حسان خان
لائبریرین
کہاں تصورِ پستی بلند بینوں کو
ہم آسمان سے لاتے نہیں زمینوں کو
یہاں میرے خیال سے شاید لاتے کے بجائے آتے ہوگا۔ میرے پاس کتاب میں لاتے ہی درج ہے۔
ہمیں ڈرائے گا کیا خاک بحرِ طوفاں خیز
کہ ہم نے سیل بنایا ہے خود سفینوں کو
کسی کے در پہ جھکاتے نہیں جو سر اپنا
انہیں یہ حق ہے چلیں تان کر وہ سینوں کو
مری نگاہ میں ہے ناکارہ وہ سبک فنکار
حسین تر جو بناتے نہیں حسینوں کو
لگاؤ بڑھ کے عناصر کے منہ میں جلد لگام
کہ ان کی پشت پہ میں کس چکا ہوں زینوں کو
قدیم کعبہ و کاشی کے حاجبو ہشیار
مقامِ کفر سے للکارتا ہوں دینوں کو
بشر کے ذہن پہ قرنوں سے جو مسلط ہیں
بدل رہا ہوں گمانوں سے ان یقینوں کو
کل اُن کی نسل کا اے جوش میں بنوں گا امام
خبر کرو مرے مسلک کے نکتہ چینوں کو
(جوش ملیح آبادی)