سید انور محمود
محفلین
تاریخ:21 اپریل، 2015
بلوچستان لبریشن فرنٹ یا دہشتگردوں کا یہ ٹولہ انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں جوبے گناہ نہتے مزدوروں کو بے دردی سے قتل کرکے اپنے آقاؤں کو خوش کررہاہے۔ وہ غریب مزدور جوسیکڑوں میل دورسے سفر کرکے صرف اپنے گھر کاچولہا جلانے بلوچستان آئے تھے اُن معصوم بے گناوں کو رات کی تاریکی و گہری نیند میں موت کی نیند سلا کران دہشتگردوں نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ یہ پیچھے سے وار کرنے والے ایسے بزدل ہیں کہ جب پاکستانی فورس کی بندوقیں ان کی طرف ہوجائیں تو دم دبا کر بھاگ جاتے ہیں۔ اسکولوں اور پلوں وغیرہ کو بم سے اڑانا عوام کی خدمت نہیں بلکہ دشمنی ہے ان کے بزدل لیڈر باہر بیٹھ کر عیاشیوں سے فارغ نہیں اور یہاں کے سادہ لوح عوام کو ورغلا رہے ہیں ۔ دہشت گردوں کی ایک اور تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے 15 جون 2013ء کو زیارت میں موجود قائداعظم ریذیڈنسی کو بھی بم دھماکوں سے تباہ کیا تھا۔ بلوچستان میں بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی نامی تنظیمیں بلوچستان کی علیحدگی کے ایجنڈے پر سرگرم ہیں۔ یہ تنظیمیں اپنے قیام سے ہی بلوچستان میں گیس لائنیں اڑانے، فوج و پولیس اور غیر مقامی افراد پر حملوں، لوگوں کو گھات لگا کر قتل کرنا ، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اور صوبہ میں دہشتگردی میں ملوث رہی ہیں۔ حکومت پاکستان کے مطابق یہ سب کچھ ایک بہت بڑی سازش ہے، جس کے پیچھے نہ صرف ہندوستان بلکہ امریکہ اور اسکے اتحادی بھی ہیں، آخر کیوں؟ تواس کا سیدھا سا جواب ہے کہ بلوچستان نہ صرف معدنی دولت سے مالامال بلکہ جغرافیائی طور پر پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے۔
ہندوستان یوں تو ایک جمہوری ملک ہونے کا دعویدار ہے لیکن 1947 کے بعد سے ابتک ہندوستانی حکمرانوں نے کبھی بھی جمہوری رویہ نہیں اپنایا۔ اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھنے والے ہندوستانی لیڈر ہمیشہ سے جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ پاکستان ہو یا سری لنکا، نیپال ہو یا اُس کا لےپالک بنگلہ دیش، ہندوستانی حکمرا ن ان سب ملکوں کے بارے میں جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ہندوستان کے ان ناپاک عزائم میں اُس کا ساتھ دینے میں امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل پیش پیش رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان ساتھ ساتھ آزاد ہوئے لیکن افسوس بھارت کی سیاسی قیادت نے آجتک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا ہے۔ بھارت کا مسلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کو کبھی بھی ایک پرسکون اور معاشی طور پر ترقی کرتے ہوئے ملک کےنہیں دیکھ سکتا، دوسرئے چین جو پاکستان کا مخلص دوست ہے اور بلوچستان کی ترقی اور خاصکر گوادر کی بندرگاہ کے حوالے سے اُس کو چین کے کردار پر سخت تکلیف ہے۔ جبکہ پاکستان کا بلوچستان ہی وہ علاقہ ہے جہاں امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کی چپقلش عروج پر ہے۔ امریکہ کی پالیسی یہ ہے وسطی ایشیا کو کنٹرول کرنے کے لیے بلوچستان پر کنٹرول لازمی ہے لیکن چین یہ سمجھتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو اسکی معاشی ترقی اور بین الاقوامی قوت کے طور پر ابھرنا اسکے لیے مشکل ہوسکتا ہے۔
ایک امریکی دانشور ایرک نے بلوچستان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ بظاہر ویران نظر آنے والی یہ زمین اپنی آغوش میں بہت بڑے معدنی خزانے چھپائے ہوئے ہے اور اسکے علاوہ یہ تیل اور گیس کی بین الاقوامی تجارت کے کراس روڈ پر بھی واقعہ ہے اور مستقبل کے سارے گیس پائپ لائنز بھی یہاں ہی سے گذرنے ہیں۔ ایرک نے لکھا کہ ’’ مغربی طاقتیں ایک مضبوط بلوچستان کو ابھرتا نہیں دیکھ سکتیں۔ یہ علاقہ نہ صرف چین کیخلاف استعمال کرنے کیلئے ضروری ہے بلکہ ایران اور پاکستان پر بھی یہاں سے نظر رکھی جا سکتی ہے”۔ ایرک نے اپنے مضمون میں قطر کے ایک انگریزی اخبار دی پینیسوالہ کا بھی حوالہ دیا جس کے مطابق "امریکی ایجنسی سی آئی اے مقامی لوگوں کو 500 ڈالر ماہانہ پر بھرتی کرتی ہے، اسکے علاوہ سی آئی اے کا انچارج جنرل پیٹریاس بلوچستان کو غیر مستحکم اور غیر متوازن کرنے کیلئے افغان مہاجرین کو بھی استعمال کرتا رہا ہے"۔ کالم نگار کے مطابق بلوچستان میں سی آئی اے کے علاوہ برطانیہ کی ایم آئی سکس ، اسرائیل کی موساد اور انڈیا کی ایجنسی را ملوث ہیں۔ امریکہ کا ایک بہت بڑا مقصد یہ ہے کہ اگر امریکہ بلوچستان کو کنٹرول نہ بھی کرپائے تو چین بھی بلوچستان میں سکون سے اپنی سرمایہ کاری نہ کر سکے یعنی معدنی ذخائر کو نکالنے میں اور گوادر پورٹ بنانے میں چین کے کردار کو روکنا مقصود ہے اور یہ ہی مقصد ہندوستان اور ہندوستانی لیڈروں کا ہے تاکہ پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر ترقی نہ کرسکے۔
سانحہ تربت ایک بھیانک واقعہ ہے اور بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہے۔ قوم پرستی کی آڑ میں غریب اور نہتے محنت کشوں کا قتل ایک بزدلانہ کاروائی ہے۔ بلوچستان کے قومی حقوق کی جنگ کو پراکسی وار میں تبدیل کرنے سے نہ تو بلوچستان کا محنت کش طبقہ اپنے حقوق حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی عوامی معیار زندگی بہتر ہو سکتا ہے۔ اس طرح کی کاروائیاں صرف اور صرف بلوچستان کے عوام میں مایوسی اور بدظنی پیدا کرنے کے علاوہ اور کوئی اثرات مرتب نہیں کر سکتیں۔ بلوچستان کے محب وطن عوام ان دہشتگردوں سے چھٹکارا چاہتے ہیں، یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے ماننے والے نہیں۔ دہشتگردوں اور غداروں سے جبتک اُنکے انداز میں بات نہ کی جائےوہ قابو میں نہیں آتے۔ پاکستان کی مرکزی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کو ملکر بلوچستان میں ہونے والی سازشوں، غیر ملکی ایجنٹوں، ملک کے غداروں اور دہشت گردوں کے خلاف ایک گرینڈ آپریشن کرکے ہمیشہ کےلیے ان کا وجود لازمی ختم کرنا ہوگا، ورنہ بلوچستان میں امن ایک خواب بنکر رہ جایگا۔
بلوچستان میں بے گناہوں کا قتل
تحریر: سید انور محمود
بلوچستان کے علاقے تربت میں 11اپریل کو سراپ ڈیم پر کام کرنے والے مزدوروں کے بیس کیمپ پر ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جب مسلح افراد کے حملے کے نتیجے میں بیس مزدورموقع پر ہلاک ہوگئے جبکہ تین مزدور شدید زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونے والے مزدوروں میں سے چار کا تعلق قحط زدہ علاقہ تھرپار کر سے جبکہ باقی تمام مزدور تحصیل صادق آباد کے چک217/212 باندی سے تھا، ان میں سے چودہ افراد ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن میں ایک مزدور اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔ حملے میں ہلاک ہونے والے تمام مزدور کمسن تھے جو اپنے علاقے میں خشک سالی، آبپاشی کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے فاقہ زدگی کے شکار خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس قتل عام کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے کہا کہ چونکہ بلوچستان کے آبی راستوں کو سامراجی نقطہ نگاہ سے استعمال کیا جارہا اور اس کے لئے قائم کی جانے والا انفراسٹرکچر مقامی آبادی کے مفادات کی بجائے پاکستانی اورچینی سامراج کے لئے قائم کیا جارہا ہے۔ ترجمان نے پختون، سرائیکی، سندھی مزدوروں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایف ڈبلیو او اور دیگر تعمیراتی اداروں کے لئے کام کرنے والے مزدوروں کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور اسی قسم کے حملے کئے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد وزیراعظم نوازشریف اوروزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے اس سانحے کی تحقیقات حکم دیدیا ہے جبہے غفلت کے مرتکب 8 لیویز اہلکاروں کو معطل کر کے گرفتارکرلیا گیا۔بلوچستان لبریشن فرنٹ یا دہشتگردوں کا یہ ٹولہ انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں جوبے گناہ نہتے مزدوروں کو بے دردی سے قتل کرکے اپنے آقاؤں کو خوش کررہاہے۔ وہ غریب مزدور جوسیکڑوں میل دورسے سفر کرکے صرف اپنے گھر کاچولہا جلانے بلوچستان آئے تھے اُن معصوم بے گناوں کو رات کی تاریکی و گہری نیند میں موت کی نیند سلا کران دہشتگردوں نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ یہ پیچھے سے وار کرنے والے ایسے بزدل ہیں کہ جب پاکستانی فورس کی بندوقیں ان کی طرف ہوجائیں تو دم دبا کر بھاگ جاتے ہیں۔ اسکولوں اور پلوں وغیرہ کو بم سے اڑانا عوام کی خدمت نہیں بلکہ دشمنی ہے ان کے بزدل لیڈر باہر بیٹھ کر عیاشیوں سے فارغ نہیں اور یہاں کے سادہ لوح عوام کو ورغلا رہے ہیں ۔ دہشت گردوں کی ایک اور تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے 15 جون 2013ء کو زیارت میں موجود قائداعظم ریذیڈنسی کو بھی بم دھماکوں سے تباہ کیا تھا۔ بلوچستان میں بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی نامی تنظیمیں بلوچستان کی علیحدگی کے ایجنڈے پر سرگرم ہیں۔ یہ تنظیمیں اپنے قیام سے ہی بلوچستان میں گیس لائنیں اڑانے، فوج و پولیس اور غیر مقامی افراد پر حملوں، لوگوں کو گھات لگا کر قتل کرنا ، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اور صوبہ میں دہشتگردی میں ملوث رہی ہیں۔ حکومت پاکستان کے مطابق یہ سب کچھ ایک بہت بڑی سازش ہے، جس کے پیچھے نہ صرف ہندوستان بلکہ امریکہ اور اسکے اتحادی بھی ہیں، آخر کیوں؟ تواس کا سیدھا سا جواب ہے کہ بلوچستان نہ صرف معدنی دولت سے مالامال بلکہ جغرافیائی طور پر پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے۔
ہندوستان یوں تو ایک جمہوری ملک ہونے کا دعویدار ہے لیکن 1947 کے بعد سے ابتک ہندوستانی حکمرانوں نے کبھی بھی جمہوری رویہ نہیں اپنایا۔ اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھنے والے ہندوستانی لیڈر ہمیشہ سے جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ پاکستان ہو یا سری لنکا، نیپال ہو یا اُس کا لےپالک بنگلہ دیش، ہندوستانی حکمرا ن ان سب ملکوں کے بارے میں جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ہندوستان کے ان ناپاک عزائم میں اُس کا ساتھ دینے میں امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل پیش پیش رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان ساتھ ساتھ آزاد ہوئے لیکن افسوس بھارت کی سیاسی قیادت نے آجتک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا ہے۔ بھارت کا مسلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کو کبھی بھی ایک پرسکون اور معاشی طور پر ترقی کرتے ہوئے ملک کےنہیں دیکھ سکتا، دوسرئے چین جو پاکستان کا مخلص دوست ہے اور بلوچستان کی ترقی اور خاصکر گوادر کی بندرگاہ کے حوالے سے اُس کو چین کے کردار پر سخت تکلیف ہے۔ جبکہ پاکستان کا بلوچستان ہی وہ علاقہ ہے جہاں امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کی چپقلش عروج پر ہے۔ امریکہ کی پالیسی یہ ہے وسطی ایشیا کو کنٹرول کرنے کے لیے بلوچستان پر کنٹرول لازمی ہے لیکن چین یہ سمجھتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو اسکی معاشی ترقی اور بین الاقوامی قوت کے طور پر ابھرنا اسکے لیے مشکل ہوسکتا ہے۔
ایک امریکی دانشور ایرک نے بلوچستان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ بظاہر ویران نظر آنے والی یہ زمین اپنی آغوش میں بہت بڑے معدنی خزانے چھپائے ہوئے ہے اور اسکے علاوہ یہ تیل اور گیس کی بین الاقوامی تجارت کے کراس روڈ پر بھی واقعہ ہے اور مستقبل کے سارے گیس پائپ لائنز بھی یہاں ہی سے گذرنے ہیں۔ ایرک نے لکھا کہ ’’ مغربی طاقتیں ایک مضبوط بلوچستان کو ابھرتا نہیں دیکھ سکتیں۔ یہ علاقہ نہ صرف چین کیخلاف استعمال کرنے کیلئے ضروری ہے بلکہ ایران اور پاکستان پر بھی یہاں سے نظر رکھی جا سکتی ہے”۔ ایرک نے اپنے مضمون میں قطر کے ایک انگریزی اخبار دی پینیسوالہ کا بھی حوالہ دیا جس کے مطابق "امریکی ایجنسی سی آئی اے مقامی لوگوں کو 500 ڈالر ماہانہ پر بھرتی کرتی ہے، اسکے علاوہ سی آئی اے کا انچارج جنرل پیٹریاس بلوچستان کو غیر مستحکم اور غیر متوازن کرنے کیلئے افغان مہاجرین کو بھی استعمال کرتا رہا ہے"۔ کالم نگار کے مطابق بلوچستان میں سی آئی اے کے علاوہ برطانیہ کی ایم آئی سکس ، اسرائیل کی موساد اور انڈیا کی ایجنسی را ملوث ہیں۔ امریکہ کا ایک بہت بڑا مقصد یہ ہے کہ اگر امریکہ بلوچستان کو کنٹرول نہ بھی کرپائے تو چین بھی بلوچستان میں سکون سے اپنی سرمایہ کاری نہ کر سکے یعنی معدنی ذخائر کو نکالنے میں اور گوادر پورٹ بنانے میں چین کے کردار کو روکنا مقصود ہے اور یہ ہی مقصد ہندوستان اور ہندوستانی لیڈروں کا ہے تاکہ پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر ترقی نہ کرسکے۔
سانحہ تربت ایک بھیانک واقعہ ہے اور بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہے۔ قوم پرستی کی آڑ میں غریب اور نہتے محنت کشوں کا قتل ایک بزدلانہ کاروائی ہے۔ بلوچستان کے قومی حقوق کی جنگ کو پراکسی وار میں تبدیل کرنے سے نہ تو بلوچستان کا محنت کش طبقہ اپنے حقوق حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی عوامی معیار زندگی بہتر ہو سکتا ہے۔ اس طرح کی کاروائیاں صرف اور صرف بلوچستان کے عوام میں مایوسی اور بدظنی پیدا کرنے کے علاوہ اور کوئی اثرات مرتب نہیں کر سکتیں۔ بلوچستان کے محب وطن عوام ان دہشتگردوں سے چھٹکارا چاہتے ہیں، یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے ماننے والے نہیں۔ دہشتگردوں اور غداروں سے جبتک اُنکے انداز میں بات نہ کی جائےوہ قابو میں نہیں آتے۔ پاکستان کی مرکزی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کو ملکر بلوچستان میں ہونے والی سازشوں، غیر ملکی ایجنٹوں، ملک کے غداروں اور دہشت گردوں کے خلاف ایک گرینڈ آپریشن کرکے ہمیشہ کےلیے ان کا وجود لازمی ختم کرنا ہوگا، ورنہ بلوچستان میں امن ایک خواب بنکر رہ جایگا۔