محسن وقار علی
محفلین
فائل فوٹو –.
بم دھماکوں، راکٹ حملوں اور بدامنی کے ڈھیر سارے واقعات کے باوجود پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی انتخابی عمل اپنے اختتام کو پہنچا۔
ابھی تک موصول ہونے والے نتائج کے مطابق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پچاس میں سے دس نشستیں جیت کر صوبے کی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی ہے، جبکہ مسلم لیگ (ن) اور نیشنل پارٹی آٹھ آٹھ نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔
جمیعت علمائے اسلام (ف) چھ نشستیں حاصل کرپائی ہے جبکہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والوں کی تعداد نو ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام تر توقعات کے برعکس سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی ابھی تک صوبائی اسمبلی کی صرف دو نشستیں ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک بھی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ یہ نتائج صوبے کی سیاست میں ایک نئے رجحان کی نشاندہی کررہے ہیں۔
ان نتائج نے جہاں ایک طرف عوام کی بڑی تعداد کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے وہاں بہت ساری پارٹیوں اور شخصیات نے الیکشن میں شدید دھاندلیوں کا الزام لگاتے ہوئے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
صوبے میں نگران حکومت کی تشکیل میں ناکامی کے باعث لوگوں کے ذہنوں میں پہلے ہی یہ شکوک و شبہات ابھر رہے تھے کہ نواب باروزئی محض ایک نمائشی وزیر اعلیٰ ہیں جبکہ اصل حکومت شاید اداروں کے پاس ہے جو انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں گے۔
سردار اختر مینگل جن کے بارے میں یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھی کہ شاید وہ خود یا ان کی پارٹی کا کوئی بندہ صوبے کا آئندہ وزیر اعلیٰ ہوگا، انتخاباتی عمل اور ان کے غیر متوقع نتائج سے مکمل طور پر مایوس ہیں اور انہوں نے ان نتائج کو ماننے سے یکسر انکار کردیا ہے۔
انہوں نے انتخابات کو ایک ڈھونگ قرار دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ اپنے منظور نظر افراد کو اسمبلی میں لانے کے لئے انتخابات کامحض ڈرامہ رچایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ شاید ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئٹہ کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے نتائج کا اعلان چوبیس گھنٹوں کے بعد بھی نہیں کیا جاسکا جبکہ پی بی 6 (جوکہ رقبے اور ووٹرز کی تعداد کے لحاظ سے کوئٹہ کا سب سے بڑا حلقہ ہے) کے سوا دیگر پانچ حلقوں کے مکمل نتائج صرف دو گھنٹوں میں حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
بی این پی مینگل نے اس بات کی بھی شکایت کی ہے کہ ان کے امیدواروں کی یقینی جیت کو غیر جمہوری اور غیر قانونی طریقے سے شکست میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
انتخابات میں دھاندلی اور نتائج میں ردو بدل کے الزامات صرف بی این پی مینگل ہی طرف سے نہیں آرہے بلکہ بی این پی عوامی، جمیعت علمائے اسلام (ف)، جمیعت نظریاتی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور پیپلز پارٹی نے بھی الیکشن میں وسیع پیمانے پر دھاندلی اور آخری لمحوں میں نتائج میں ردو بدل کے الزامات لگائے ہیں۔
ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے کوئٹہ کی نشست پی بی 2 کے نتائج روکنے، دھاندلیوں کی تحقیقات اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لئے الیکشن کمیشن کے سامنے باقاعدہ درخواست جمع کرادی ہے۔ ایچ ڈی پی کا موقف ہے کہ ان کی واضح برتری کو رات بارہ بجے کے بعد اچانک شکست میں تبدیل کر دیا گیا جب کہ ووٹوں کی گنتی رات دس بجے تک مکمل ہو چکی تھی اور کئی ٹیلی ویژن چینلوں پر اس کا اعلان بھی ہو چکا تھا۔
یہی صورت حال کوئٹہ کے حلقے پی بی 6 کی بھی ہے جہاں تقریباَ چالیس گھنٹے گزرنے کے باوجود نتائج کا اعلان نہیں کیا جا سکا اور شبہ یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہاں بھی نتائج تبدیل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
یاد رہے کہ پی پی 2 پاکستان کا وہ واحد حلقہ ہے جس پر مجلس وحدت المسلمین کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں حالانکہ انہوں نے پاکستان بھر میں 51صوبائی اور 21 قومی اسمبلی کی نشستوں پر امیدوار نامزد کئے تھے۔
قومی اسمبلی کے حلقے این اے 259 میں مجلس وحدت المسلمین نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے امیدوار محمود خان اچکزئی کی حمایت کا اعلان کیا تھا جہاں ان کا مقابلہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے امیدوار حافظ حمداللہ اور مسلم لیگ (ق) کی خاتون امیدوار رقیہ سعید ہاشمی کے ساتھ تھا۔ حافظ حمداللہ نے بھی اس حلقے میں دھاندلی کے سنگین الزامات لگاتے ہوئے نادرا کے زریعے تحقیقات اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے۔
دھاندلی کی شکایت کرنے والے تمام امیدواروں اور پارٹی رہنماؤں کے بیانات میں جو ایک بات مشترک نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ سب اشاروں کنایوں میں اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ موجودہ انتخابی نتائج پہلے سے طے شدہ اور ایک مخصوص فارمولے کے تحت حاصل کئے گئے ہیں تاکہ منظور نظر افراد پر مشتمل ایک ایسی حکومت تشکیل دی جاسکے جو مقتدر حلقوں کے لئے قابل قبول ہو۔
ان الزامات کی موجودگی میں صوبائی الیکشن کمشنر کا یہ بیان بھی آج کے اخبارات کی زینت بنا ہے جس میں انہوں نے انتخابات کو صاف و شفاف قرار دیتے ہوئے اسے خوش آئند قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق صوبے کے پشتون علاقوں میں ٹرن آوٹ 60 فیصد جبکہ بلوچ علاقوں میں 30 فیصد رہا۔
یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ موجودہ انتخابات کے نتیجے میں اگر ایک طرف صوبے سے پیپلز پارٹی کا مکمل صفایا ہو چکا ہے تو دوسری طرف ان کے سابقہ اتحادیوں کو بھی منہ کی کھانی پڑی ہے۔
مثال کے طور پر مسلم لیگ (ق) جو پچھلے انتخابات میں صوبے کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی اس مرتبہ صرف تین سیٹیں ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے۔
یہی حال بی این پی عوامی اور عوامی نیشنل پارٹی کا بھی ہے جن کو اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک ایک نشست ہی حاصل ہو سکی ہے۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے امیدوار ان نتائج کو گزشتہ حکومت کی ناکامی اور عوام کی ان سے بے زاری کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، جبکہ ان کے مخالفین کا خیال ہے کہ یہ دراصل اسی فارمولے کا ہی حصہ ہے جس کے مطابق پورے پاکستان میں پیپلز پارٹی سمیت بعض مخصوص پارٹیوں کو آئندہ کے سیٹ اپ میں کسی قسم کا کردار ادا کرنے سے روکنا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقتدر حلقوں پر تنقید کرنے والوں کی ناکامی اور ان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں کی بھرپور کامیابی سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ مستقبل کے سیٹ اپ کے بارے میں سب کچھ پہلے ہی سے طے کیا جا چکا ہے جس پر صرف عملدرآمد ہونا باقی ہے۔ اس سلسلے میں سردار اختر مینگل کی مثال دی جاتی ہے جو بلوچوں کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولنے سے کبھی نہیں کتراتے۔
اگر ان باتوں اور الزامات کو مان بھی لیا جائے تو دیکھنا یہ ہوگا کہ آئندہ بننے والی حکومت بلوچستان میں کیا تبدیلی لیکر آئے گی؟ کیاوہ ناراض بلوچ نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے، صوبے کو فرقہ واریت اور دہشت گردی سے پاک کرنے اور دیگر محرومیوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوسکے گی؟ اور بلوچستان کو ترقی کے لحاظ سے دیگر صوبوں کے برابر لاکھڑا کر سکے گی؟ بلوچستان کی عوام کو ان سوالوں کے جواب کا شدت سے انتظار رہے گا۔
بہ شکریہ ڈان اردو