فیاض خلیل
محفلین
سامنے پارک میں شیشم کے درخت پر بیٹھا
یہ جو بلبل مجھے تنہا سا نظر آتا ہے
کون جانے کہ اسے چھوڑ دیا ہے کس نے
کیوں یہ درد بھرے گیت سناتا ہے یہاں
کیوں تنہائی میں یہ خوار ہو جاتا ہے
دن بھر کس کی تجسس میں پھرا کرتا ہے
اور جب شام کے آثار بکھر جائیں گے
اپنے سینے میں وہ نازک سے جگر کو لے کر
آشیانے کی طرف لوٹ چلا جائے گا۔۔۔
یہ جو بلبل مجھے تنہا سا نظر آتا ہے
کون جانے کہ اسے چھوڑ دیا ہے کس نے
کیوں یہ درد بھرے گیت سناتا ہے یہاں
کیوں تنہائی میں یہ خوار ہو جاتا ہے
دن بھر کس کی تجسس میں پھرا کرتا ہے
اور جب شام کے آثار بکھر جائیں گے
اپنے سینے میں وہ نازک سے جگر کو لے کر
آشیانے کی طرف لوٹ چلا جائے گا۔۔۔