بلجیم، جرمنی اور فرانس کی سیر

عرفان سعید

محفلین
کافی بھوک لگ رہی تھی۔ ہوٹل میں سامان رکھ کر فورا کھانا کھانے چلے گئے۔ کھانے سے جب ہوٹل واپسی ہوئی تو تھکاوٹ سے برا حال تھا۔ بچے کچھ ہی دیر میں شور شرابہ کرنے کے بعد سو گئے۔ ہماری بھی کچھ دیر میں آنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلی تو شام کے سات بج رہے تھے۔ بچے ابھی تک خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ میں بیوی بچوں کی نیند میں خلل ڈالے بغیر،بیگم کے موبائل پر ایک پیغام چھوڑ کر، ہوٹل سے باہر آگیا۔ برسلز کا بہت بڑا اسٹیشن ہوٹل کے سامنے ہی تھا۔ میں شام کے کھانے کا بندوبست کرنے اسٹیشن کی دوکانوں میں جا گھسا۔ شام کا کھانا لیکر جب واپس آیا تو بیگم جاگ چکی تھیں اور بچے ابھی تک سو رہے تھے۔ رات نو بجے تک سب بیدار ہو چکے تھے۔ اس لمبی نیند کے نتیجے میں سب تازہ دم محسوس کررہے تھے۔کھانے سے فارغ ہو کر بیگم نے برسلز کے تاریخی مقامات کو گھنگالنے کا مورچہ سنبھال لیا۔ بچے اب بہت فریش تھے اور کھانا کھا کر توانائی سے بھرپور تھے۔ انہوں نے بیڈ پر چھلانگیں لگانا شروع کر دیں۔ میں اپنے آفس کا کچھ کام دیکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو کم شور کرنے کی نصیحت کرتا رہا۔

تین گھنٹے بعد جب سب دوبارہ سونے کے لیے تیار تھے تو بیگم اپنی مقاماتِ سیاحت کی تحقیق سے بہت مطمئن تھیں۔ صبح کی سیر و سیاحت کی باتیں کرتے ہوئے ہم سب سو گئے۔
 

عرفان سعید

محفلین
اگلے دن ناشتے کے بعد جب ہوٹل سے نکلے تو طبیعت پوری طرح چاق و چوبند اور تازہ دم تھی۔ دن روشن، موسم خوشگوار اور طبیعت پوری طرح آمادہ تھی۔

ہوٹل سے کچھ ہی فاصلے پر شہر کا اولڈ ٹاؤن تھا۔اولڈ ٹاؤن جاتے ہوئے برسلز کا 300 سال سے بھی پرانا اوپرا ہاؤس تھا۔ جس میں تقریبا ساڑھے گیارہ سو لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔

 

عرفان سعید

محفلین
یورپ کے وہ شہر جن کی تاریخ چند صدیوں تک جاتی ہے، ان کے قدیم شہر اور اس کے مرکز کو آج بھی کم و بیش تاریخی ورثے کے ساتھ محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اس مرکز کو آج بھی ان شہروں میں سب سے زیادہ گہما گہمی کی جگہ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ مجھے بہت سے شہروں کے اولڈ ٹاؤن دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ لیکن جس شان و شوکت سے برسلز کے اولڈ ٹاؤن کا سینٹر آج موجود ہے، اس درجے کو کوئی دوسرا شہر نہیں پہنچتا۔ یہی وجہ ہے اپنے سینے میں ایک ہزار سال کی تاریخ اٹھائے یہ اسکوئر یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج ہے۔

 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
گرینڈ پلیس میں بہت سے گلڈ ہاوسز کی ایک لمبی قطار

قرونِ وسطی میں تاجر، اہلِ فن و حرفت اور ہم پیشہ لوگ امدادِ باہمی کے اصول پر مشترکہ مفادات کے حصول کی خاطر کوئی انجمن یا تنظیم بنا لیتے تھے۔ اس انجمن کو گِلڈ کہا جاتا تھا اور ان کے اجلاس اور سرگرمیاں ان عمارات میں سرانجام پاتی تھیں۔ یہ عمارتیں اس عہدِ وسطی کی یاد دلاتی ہیں۔ ان عمارتوں کی تعمیر سولہویں سے اٹھارویں صدی کے درمیان عمل میں آئی۔



 
آخری تدوین:
Top