سید لبید غزنوی
محفلین
بلا عنوان
کمر ے میں اکیلا بیٹھا کسی سوچ میں گم۔۔۔باہر رات کا پر ہول سناٹا ہے ۔۔۔اوربے آباد گلیوں میں تاریکی اور سردی بے یار ومددگار بھٹک رہی ہیں۔۔۔رات کے تیسرے پہر آس پاس رہنے والے مکینوں کے مکانات جو غریبی اور افلاس کی بولتی تصوریں ہیں ۔۔۔ٹوٹی ہوئی کھڑکی کے آدھ کھلے پٹ سے نظر آرہے ہیں۔۔۔سامنے نظر آتی ٹیرھی میڑھی نالیوں میں بھوک رینگتی ہے اوربستی کے وڈیروں کے قوانین کا تعفن سڑتا ہے ۔۔۔میں اس کو بیاں کرنا چاہتا ہوں تو ڈری ڈری خوف زدہ آوازیں منہ کے اندر ہی دم توڑ جاتی ہیں۔۔۔میں أپنے ہاتھ میز پر پھیلا دیتا ہوں ۔۔۔اور ہاتھوں کی لکیروں کو یک ٹک تکنے لگتا ہوں ۔۔دیکھتے ہی دیکھتے میرے ہاتھوں کی لکیروں کے جسم پھولنا شروع کر دیتے ہیں بالکل یادوں کے رنگ برنگے غباروں کی طرح جن میں لفظوں کی جتنی ہوا بھرو گے ان کے پیٹ پھولتے جائیں گےاور بالآخر پھٹ جائیں گے۔۔۔۔اور ذہن کا تھیلا یادوں کے کھلونوں سے خالی ہو جائے گا۔۔۔۔اور پھر میرے ہاتھ کی لکیریں راستو ں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور وہ قسمت کی لکیر کے راستے کا ہاتھ تھام لیتی ہے (میری محبوب ہستی )۔۔ اور میں مستقبل کی یادوں میں کھو جاتا ہوں ۔۔۔۔رات بھی پر ہنگامہ ہے ۔۔۔سناٹے کاکہیں نام و نشان نہیں ہے ۔۔۔گلیاں بے آباد نہیں جگہ جگہ برقی قمقمے جگمگا رہے ہیں ۔۔۔آس پاس اونچی اونچی عالی شان عمارتیں ہیں اور ان کے مکین خوش رنگ ملبوسات پہنے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔کھڑکی نگاہوں کے سامنے ہے مگر اس پر بیش قیمت پردہ ہے ۔۔۔وہ ٹیر ھی میڑھی نالیاں انڈر گراؤنڈ سیوریج میں بدل گئی ہیں ۔۔۔امن و انصاف کا دور دورہ ہے ۔۔مستقبل جو ایک پہاڑ ہے لمحہ لمحہ رستا ہے ۔۔۔اور قطرہ قطرہ ہو کر حال کے حلق میں ٹپکتا رہتا ہے ۔۔۔اتنی دیر میں کہ حال اسکے ذائقے کو محسوس کرے وہ ماضی کے منجمد سمندر میں جا گرتا ہے ۔۔اور اچانک آنکھ کھلتی ہے اور یہ کیا۔۔۔۔سب مناظر بدل چکے ہیں۔۔۔اور اسی طر ح خود کو کرسی پے بیٹھا پایا جس طرح پہلے تھا۔۔۔اور ہاتھ میز پر ہیں ۔۔اور پھر سوچیں کہ کیا ہوأ تھا ۔۔۔
کمر ے میں اکیلا بیٹھا کسی سوچ میں گم۔۔۔باہر رات کا پر ہول سناٹا ہے ۔۔۔اوربے آباد گلیوں میں تاریکی اور سردی بے یار ومددگار بھٹک رہی ہیں۔۔۔رات کے تیسرے پہر آس پاس رہنے والے مکینوں کے مکانات جو غریبی اور افلاس کی بولتی تصوریں ہیں ۔۔۔ٹوٹی ہوئی کھڑکی کے آدھ کھلے پٹ سے نظر آرہے ہیں۔۔۔سامنے نظر آتی ٹیرھی میڑھی نالیوں میں بھوک رینگتی ہے اوربستی کے وڈیروں کے قوانین کا تعفن سڑتا ہے ۔۔۔میں اس کو بیاں کرنا چاہتا ہوں تو ڈری ڈری خوف زدہ آوازیں منہ کے اندر ہی دم توڑ جاتی ہیں۔۔۔میں أپنے ہاتھ میز پر پھیلا دیتا ہوں ۔۔۔اور ہاتھوں کی لکیروں کو یک ٹک تکنے لگتا ہوں ۔۔دیکھتے ہی دیکھتے میرے ہاتھوں کی لکیروں کے جسم پھولنا شروع کر دیتے ہیں بالکل یادوں کے رنگ برنگے غباروں کی طرح جن میں لفظوں کی جتنی ہوا بھرو گے ان کے پیٹ پھولتے جائیں گےاور بالآخر پھٹ جائیں گے۔۔۔۔اور ذہن کا تھیلا یادوں کے کھلونوں سے خالی ہو جائے گا۔۔۔۔اور پھر میرے ہاتھ کی لکیریں راستو ں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور وہ قسمت کی لکیر کے راستے کا ہاتھ تھام لیتی ہے (میری محبوب ہستی )۔۔ اور میں مستقبل کی یادوں میں کھو جاتا ہوں ۔۔۔۔رات بھی پر ہنگامہ ہے ۔۔۔سناٹے کاکہیں نام و نشان نہیں ہے ۔۔۔گلیاں بے آباد نہیں جگہ جگہ برقی قمقمے جگمگا رہے ہیں ۔۔۔آس پاس اونچی اونچی عالی شان عمارتیں ہیں اور ان کے مکین خوش رنگ ملبوسات پہنے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔کھڑکی نگاہوں کے سامنے ہے مگر اس پر بیش قیمت پردہ ہے ۔۔۔وہ ٹیر ھی میڑھی نالیاں انڈر گراؤنڈ سیوریج میں بدل گئی ہیں ۔۔۔امن و انصاف کا دور دورہ ہے ۔۔مستقبل جو ایک پہاڑ ہے لمحہ لمحہ رستا ہے ۔۔۔اور قطرہ قطرہ ہو کر حال کے حلق میں ٹپکتا رہتا ہے ۔۔۔اتنی دیر میں کہ حال اسکے ذائقے کو محسوس کرے وہ ماضی کے منجمد سمندر میں جا گرتا ہے ۔۔اور اچانک آنکھ کھلتی ہے اور یہ کیا۔۔۔۔سب مناظر بدل چکے ہیں۔۔۔اور اسی طر ح خود کو کرسی پے بیٹھا پایا جس طرح پہلے تھا۔۔۔اور ہاتھ میز پر ہیں ۔۔اور پھر سوچیں کہ کیا ہوأ تھا ۔۔۔