بلقیس ایدھی کون ہیں؟
اکتوبر- دسمبر٢٠٠٣ کےنیوز ویک اسپیشل ایڈیشن میں ران موریو نےایدھی فاونڈیشن کی تعریف میں آسمان ایک کر دیئےہیں۔ جن غریبوں اور محتاجوں کو حکومت پاکستان سے امداد حاصل نہیں ہے ان کی ضروریات ایدھی فاونڈیشن پورا کررہی ہے۔ عبدالستّار ایدھی کی سرپرستی میں ایدھی فاونڈیشن دنیا کی سب سےبڑی ایمبولینس سروس چلارہی ہے۔ اس کے علاوہ ایدھی فاونڈیشن کا لاپتہ لوگوں کی ہاٹ لائن، درجنوں یتیم خانے، اور بےگھر لوگوں، شوہر کےظلم کا شکار عورتیں ، دماغی مریضوں اور نشہ کےعادی لوگوں کے لئے رہائش گاہیں مہیا کرتی ہے۔ ایدھی فاونڈیشن نے ہرعمر کےلوگوں کے لئےبنیادی تعلیم کے ادارے، علاج معالجے کے لئے دوا خانےاور مفت کے کھانا گھر کھول رکھے ہیں جہاں ہر روز ایک ہزار کھانے مفت بانٹےجاتے ہیں ۔ ان کمالات کی فہرست پڑھنے کے بعد آپ سوچتےہیں کہ اگر مولانا (عبدالستّار ایدھی کو پیار میں مولانا کہا جاتا ہے) کو بلقیس ایدھی کی مدد حاصل نہیں ہوتی۔تو کیا ایسا مکمن ہو سکتا تھا۔
ایدھی بلقیس ١٩٦٥ میں فاونڈیشن میں شامل ہوئیں۔ ١٩٦٥ میں ایدھی فاونڈیشن کراچی کےایک پرانےعلاقہ میٹھادر میں ہوا کرتی تھی۔اس زمانےمیں ایدھی فاونڈیشن میں ایک دوا خانہ اور چند ہندو اور کریسچن نرسیں کام کرتی تھیں۔ مسلمان خاندان اپنی عورتوں کےلیےنرس کا کام مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ جیسے وقت گزرا نرسیں کم ہوتی گئیں۔ مولانا نےان نرسوں کی جگہ بھرنے کے لئےنئی نرسیں تلاش کرکے رکھیں۔ اُن نئی نرسوں میں سےایک بلقیس ایدھی تھی۔
بلقیس آٹھوں جماعت کی طالب علم تھی اوراس کو پڑھائی کا شوق نہیں تھا اوراس نےمولانا کے میٹھادر نرسینگ ٹریننگ اسکول میں داخلہ لےلیا۔ اس اسکول میں لڑکیوں کو مڈ وائف اور صحت سےمتعلق چھ ماہ کی بنیادی تعلیم دی جاتی تھی۔
ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد بلقیس کی محنت، جذبہ اور شوق دیکھ کر ایدھی صاحب نے بلقیس کی نرسنگ شعبہ کا انچارج بنا دیا۔ کچھ عرصہ بعد ایدھی صاھب نے بلقیس کو شادی کا پیغام دیا اور ١٩٦٦ میں ١٧ سال کی بلقیس نےستّارایدھی سے شادی کرلی۔
شادی کےبعد بلقیس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا اور زچہ خانہ اورمتنبی بنانے کا شعبہ بھی اس کو سنبھال پڑا۔ کیونکہ پناہ گاہوں میں بےگھر عورتیں موجود تھیں۔ بلقیس نے ان عورتوں کو نرسنگ کی تعلیم و تربیت دینی شروع کی۔ فاونڈیشن ان عورتوں کوتربیت کےدوران ایک ہزار سے پندرہ سو تنخواہ دیتی تھی۔ بارہ ماہ کی تربیت کے بعد بلقیس ان عورتوں کو ملازمت حاصل کرنے میں مدد دیتی تھی۔ جہاں وہ کم از کم تین ہزار روپے کمانےلگتی تھیں۔
دی نیشن میگزیں کی ٨ مارچ ٢٠٠٢ کے ایک مضمون “ ذریعہ معاش کے لیےعورتیں کو تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے“ بلقیس کہتی ہیں۔ ایک لڑکی جس نے ان کے نرسنگ اسکول سے تربیت حاصل کی تھی انہوں نے فاونڈیشن کو ١٠٠ روپے کا عطیہ دیا ۔ “ “ مجھے اسکا ایک ایک روپیہ ایک لاکھ کے برابر لگا“۔
وہ بچے جن کوماں باپ اورگھر میسر نہیں تھا۔ وہ ایدھی فیملی میں رہنے لگے۔ جوڑے جن کے کوئی اولاد نہیں تھی ان بچوں کو گود لینےلگے۔ بلقیس اورستار ایدھی بذات خود ان جوڑوں سے ملاقات کرتے ہیں اور ان جوڑوں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ بلقیس کی ذاتی نگرانی میں تقریبا ١٥ ہزار بچوں کوایدھی فاونڈیشن کے ذریعہ ماں باپ ملے ہیں۔ بلقیس نے نہ صرف ستّارایدھی کا ہاتھ بٹایا ہے بلکہ اپنی اہلیت کی بنا پر بہت سے ایسےضروریات کو ظاہر کیا ہے جن کیطرف دوسروں نے توجہ نہیں دی۔ کراچی سے پشاور کے ہائی وے کے ہر٢٥ کلومیڑ پر پیرامیڈکل اسٹاف اورایمرجنسی ایمبولینس، بلقیس کا پراجیکٹ ہے۔ انہوں نے یورپ اس قسم کی سہولت دیکھنے کےبعد اس کو پاکستان میں قائم کیا۔ یہ سروس بہت ہی کم قیمت پردی جاتی ہے۔ ہردوا خانہ پر بچوں کی بیماریوں کا علاج ، ویکسینیشن اور دوسری خیر وعافیت کی سروس دی جاتی ہے۔ ہرایدھی سینٹر پرایک دواخانہ اور ایک موبائل دوا خانہ ہوتا ہے۔ جہاں تقریبا روزانہ دو سو پچاس لوگ آتے ہیں۔
اب ایدھی صاحب نے تمام روز مرہ کی ذمہ داری بلقیس کوسپرد کردی ہے اور اور وہ فاونڈیشن نے خراج کی طرف مصروف ہیں۔ ایدھی صاحب کا کہنا کہ فاونڈیشن کی کامیابی میں بلقیس کا٧٠ فی صد حصہ ہے۔ بلقیس کےاس کام کو دسیوں بین الاقوامی اداروں نے سراہا ہے اور توثیق میں ایوارڈ ز دیئے ہیں۔
ایدھی صاحب کہتے ہیں “ جب میں نے بلقیس سے شادی کی تو ہم ا+ا = ٢ نہیں بنے بلکہ ہم ا+ا =١١ بن گئے۔