محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
اب سے ہم نے پکی نیت کرلی ہے کہ کوئی چاہے ہمیں کتنی ہی کھری کھری سنائے، ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے، بس خاموشی سے سنتے رہیں گے اور برداشت کرنے کی کوشش کریں گے، ایک تو اس وجہ سے کہ ابو ، بڑے بھائی، چچا اور پھر ہمارے اسکول ٹیچر نے (ہماری دانست میں) ہمارا قصور نہ ہونے کے باوجود الگ الگ مواقع پر ہمیں ڈانٹا اور یہی نہیں، بل کہ جب ہم نے ان کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے اس پر بھی ہماری کھچائی کرڈالی کہ ایک تو غلطی کرتے ہو پھر بدتمیزی بھی۔
اس لیے بس ہم نے طے کرلیا ہے کہ ہم ایسی چپ سادھ لیں گے کہ اگلا خود ہم سے معافی مانگنے پر مجبور ہوجائے گا۔
ہم اسی ادھیڑ بن میں گرم ٹوپی پہنے، اپنے سوئیٹر کی جیبوں میں دونوں ہاتھ ڈالے، گلی سے گزر رہے تھے کہ اچانک ہمیں اپنے پیچھے کسی کی آواز آئی:
’’تو سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو…؟‘‘
ہم نے ایک جھٹکے سے پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی، ہم نے یہ دیکھا کہ ہمیں یہ بدتمیزی سے بھرپور جملہ بولنے والا کوئی اور نہیں ہماری گلی کا چوکی دار تھا، سردی کی وجہ سے اس نے سر پر رومال اوڑھ رکھا تھا۔
’’ابے تیری ایسی کی تیسی…!‘‘ اس نے مزید کہا۔ ہم نے اسے گھورتے ہوئے دل ہی دل میں کہا:’’اب چوکی دار بھی ہمیں ڈانٹے گا…؟‘‘
’’او…‘‘ہم نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ ہمیں اپنا وہ عزم یاد آگیا کہ کوئی چاہے کتنی ہی کھری کھری ہمیں سنا ڈالے ،ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے۔
’’اپنا کام کر…‘‘ چوکی دار کا یہ جملہ ہمارے لیے کسی بم سے کم نہ تھا۔
مگر ہم اب اسے صرف گھورنے لگے۔ ہم نے سوچا کہ ہم خاموش رہیں گے تو بول بول کر یہ خود ہی خاموش ہوجائے گا، بل کہ شرمندہ ہوجائے گا، کیوں کہہماری امی نے ہمیں تسلی دیتے ہوئے کہا تھا:
’’بیٹا…! دل چھوٹا مت کرو… لوگ اگر تمھیں سنائیں تو چپ چاپ سن لینا… کچھ بولو گے تو بات بجائے بننے کے اور بگڑے گی… چپ رہوگے تو سامنے والا بول بول کر خود ہی شرمندہ ہوجائے گا اور خود ہی تم سے معافی بھی مانگے گا۔‘‘
امی کی اس بات سے ہمیں بہت سہارا ملا اور ہم نے اس بدتمیز چوکی دار کو صرف گھورنے ہی پر اکتفا کیا۔
’’تم میرے منہ لگتے کیوں ہو؟ تمھیں پتا بھی ہے کہ میں کس مزاج کا آدمی ہوں۔‘‘ یہ بات اس نیغصے میں کہی۔
یہ بات سن کر ہم اندر ہی اندر اور بھڑکنے لگے، ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ہم نے اس کے ساتھ ایسا کیا کردیا جس پر وہ ہمیں ایسی کھری کھری سنا رہا ہے، حالاں کہ اس سے پہلے وہ ہم سے بڑے اچھے انداز سے ملتا رہا تھا، ہم دونوں میں کسی قسم کی بے تکلفی بھی نہ تھی۔ پھر یہ آج ہم پر اتنا کیوں بگڑ رہا تھا، آخر ہم کب اس کے منہ لگے تھے؟ہم نے سوچا کہ ہم اس سے کم از کم پوچھ تو لیں، مگر امی کی نصیحت یاد کرکے ہم خاموش ہی رہے۔
’’ہوگئی نا تمھاری بولتی بند، ہم تمھیں پہلے ہی کہا کرتے تھے کہ ہر جگہ ڈینگیں نہ مارا کرو،مگر تمھیں تو شیخی بگھارنے میں لطف آتا تھا، اب دیکھ لو کیا انجام ہوا تمھارا، سب تم سے ناراض ہیں۔‘‘
ہم ہونٹ چباتے ہوئے اسے دیکھتے رہے، ہمیں تو شیخی بگھارنے میں کبھی لطف نہیں آیا اور …اور پھر ہمارا انجام کون سا برا ہوا، کیا کہہ رہا تھا وہ … ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا،آخر ہم پھٹ پڑے:
’’او بھائی…! مسئلہ کیا ہے آپ کے ساتھ؟‘‘
’’ایک منٹ صبر کرو۔‘‘
’’ہم کیوں صبر کریں ایک …‘‘ ہم ابھی اس سے اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ اس نے بڑے پیار سے پوچھا:
’’جی بابو جی…! آپ کچھ کہہ رہے ہیں، معاف کرنا میں فون پر مصروف تھا۔‘‘ اس نے اپنے کان کی طرف اشارہ کیا۔
’’نہیں…جی…کک…کچھ نہیں۔‘‘ ہم نے اس سے یہ کہا اور کھسیانے سے آگے بڑھ گئے۔
اب ہماری سمجھ میں آیا کہ وہ یہ باتیں ہم سے نہیں، بل کہ فون پر کسی اور سے کہہ رہا تھا، ڈینگیں مارنے والے ہم نہیں، بل کہ فون پر کوئی اور تھا، ہم دھوکا اس لیے کھاگئے کہ اس کے دونوں ہاتھ فارغ تھے، رومال سے کانوں کو ڈھانپا ہوا تھا اور غالباً رومال کے اندر اس نے اپنے کانوں پر بلو ٹوتھ لگایا ہوا تھا… مگر…مگر…
ہماری سوچ کی سوئی ایک دم سے اٹک گئی، کیوں کہ یہ ہماری گلی کا چوکی دار کافی غریب تھا، اس کے پاس بھلا بلوٹوتھ والا موبائل کہاں سے آگیا؟
ہم ایک دم سے پھر اس کی طرف مڑے۔
’’بھائی صاحب! رومال ہٹائیے گا ذرا۔‘‘ ہم نے اس کے قریب پہنچ کر عاجزانہ کہا۔
’’نہیں بابو جی! یہ رومال ہم نہیں ہٹاسکتے۔‘‘ اس نے کہا۔
اس کی یہ بات سن کر ہمارے دماغ میں شک کی بتیاں جلنے لگیں۔
’’یہ کیوں ہمیں اپنا بلوٹوتھ نہیں دکھانا چاہ رہا؟ اس کا تو واضح مطلب ہے کہ یہ موبائل چوری کا ہے، ارے چوکی دار ہی اگر چور ہو تو گھروں کی حفاظت کیا خاک ہوگی؟‘‘
یہ سوچ کر غصے سے ہمارے تن کے ہزاروں بال کھڑے ہونے لگے، دونوں کان گرم ہوگئے، ناک کے نتھنے پھول گئے، آنکھیں سرخ ہونے کی کوشش کرنے لگیں، جسم سراپا ہیٹر بن گیا۔
ہم نے فرطِ جوش میں آکر ایک جھٹکے سے اس کے کان سے رومال ہٹا ڈالا…اور… پھر بیک وقت دو کام ہوئے:
ایک تو چوکی دار کا زنّاتے دار تھپڑ ہمارے بائیں کان کو سیٹیوں کی مختلف اقسام سے روشناس کراگیا۔
دوسرا ہمیں حیرت کا زور دار جھٹکا لگا، کیوں کہ رومال کے نیچے پھنسا موبائل، ہمارے رومال کھینچنے کی وجہ سے اب زمین پر بکھرا چوکی دار کو ہم سے دست و گریبان ہونے کی دعوت دے رہا تھا۔
’’دھت تیرے کی…!‘‘ اب ہم اپنے سرخ رخسار پر ہاتھ رکھے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نیچے گرے موبائل کو دیکھ رہے تھے اور اسے دست وگریبان ہونے کی دعوت دینے سے روک رہے تھے۔
اس لیے بس ہم نے طے کرلیا ہے کہ ہم ایسی چپ سادھ لیں گے کہ اگلا خود ہم سے معافی مانگنے پر مجبور ہوجائے گا۔
ہم اسی ادھیڑ بن میں گرم ٹوپی پہنے، اپنے سوئیٹر کی جیبوں میں دونوں ہاتھ ڈالے، گلی سے گزر رہے تھے کہ اچانک ہمیں اپنے پیچھے کسی کی آواز آئی:
’’تو سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو…؟‘‘
ہم نے ایک جھٹکے سے پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی، ہم نے یہ دیکھا کہ ہمیں یہ بدتمیزی سے بھرپور جملہ بولنے والا کوئی اور نہیں ہماری گلی کا چوکی دار تھا، سردی کی وجہ سے اس نے سر پر رومال اوڑھ رکھا تھا۔
’’ابے تیری ایسی کی تیسی…!‘‘ اس نے مزید کہا۔ ہم نے اسے گھورتے ہوئے دل ہی دل میں کہا:’’اب چوکی دار بھی ہمیں ڈانٹے گا…؟‘‘
’’او…‘‘ہم نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ ہمیں اپنا وہ عزم یاد آگیا کہ کوئی چاہے کتنی ہی کھری کھری ہمیں سنا ڈالے ،ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے۔
’’اپنا کام کر…‘‘ چوکی دار کا یہ جملہ ہمارے لیے کسی بم سے کم نہ تھا۔
مگر ہم اب اسے صرف گھورنے لگے۔ ہم نے سوچا کہ ہم خاموش رہیں گے تو بول بول کر یہ خود ہی خاموش ہوجائے گا، بل کہ شرمندہ ہوجائے گا، کیوں کہہماری امی نے ہمیں تسلی دیتے ہوئے کہا تھا:
’’بیٹا…! دل چھوٹا مت کرو… لوگ اگر تمھیں سنائیں تو چپ چاپ سن لینا… کچھ بولو گے تو بات بجائے بننے کے اور بگڑے گی… چپ رہوگے تو سامنے والا بول بول کر خود ہی شرمندہ ہوجائے گا اور خود ہی تم سے معافی بھی مانگے گا۔‘‘
امی کی اس بات سے ہمیں بہت سہارا ملا اور ہم نے اس بدتمیز چوکی دار کو صرف گھورنے ہی پر اکتفا کیا۔
’’تم میرے منہ لگتے کیوں ہو؟ تمھیں پتا بھی ہے کہ میں کس مزاج کا آدمی ہوں۔‘‘ یہ بات اس نیغصے میں کہی۔
یہ بات سن کر ہم اندر ہی اندر اور بھڑکنے لگے، ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ہم نے اس کے ساتھ ایسا کیا کردیا جس پر وہ ہمیں ایسی کھری کھری سنا رہا ہے، حالاں کہ اس سے پہلے وہ ہم سے بڑے اچھے انداز سے ملتا رہا تھا، ہم دونوں میں کسی قسم کی بے تکلفی بھی نہ تھی۔ پھر یہ آج ہم پر اتنا کیوں بگڑ رہا تھا، آخر ہم کب اس کے منہ لگے تھے؟ہم نے سوچا کہ ہم اس سے کم از کم پوچھ تو لیں، مگر امی کی نصیحت یاد کرکے ہم خاموش ہی رہے۔
’’ہوگئی نا تمھاری بولتی بند، ہم تمھیں پہلے ہی کہا کرتے تھے کہ ہر جگہ ڈینگیں نہ مارا کرو،مگر تمھیں تو شیخی بگھارنے میں لطف آتا تھا، اب دیکھ لو کیا انجام ہوا تمھارا، سب تم سے ناراض ہیں۔‘‘
ہم ہونٹ چباتے ہوئے اسے دیکھتے رہے، ہمیں تو شیخی بگھارنے میں کبھی لطف نہیں آیا اور …اور پھر ہمارا انجام کون سا برا ہوا، کیا کہہ رہا تھا وہ … ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا،آخر ہم پھٹ پڑے:
’’او بھائی…! مسئلہ کیا ہے آپ کے ساتھ؟‘‘
’’ایک منٹ صبر کرو۔‘‘
’’ہم کیوں صبر کریں ایک …‘‘ ہم ابھی اس سے اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ اس نے بڑے پیار سے پوچھا:
’’جی بابو جی…! آپ کچھ کہہ رہے ہیں، معاف کرنا میں فون پر مصروف تھا۔‘‘ اس نے اپنے کان کی طرف اشارہ کیا۔
’’نہیں…جی…کک…کچھ نہیں۔‘‘ ہم نے اس سے یہ کہا اور کھسیانے سے آگے بڑھ گئے۔
اب ہماری سمجھ میں آیا کہ وہ یہ باتیں ہم سے نہیں، بل کہ فون پر کسی اور سے کہہ رہا تھا، ڈینگیں مارنے والے ہم نہیں، بل کہ فون پر کوئی اور تھا، ہم دھوکا اس لیے کھاگئے کہ اس کے دونوں ہاتھ فارغ تھے، رومال سے کانوں کو ڈھانپا ہوا تھا اور غالباً رومال کے اندر اس نے اپنے کانوں پر بلو ٹوتھ لگایا ہوا تھا… مگر…مگر…
ہماری سوچ کی سوئی ایک دم سے اٹک گئی، کیوں کہ یہ ہماری گلی کا چوکی دار کافی غریب تھا، اس کے پاس بھلا بلوٹوتھ والا موبائل کہاں سے آگیا؟
ہم ایک دم سے پھر اس کی طرف مڑے۔
’’بھائی صاحب! رومال ہٹائیے گا ذرا۔‘‘ ہم نے اس کے قریب پہنچ کر عاجزانہ کہا۔
’’نہیں بابو جی! یہ رومال ہم نہیں ہٹاسکتے۔‘‘ اس نے کہا۔
اس کی یہ بات سن کر ہمارے دماغ میں شک کی بتیاں جلنے لگیں۔
’’یہ کیوں ہمیں اپنا بلوٹوتھ نہیں دکھانا چاہ رہا؟ اس کا تو واضح مطلب ہے کہ یہ موبائل چوری کا ہے، ارے چوکی دار ہی اگر چور ہو تو گھروں کی حفاظت کیا خاک ہوگی؟‘‘
یہ سوچ کر غصے سے ہمارے تن کے ہزاروں بال کھڑے ہونے لگے، دونوں کان گرم ہوگئے، ناک کے نتھنے پھول گئے، آنکھیں سرخ ہونے کی کوشش کرنے لگیں، جسم سراپا ہیٹر بن گیا۔
ہم نے فرطِ جوش میں آکر ایک جھٹکے سے اس کے کان سے رومال ہٹا ڈالا…اور… پھر بیک وقت دو کام ہوئے:
ایک تو چوکی دار کا زنّاتے دار تھپڑ ہمارے بائیں کان کو سیٹیوں کی مختلف اقسام سے روشناس کراگیا۔
دوسرا ہمیں حیرت کا زور دار جھٹکا لگا، کیوں کہ رومال کے نیچے پھنسا موبائل، ہمارے رومال کھینچنے کی وجہ سے اب زمین پر بکھرا چوکی دار کو ہم سے دست و گریبان ہونے کی دعوت دے رہا تھا۔
’’دھت تیرے کی…!‘‘ اب ہم اپنے سرخ رخسار پر ہاتھ رکھے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نیچے گرے موبائل کو دیکھ رہے تھے اور اسے دست وگریبان ہونے کی دعوت دینے سے روک رہے تھے۔