تھے "خوب دکھ ہوتا ہے، وقت اپنے ساتھ سب لے گیا، اپنی غفلت میں ابواجداد کی تمام محنت کو اکارت کر دیا، سب رائیگاں ہو گیا، اب تو پاس بس آنے جانے کا کرایہ ہی دن بھر کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے"
میں اپنا سب خوف بھول گیا تھا، ہر سوال بھول گیا کہ یہ حسین اور اداس دیوی کون ہے؟ اس کی بات پر رنجیدہ ہو گیا تھا، میرا خوف میرے رنج میں تبدیل ہو گیا تھا، وہ مجھے میرے ماضی میں لے گئی تھی۔
مگر وہ شاید مجھ سے زیادہ رنجیدہ تھی اس نے میرے غمذدہ لہجے کو یکسر نظر انداز کر دیا اور کہا
" تمہارا رنج اپنی جگہ مگر میں تو غم سے مر رہی ہوں، رواں رواں زخمی ہے میرا، مگر یہ زمانہ میرے رنج سے غافل ہے، لوگ میرے احساس کو کبھی اتنا پیچیدہ کر کے بیان کرتے ہیں کہ عام انسان میرے غم کو سننا بھی وقت کا زیاں سمجھتا ہے، میری داستان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے، اور بعض لوگ کبھی ذاتی مفاد اور سستی مگر غیر معیاری تفریح کی خاطر میرے احساسات کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ بدن کپڑوں سے ڈھکا ہوا ہونے کے باوجود عریاں ہو جاتا ہے، میرے دامن میں غیر مانوس روایتں، رسمیں ڈال دیتے ہیں، میری داستان میں کبھی لوگ اجنبی الفاظ شامل کر دیتے ہیں اور آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا دیتے ہیں، لوگ مجھے فراموش کرتے جا رہے ہیں، مجھے تم جیسے انسانوں کی ضرورت ہے، میری مدد کرو گے؟"
اس نے مجھے دیکھا، اس کی نظروں میں بہت سے سوال تھے، میں نے اب پہلی بار اس کا چہرے کے دونوں رخ دیکھے تھے، دایاں اور بایاں ۔۔۔ بائیں طرف جتنی شادابی ، رونق اور زندگی تھی دائیں جانب اتنا ہی گہرا دکھ، ایک ویرانی سی تھی، اس کی ایک آنکھ میں امید کی روشنی تھی اور ایک آنکھ میں رات کے سائے، وہ واقعی خوبصورت تھی، مکمل خوبصورت، اس کی آواز میں ایسی مٹھاس اور اپنائیت تھی کہ جی چاہتا تھا وہ بولتی رہے، اور میں سنتا رہوں۔ میری نظریں اس کے عریاں شانے پر اب نہیں اٹھ رہی تھیں، میں شرمندگی محسوس کر رہا تھا، میں اب تک اس کو سمجھ نہیں سکا تھا اور نہ ہی اس کی باتیں میری عقل میں آرہی تھیں مجھے اس کا غم سمجھ نہیں آرہا تھا مگر پھر بھی میں اس کے غم پر غمگین ہو گیا تھا، یہ اس کا سحر تھا، وہ بہت بارعب تھی، اس کے لب و لہجے میں کوٹ کوٹ کر مشرقیت بھری ہوئی تھی، اس کا میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا اپنی زندگی کی بحالی کے لئے ممکنا کوششوں میں سے تھا ورنہ میرے ہاتھ کو چھونا تو درکنار اس نے گھنٹوں سے میری جانب دیکھا بھی نہیں تھا، مگر کیوں وہ اپنا عریاں شانہ چھپا نہیں رہی تھی؟ یہ ایک الجھن تھی میرے ذہن میں، اس نے جیسے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دل کا یہ سوال پڑھ لیا، اور مسکرائی، بہت ہی دکھی مسکراہٹ تھی اس پل اس کی
" تم جیسا سوچ رہے ہو میں ویسی ہی ہوں، پاک ، دھلی ہوئی مگر خوف زدہ، میرے شانے کو عریاں خود لوگوں نے کیا ہے، میری تو باگ دوڑ مکمل لوگوں کے ہی ہاتھوں میں ہے، کیا کروں ؟ شانہ ڈھانپتی ہوں تو انکی بے چینی بڑھتی ہے ڈر لگتا ہے کہ وہ اب یہ دوپٹہ ہی ناں نوچ لیں، کچھ لوگ ہیں آٹے میں نمک کے برابر جن کے ہونے کے سبب وہ لوگ اپنی خواہشات پوری نہیں کر پا رہے ہیں، مگر میرے محافظ اب ڈھلتی عمر کی گرفت میں ہیں، کمزور پڑ رہے ہیں، مجھے اور ان کو تم جیسے لوگوں کی ضرورت ہے، جوان، حوصلہ مند، اور توانا حساس کے ساتھ مگر معاشرے کی آلودہ سوچ سے پاک، کیا تم اپنی سوچ پاک کرو گے؟ کیا میری مدد کرو گے؟ "
اس نے پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا سوال دہرایا، میں نے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا۔ وہ کھل کھلا کر مسکرا دی ۔ کہنے لگی
" بس پھر آج سے تم مجھے بیان کرو ، میرا ہر احساس بیان کرو مگر احتیاط اور اخلاق کے لبادے میں لپیٹ کر، ہر سوچ کے لئے پھر سے الگ انداز اپنانا، صحت مند ماحول تشکیل دینا، مجھے بے آبرو ہونے کے خوف سے نجات دلا دینا، مجھے مکمل طور سے اپنا لینا، غیر کا سہارا مت لینا، میں کافی ہوں تمارے ہر احساس کو بیان کرنے کے لئے، تم پھر سے مجھ پر بھروسہ کرو، مجھے میرا وہ مقام دو جہاں سے تم لوگ مجھے نیچے لائے ہو، تم انصاف کرو، اپنے آپ پر اور مجھ پر، میرا دامن اب بھی موتیوں سے بھرا ہے تم اغیار کی چالوں سے باہر نکلو، میرے لباس کو تم اب بھی درست کر سکتے ہو، مجھے تم لوگوں کی ضرورت ہے، اس وقت کو تھام لو ورنہ میں ایک دن ایسی آلودہ ہو جاوں گی کہ خود اپنے آپ کا چہرہ دیکھ نہ پاوں گی، اور اس پل تم کو اپنے جرم کا احساس سکون کی سانس بھی نہیں لینے دے گا، مجھے تمہاری اور تم کو میری ضرورت ہے، تم کرو گے ناں یہ سب؟؟؟"
میں نے ایک عزم اور یقین سے حامی بھری، اس نے میرا ہاتھ تھاما اور اپنی آنکھوں تک لے گئی، دو آنسوں میری کھلی مٹھی پر گرے، میں نے فورا مٹھی بند کرلی اس نے امید کے بادبان کو تھام کر کہا
" میری باتیں یاد رکھنا، میرے آنسو یاد رکھنا، میرا کرب یاد رکھنا، مجھ سے کیا وعدہ یاد رکھنا، میں اردو ہوں میرا نام یاد رکھنا"