ماں نےشگفتہ کو سیاہی ملےسفید رنگ کی یونیفارم پہناتےہوئے کہا۔ آج تم اسکول میں نئےدوستوں سے ملوگی۔ ان کےساتھ نئےچیزیں سیکھوگی اور نئے کھیل کھیلو گی۔
“ آج کا دن کتنا اچھا ہے“ ۔ سات سالہ شگفتہ نےسوچا۔
“ ماں پھرتو میں اپنا لال رنگ والا جوڑا پہنوں گی “۔
“ بیٹی ، اسکول میں صرف یونیفارم کی اجازت ہے“۔
“ پھر میں اپنا جوڑا نئےدوستوں کو کیسےدیکھاؤں گی“ ۔ شگفتہ نے سوچا۔
ماں نےشگفتہ کو اُستانی کےسپرد کرتے ہوے کہا۔ “ بیٹی، یہ تمہاری استانی ہیں - ان کا ادب کرنا اور ان کی ہر بات مانا“ ۔
شگفتہ نےاستانی کو سلام کیا۔ اُستانی نے بھی سیاہی ملے سفید رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔
اُستانی نے کلاس سے کہا۔ “ یہ شگفتہ ہے “۔
بچوں نےایک آواز میں کہا۔ “سلام ۔ شگفتہ“ ۔
سب بچوں کے بال ایک طرح سے بنے تھے ۔ سب بچے اس کی طرح ایک یونیفارم پہنے تھے۔سیاہی ملے سفید رنگ ۔۔۔
“ میں اپنے دوستوں کو کیسے پہچانوں گی ۔وہ مجھے کیسے جانیں گئے“۔اس نے اپنے کپڑوں کی طرف اداس نظروں سےدیکھا۔
کلاس روم کی دیواریں سیاہی ملےسفید رنگ کی تھیں۔ میزیں اور تمام کرسیاں سیاہی ملےسفید رنگ کی تھیں ۔
اُستانی نے آخری قطار میں ایک خالی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ “ آج سے تم وہاں بیٹھوگی “ ۔
شگفتہ سب سے آگے بیٹھنا چاہتی تھی۔
“ اُستانی جی کیا میں وہاں ۔۔۔۔“
“ نہیں تم یہاں بیٹھو گی “۔
شگفتہ خاموشی سے بیٹھ گئ۔
“ بچوں ، چلو آج ہم سب کاغذ پر تصویریں بناتے ہیں “۔
شگفتہ نے نیلا آسمان بنایا، ہری گھاس بنائی اور رنگ برنگی تتلیاں بنائیں۔
“ یہ کیا کر رہی ہو۔ دوسروں کی طرح تم بھی گاڑی اور جہاز کیوں نہیں بناتی“ ۔ اُستانی نےاس کا کاغذ دیکھتےہوئے کہا۔
شگفتہ نےاپنے پاس بیٹھی ہوئی لڑکی کے کاغذ کو دیکھا۔ ایک سیاہی ملے سفید رنگ کی گاڑی اور ایک سیاہی ملےسفید رنگ کا جہاز۔
اُس روز شگفتہ کے دل کےاندر کوئی چیز مرگئ ۔۔۔
اس روز کے بعد شگفتہ ہر روز سیاہی ملےسفید رنگ کی یونیفارم پہنتی ۔ ہر زور اُسی سیٹ پر بیٹھتی اور ہر روز سیاہی ملے سفید رنگ کی گاڑی اور جہاز کی تصویر بناتی۔