محمد ریحان قریشی
محفلین
ایمان و دیں کی چھوٹ کا پیغام نقش ہے
ہر سو جہاں میں صورتِ اصنام نقش ہے
حسرت نہ آرزو ہی رہی اس میں اب کوئی
دل پر مرے فقط وہ گل اندام نقش ہے
صورت تری بنائے ہوئی ساحروں کی ہے
کاریگروں کا نقش پہ ہر نام نقش ہے
بہتر یہی ہے بند اب آنکھوں کو کیجیے
ساری ہی کائنات میں ایہام نقش ہے
اچھا ہوا زمیں پہ بسر کیں شبانِ غم
زیرِ زمیں نصیب میں آرام نقش ہے
پیغمبرانِ عشق کی فہرست دیکھیے
اوپر سبھی کے غالبِ بدنام نقش ہے
جامِ جہاں نما کو میں ریحان دیکھوں کیوں
میرے لیے جہان پہ سب جام نقش ہے
ہر سو جہاں میں صورتِ اصنام نقش ہے
حسرت نہ آرزو ہی رہی اس میں اب کوئی
دل پر مرے فقط وہ گل اندام نقش ہے
صورت تری بنائے ہوئی ساحروں کی ہے
کاریگروں کا نقش پہ ہر نام نقش ہے
بہتر یہی ہے بند اب آنکھوں کو کیجیے
ساری ہی کائنات میں ایہام نقش ہے
اچھا ہوا زمیں پہ بسر کیں شبانِ غم
زیرِ زمیں نصیب میں آرام نقش ہے
پیغمبرانِ عشق کی فہرست دیکھیے
اوپر سبھی کے غالبِ بدنام نقش ہے
جامِ جہاں نما کو میں ریحان دیکھوں کیوں
میرے لیے جہان پہ سب جام نقش ہے