بلدیاتی انتخابات کرانے سے صوبے خائف مردم شماری کو نیا بہانہ بنایا جائیگا
لاہور (سید شعیب الدین سے) سپریم کورٹ کے پنجاب، سندھ اور خیبر پی کے میں بلدیاتی انتخابات جلد از جلد کروانے کے بار بار کے احکامات کے باوجود تینوں صوبے بلدیاتی انتخابات کروانے سے خائف ہیں اور تاخیر کے بہانے اور جواز تلاش کر رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کیلئے اب نیا جواز مردم شماری کو بنایا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں میں قومی اسمبلی کا فورم استعمال کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کی ا نتخابی ا صلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے بیحد قریب زاہد حامد کی زیر صدارت کمیٹی نے قومی اور بلدیاتی انتخابات سے پہلے مردم شماری کی سفارش کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے شماریات ڈویژن کے افسروں نے بتایا کہ مردم شماری کیلئے 18 ماہ درکار ہوں گے۔ 10 ماہ تو صرف تیاری کیلئے درکار ہوں گے۔ یاد رہے کہ آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی اور آئین کے تحت ہر 10 سال کے بعد مردم شماری لازمی ہے۔ جبکہ مردم شماری کرانے کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل میں زیر التوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب اور سندھ کی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریزاں ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو خوف ہے کہ صوبے میں اس کی سب سے بڑی مخالف تحریک انصاف بن چکی ہے اسکے باوجود تحریک انصاف ابھی پنجاب میں تنظیمی لحاظ سے زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ بلدیاتی انتخابات کروا دئیے تو صوبے کی 3464 یونین کونسلوں میں تحریک انصاف کی تنظیم قائم ہو جائیگی۔ بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی ایک اہم وجہ بلدیاتی اداروں کو ملنے والی خطیر رقوم کی ان اداروں کے ذریعے خرچ ہونے کی بجائے ’’پنجاب کی قیادت‘‘ کے فیصلوں کے مطابق خرچ کیا جانا ہے۔ مالی سال 2014-15ء کے (پراونشل فنانس کمشن) کے نہ ہونے کی وجہ سے اس دفعہ ٹی ایم ایز کو رقوم نہ ملنا ہے جس کی وجہ سے ٹی ایم ایز کے ملازمیک کو تنخواہیں بھی نہیں مل رہی ہیں۔ صوبہ سرحد کے تحریک انصاف کی حکومت بلدیاتی الیکشن کروانے کے لئے نعرے تو لگاتی ہے مگر پرویز خٹک کی حکومت کو بھی بخوبی علم ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں اے این پی اور دیگر جماعتیں اسے ’’ٹف ٹائم‘‘ دیں گی۔ بلدیاتی انتخابات نہ کروانے کی ایک سب سے اہم وجہ ’’اختیارات کی منتقلی‘‘ کا خوف ہے۔ صوبائی حکومتیں ہوں یا ارکان اسمبلی کوئی بھی ترقیاتی کاموں کی ذمہ داری ’’نالی موری ممبرز‘‘ کو دینے پر تیار نہیں ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے حامی برملا کہتے ہیں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہ دئیے جائیں تو وہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینا پسند کریں گے۔ ماہرین کے مطابق ترقیاتی کام کے ٹھیکے پہلے ارکان اسمبلی کی مرضی سے دئیے جاتے تھے اب ان کے رشتہ دار ٹھیکیدار بن گئے ہیں۔
لاہور (سید شعیب الدین سے) سپریم کورٹ کے پنجاب، سندھ اور خیبر پی کے میں بلدیاتی انتخابات جلد از جلد کروانے کے بار بار کے احکامات کے باوجود تینوں صوبے بلدیاتی انتخابات کروانے سے خائف ہیں اور تاخیر کے بہانے اور جواز تلاش کر رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کیلئے اب نیا جواز مردم شماری کو بنایا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں میں قومی اسمبلی کا فورم استعمال کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کی ا نتخابی ا صلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے بیحد قریب زاہد حامد کی زیر صدارت کمیٹی نے قومی اور بلدیاتی انتخابات سے پہلے مردم شماری کی سفارش کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے شماریات ڈویژن کے افسروں نے بتایا کہ مردم شماری کیلئے 18 ماہ درکار ہوں گے۔ 10 ماہ تو صرف تیاری کیلئے درکار ہوں گے۔ یاد رہے کہ آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی اور آئین کے تحت ہر 10 سال کے بعد مردم شماری لازمی ہے۔ جبکہ مردم شماری کرانے کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل میں زیر التوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب اور سندھ کی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریزاں ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو خوف ہے کہ صوبے میں اس کی سب سے بڑی مخالف تحریک انصاف بن چکی ہے اسکے باوجود تحریک انصاف ابھی پنجاب میں تنظیمی لحاظ سے زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ بلدیاتی انتخابات کروا دئیے تو صوبے کی 3464 یونین کونسلوں میں تحریک انصاف کی تنظیم قائم ہو جائیگی۔ بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی ایک اہم وجہ بلدیاتی اداروں کو ملنے والی خطیر رقوم کی ان اداروں کے ذریعے خرچ ہونے کی بجائے ’’پنجاب کی قیادت‘‘ کے فیصلوں کے مطابق خرچ کیا جانا ہے۔ مالی سال 2014-15ء کے (پراونشل فنانس کمشن) کے نہ ہونے کی وجہ سے اس دفعہ ٹی ایم ایز کو رقوم نہ ملنا ہے جس کی وجہ سے ٹی ایم ایز کے ملازمیک کو تنخواہیں بھی نہیں مل رہی ہیں۔ صوبہ سرحد کے تحریک انصاف کی حکومت بلدیاتی الیکشن کروانے کے لئے نعرے تو لگاتی ہے مگر پرویز خٹک کی حکومت کو بھی بخوبی علم ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں اے این پی اور دیگر جماعتیں اسے ’’ٹف ٹائم‘‘ دیں گی۔ بلدیاتی انتخابات نہ کروانے کی ایک سب سے اہم وجہ ’’اختیارات کی منتقلی‘‘ کا خوف ہے۔ صوبائی حکومتیں ہوں یا ارکان اسمبلی کوئی بھی ترقیاتی کاموں کی ذمہ داری ’’نالی موری ممبرز‘‘ کو دینے پر تیار نہیں ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے حامی برملا کہتے ہیں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہ دئیے جائیں تو وہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینا پسند کریں گے۔ ماہرین کے مطابق ترقیاتی کام کے ٹھیکے پہلے ارکان اسمبلی کی مرضی سے دئیے جاتے تھے اب ان کے رشتہ دار ٹھیکیدار بن گئے ہیں۔