فرخ منظور
لائبریرین
غزل
بلبل نے جسے جا کے گلستان میں دیکھا
ہم نے اُسے ہر خارِ بیابان میں دیکھا
روشن ہے وہ ہر ایک ستارے میں زلیخا
جس نور کو تُو نے مہِ کنعان میں دیکھا
برہم کرے جمعیّتِ کونین جو پل میں
لٹکا وہ تری زلفِ پریشان میں دیکھا
واعظ تو سنی بولے ہے جس روز کی باتیں
اُس روز کو ہم نے شبِ ہجران میں دیکھا
اے زخمِ جگر سودۂ الماس سے خُو کر
کتنا وہ مزا تھا کہ نمک دان میں دیکھا
سودا جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ *
کیا جانیے تُو نے اسے کس آن میں دیکھا
*متغیرات: سودا جو ترا حال ہے ایسا تو نہیں وہ
(مرزا رفیع سودا)
بلبل نے جسے جا کے گلستان میں دیکھا
ہم نے اُسے ہر خارِ بیابان میں دیکھا
روشن ہے وہ ہر ایک ستارے میں زلیخا
جس نور کو تُو نے مہِ کنعان میں دیکھا
برہم کرے جمعیّتِ کونین جو پل میں
لٹکا وہ تری زلفِ پریشان میں دیکھا
واعظ تو سنی بولے ہے جس روز کی باتیں
اُس روز کو ہم نے شبِ ہجران میں دیکھا
اے زخمِ جگر سودۂ الماس سے خُو کر
کتنا وہ مزا تھا کہ نمک دان میں دیکھا
سودا جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ *
کیا جانیے تُو نے اسے کس آن میں دیکھا
*متغیرات: سودا جو ترا حال ہے ایسا تو نہیں وہ
(مرزا رفیع سودا)