بلا عنوان

نوید ناظم

محفلین
بزرگوں کی بات یہ ہے کہ جو چیز نا پسند ہے مگر چائس نہیں ہے وہاں خاموش رہو' مثلاَ َ کوئی رشتہ دار ہے اور اس کا تعلق آپ کے ساتھ آپ کی توقع کے بر عکس ہے تو اُس کا گلہ نا مناسب ہے کیوں کہ وہ آپ کی اپنی چائس نہیں ہے' کہتے ہیں رشتوں کا تقابلی جائزہ مت لینا بلکہ رشتوں کو نبھانا یا کم از کم قبول ضرور کرنا۔ جو واقعہ ہو گیا اور اس کو روکا نہ جا سکا تو اس کا گلہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ سانپ بے شک مار دو' مگر لکیر نہ پیٹو۔ ہمیں گلہ ہے کہ ملک کہ حالات بڑے خراب ہو گئے ہیں اور یہ گلہ مسلسل ہے' یہ آج کی بات نہیں ہے۔ ملکوں کے حالات خراب بھی ہو سکتے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں' مگر ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔ جب یزید آتا ہے تو حسینیت کو اظہار کا حکم دیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ فرعون آ جائے اور موسیٰ نہ آئے' مگر آنے والا کب آتا ہے، یہ بھیجنے والے کی مرضی ہے۔ وقت تو ہمارے لیے ہے کہ سال ہو گیا نہیں آیا' دس سال ہو گئے اور حالات نہیں بدلے' مگر وہاں وقت نہیں ہے۔۔۔ وہ کہتا ہے باطل کو پنپ لینے دو ذرا' کچھ وقت دو' چلو کچھ اور وقت بھی دے دو۔ مطلب وہاں ایسا نہیں ہے کہ سال ہو گیا' دس سال ہو گئے' اتنا وقت گزر گیا ہے' بڑی دیر ہو گئی۔۔۔۔۔ اللہ نے فیصلے کے دن کا کہا ہوا ہے اور کافروں سے کہا کہ ہم بھی انتظار کرتے ہیں تم بھی کرو' اور انتظار ہوتا ہی جا رہا ہے ۔ یہ بات تو اللہ نے پندرہ سو سال پہلے کہی ہے' اور پتہ نہیں کتنے زمانے اور گزرنے ہیں ابھی' دراصل اللہ کے لیے تو کوئی زمانہ ماضی اور مستقبل کا نہیں ہے' اُس کا انتظار ہمارے انتظار جیسا نہیں ہے۔ لوگ کہتے ہیں حالات بہت خراب ہو گئے ہیں۔۔۔ پھر وہ کہتا ہے کہ چلو اب کربلا بپا کر دو' حالات ٹھیک کرنے ہیں۔ کربلا سے حالات ٹھیک ہو جاتے ہیں؟۔۔۔۔ عجیب بات ہے۔ اصل میں ہم اُس بات کا گلہ کرتے ہیں جو بات ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ اس لیے خاموشی کا کہا گیا ہے۔ کہتے ہیں جو اختیار میں ہے اسے بہتر کر لو' اور جو اختیار میں نہیں ہے اُس کے بہتر ہونے کا انتظار کر لو۔۔۔۔ زندگی آسان ہو جائے گی!!
 
آخری تدوین:
Top