بلوچستان میں صحافت

زین

لائبریرین
بلوچستان میں صحافیوں کی ٹریجڈی  دہرے خطرات کا سامنا ہے

اسلام آباد (رپورٹ…حامد میر)اگرچہ دنیا بھر میں صحافت کو ایک خطرناک پیشہ سمجھا جاتا ہے لیکن اب یہ پیشہ پاکستان، جہاں یہ پروفیشن جان لیوا بن چکا ہے، جیسے ملکوں کیلئے مزید خطرناک بنتا جا رہا ہے۔ 29/ ستمبر کو بلوچستان کے شورش زدہ شہر خضدار میں ٹی وی کے ایک صحافی عبدالحق بلوچ کی ہلاکت نے ان کے ساتھی صحافیوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام نہ دیں اور خضدار پریس کلب پر تالا لگا دیں۔ صحافت کیلئے خضدار ایک تباہ کن علاقہ بن چکا ہے۔ 2008ءء میں خضدار پریس کلب پر علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی نے بموں سے حملہ کیا تھا جس میں تین صحافی زخمی ہوگئے تھے۔ گزشتہ دو سال کے دوران اسی شہرکے پانچ دیگر صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جس میں شہر کے پریس کلب کے صدر محمد خان ساسولی شامل ہیں جو 14/ دسمبر 2010ءء کو مارے گئے۔ آزاد میڈیا سے تعلق رکھنے والے تازہ ترین شکار عبدالحق بلوچ خضدار پریس کلب کے سیکریٹری جنرل تھے۔ اپنے ساتھیوں کیلئے وہ متاثر کن شخصیت تھے اور ان کے قتل نے ان کی کمیونٹی کے ارکان پر زبردست اثرات مرتب کیے ہیں۔ مقامی صحافیوں میں افراتفری کے عالم کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ مقامی صحافیوں کی اکثریت نے اپنے دوست کی 30/ ستمبر کی شام کو تدفین کے بعد اپنے اہل خانہ سمیت شہر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں 80/ صحافی مارے جا چکے ہیں۔ ان میں سے 35/ کو ٹارگٹ کلرز نے مارا، 12/ خود کش دھماکوں میں مارے گئے جبکہ 8/ کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا۔ 2002ءء سے 2012ءء کے درمیان مارے جانے والے 80/ صحافیوں میں سے 16/ کی ہلاکت 2011ءء میں ہوئی جبکہ 6/ صحافی 2012ءء میں ہلاک ہوئے۔ ان میں سے 4/ کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ شام اور صومالیہ کے بعد پاکستان صحافیوں کیلئے انتہائی خطرناک ملک بن چکا ہے۔ پاکستان کے صوبے بلوچستان، خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقے صحافیوں کیلئے مشکل ترین ہیں۔ دراصل یہ علاقے 2001ءء میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے بعد خطرناک بن گئے۔ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں صحافیوں کو طالبان یا پھر سیکورٹی فورسز سے دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ لیکن، بلوچستان میں صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ بلوچستان میں صحافیوں کو نہ صرف طالبان نواز جماعت لشکر جھنگوی اور سیکورٹی فورسز سے دھمکیاں ملتی ہیں بلکہ بلوچ علیحدگی پسندوں اور ریاست کے حامی علیحدگی کے مخالف شدت پسند گروپس سے بھی ملتی ہیں۔ نتیجتاً، بلوچستان کی اکثریت نے عافیت اسی میں جانی کہ وہ روپوشی اختیار کرلیں یا پھر صوبے سے نقل مکانی کرکے چلے جائیں۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کی بڑھتی ہوئی دھمکیوں کی وجہ سے کوئٹہ میں ایک صحافتی ادارے کے نمائندے ایوب ترین کو گزشتہ سال ان کے ادارے نے کہا کہ وہ اسلام آباد شفٹ ہوجائیں۔ ایک اور ادارے سے تعلق رکھنے والے کوئٹہ کے ایک اور صحافی نصیر کاکڑ نے سیکورٹی فورسز کی جانب سے دھمکیاں دینے پر بلوچستان چھوڑ دیا۔ چمن میں سرحدی علاقے سے رپورٹنگ کرنے والے مقامی صحافی نور زمان اچکزئی کو بھی متعدد مرتبہ دھمکیاں دی گئیں۔ دراصل پاکستانی سیکورٹی فورسز نے ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں غیر ریاستی عنصر قرار دیدیا تھا اور وہ بھی صرف اس لئے کہ وہ سرحدی علاقے سے پاکستانی اور افغان فوج کے درمیان ہونے والی لڑائی کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ سیکورٹی فورسز کی جانب سے انہیں دہشت گرد سرگرمیوں میں پھنسانے کی بھی کوشش کی گئی۔ اور اسی دوران طالبان عناصر بھی انہیں مسلسل دھمکیاں دے رہے تھے۔ درحقیقت، صحافیوں کیلئے بلوچستان میں مسائل اکتوبر 2011ءء سے اس وقت سے بڑھنا شروع ہوگئے تھے جب بلوچستان ہائی کورٹ نے کالعدم گروپس کی رپورٹنگ پر پابندی عائد کردی۔ جس کے بعد ان کالعدم گروپس نے اپنی خبریں چھپوانے کیلئے صحافیوں کو دھمکانا شروع کردیا جس پر عدالت نے پابندی عائد کی تھی۔ چونکہ، حکومت یا سیکورٹی فورسز کی جانب سے صحافیوں کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا تھا لہٰذا کئی مقامی اخبارات کے پاس عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کے علاوہ اور کوئی آپشن باقی نہ بچا تاکہ وہ اپنے کارکن صحافیوں کی جانیں بچا سکیں۔ جہاں تک عبدالحق بلوچ کا تعلق ہے، انہیں سب سے پہلے 26/ نومبر 2011ءء میں ریاست نواز شدت پسند گروپ بلوچ مسلح دفاع آرمی (بی ایم ڈی اے یا پھر دی آرمڈ بلوچ ڈیفنس) سے ایس ایم ایس کے ذریعے دھمکیاں ملیں۔ اس کے بعد بی ایم ڈی اے کے ترجمان میر جنگ بلوچ نے صحافیوں کی ہٹ لسٹ جاری کی جن میں عبدالحق بلوچ کا نام بھی شامل تھا جو ایک ٹی وی چینل کیلئے کام کرتے تھے۔ ہٹ لسٹ میں شامل دیگر صحافیوں میں عبداللہ شاہوانی، منیر نور اور عبداللہ کھدرانی شامل تھے۔ میر جنگ بلوچ اس بات پر ناراض تھے کہ کئی بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں کی کوریج کی جا رہی تھی۔ لیکن خضدار کی صحافتی کمیونٹی نے بی ایم ڈی اے کی جانب سے جاری کی جانے والی ہٹ لسٹ کو شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بی ایم ڈی اے کی سرپرستی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک حکومت نواز سینیٹر کر رہے ہیں۔ اس کے بعد بی ایم ڈی اے نے دھمکی دی کہ اگر مقامی اخبارات نے ہٹ لسٹ شائع نہ کی تو نوشکی سے تعلق رکھنے والے صحافیوں پر حملے کیے جائیں گے۔ اس معاملے پر انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے فوری رد عمل ظاہر کرتے ہوئے بی ایم ڈی اے کی دھمکیوں کی مذمت کی ۔ نتیجتاً خضدار پریس کلب کے عہدیداروں نے 27/ نومبر 2011ءء کو اجلاس طلب کیا جس میں بی ایم ڈی اے کی بڑھتی دھمکیوں اور بالخصوص مقامی حکام کی جانب سے تحفظ فراہم کرنے سے انکار کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے طریقوں پر بحث کی گئی۔ پریس کلب کے عہدیداروں نے ملک کے بڑے شہروں کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں بیٹھے اپنے دیگر ساتھیوں کو فون کرکے ان سے مدد طلب کی۔ لیکن، مقامی حکام ان صحافیوں کے مسائل پر کوئی اقدام کرنے میں ناکام رہے۔ اس پر پریس کلب کے عہدیداروں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ احتجاج کے طور پر تمام صحافتی سرگرمیاں معطل کردی جائیں۔ اس پر بی ایم ڈی اے مزید مشتعل ہوگئی اور انہوں نے ایک اور ہٹ لسٹ جاری کردی جس میں خضدار پریس کلب کے صدر ندیم گورگناری، خورشید بلوچ، منیر زہری کے نام شامل تھے۔ ان صحافیوں پر الزام عائد کیا گیا کہ یہ لوگ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کیلئے جاسوسی کر رہے ہیں۔ چونکہ کئی صحافتی اداروں نے ان دھمکیوں کی مذمت کی، بی ایم ڈی چند روز بعد اپنی ہٹ لسٹ سے دستبردار ہوگئی۔ اس کے بعد عبدالحق بلوچ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی صحافتی سرگرمیاں دوبارہ شروع کردیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ہٹ لسٹ سے دستبرداری محض ایک چال تھی۔ عبدالحق بلوچ کے اہل خانہ نے ان قاتلوں کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کرلی ہے جن کا تعلق ریاستی ایجنسیوں کی حمایت کے ساتھ اپنے ڈیتھ اسکواڈ سے ہے۔ لیکن عبدالحق کے ساتھیوں میں سے کچھ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سیکورٹی فورسز کے چند عناصر عبدالحق سے ناراض تھے کیونکہ وہ گم شدہ بلوچوں کے اہل خانہ سے رابطے میں تھے اور سپریم کورٹ کے کوئٹہ بینچ تک پہنچنے میں ان کی رہنمائی بھی کی تھی۔ سپریم کورٹ بلوچستان کے 100/ سے زائد لاپتہ افراد کے مقدمہ کی سماعت کر رہی ہے۔ ان میں سے 19/ کا تعلق خضدار سے ہے۔ ایسے حالات میں، بلوچستان کے صحافیوں کو خضدار سے کوئٹہ تک اور گوادر سے تربت تک روزانہ دھمکیوں کا سامنا ہے۔ یہ لوگ اکثر علیحدگی پسند اور ریاست نواز گروپس کی لڑائی کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ہی عبدالحق بلوچ جان سے گئے۔ دوسری طرف، حکومت نے بھی انہیں ایسے عناصر سے تحفظ کیلئے سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکامی ظاہر کی ہے، میڈیا میں یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ عبدالحق بلوچ قتل سیکورٹی فورسز اور ان کے سیاسی اتحادیوں کی جانب سے صحافیوں کیلئے سخت پیغام ہے، کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ بلوچ قوم پرست جماعتوں کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کی جائے۔ جیسا کہ پاکستان 2013ءء کی پہلی سہ ماہی میں عام انتخابات کی تیاری کر رہا ہے، بلوچستان کی صحافی برادری خود کو انتہائی زد پذیر محسوس کر رہی ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ آزاد میڈیا کے بغیر شفاف اور منصفانہ انتخابات ممکن نہیں۔ عمومی طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستانی میڈیا مضبوط ہوچکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں 2002ءء سے لے کر 2012ءء تک ٹی وی چینلوں کی تعداد ایک سے بڑھ کر ایک سو تک جا پہنچی ہے جبکہ ریڈیو اسٹیشنوں کی تعداد بھی ایک سے بڑھ کر ڈیڑھ سو تک پہنچ چکی ہیں۔ لیکن، نیویارک کی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے میڈیا کیلئے 2012ءء میں پاکستان کو سب سے خطرناک ملک قرار دیا ہے جبکہ فرانس کی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے آزادی صحافت کی فہرست میں 179/ میں سے 151/ نمبر پر رکھا ہے۔ فریڈم ہاؤس نے پاکستان کو 197/ میں سے 144/ نمبر دیئے ہیں۔ ان پریشان کن اعداد و شمار کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب حکومت پاکستان کیلئے یہ فیصلے کی گھڑی ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے، خاص طور پر ملک کے دور دراز علاقوں میں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ دہشت گردوں نے انہیں سزا دی جنہوں نے ان کے ظلم کو بے نقاب کیا، اسی موقع پر ریاستی ایجنسیوں نے بھی ایماندار صحافیوں کو صرف اغوا کیا اور مار ڈالا تاکہ ان کی ناکامیوں پر پردہ برقرار رہے۔ بلوچستان جیسے شورش زدہ علاقوں سے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو دہرے خطراکت کا سامنا ہے اور کئی لوگ اسی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کیونکہ انسانیت کے قواعد کے تحت ان کیلئے یہ ناممکن تھا کہ وہ بیک وقت دو فریقوں کی ڈکٹیشن لیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں 80/ صحافی جان سے جا چکے ہیں لیکن ایک شخص پر بھی اس کا مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ صرف ایک صحافی کے قاتلوں کو پکڑا بھی گیا اور انہیں سزا بھی سنائی گئی، وہ تھے امریکی صحافی ڈینئل پرل۔ ایسی صورتحال میں، پارلیمنٹ سے اپیل کی جانا چاہئے کہ وہ خصوصی قوانین بنائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ صحافی کمیونٹی بلاخوف و خطر اپنے فرائض انجام دیتی رہے۔ مئی 2012ءء میں دوحہ کانفرنس میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی جانب سے تجویز کی گئی سفارشات کو ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے نئی قانون سے قبل ذہن میں رکھنا چاہئے۔ اس اجلاس میں آئی ایف جے نے ریاستی قوانین کو مضبوط بنانے کی تجویز دی تھی۔ عالمی سطح پر انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی سفارشات حکومتوں پر یہ دباؤ ڈالنے کیلئے ایک اہم حصہ بن چکی ہیں کہ انہیں صحافیوں کو تحفظ دینا چاہئے۔ انہوں نے یہ تجویز دی تھی کہ صحافیوں کیخلاف پرتشدد بننے والے عناصر کو روکا اور انہیں سزائیں دی جائیں جبکہ اقوام متحدہ سے اپیل کی جائے کہ حقوق انسانی کے ہائی کمشنر کے دفتر میں صحافیوں کیساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات کی مانیٹرنگ کیلئے خصوصی یونٹ قائم کیا جائے۔ آئی ایف جے کی سفارشات میں یہ بھی کہاگیا تھا کہ ایسے صحافیوں کے اہل خانہ کو معاوضہ دیا جانا چاہئے جبکہ اس سلسلے میں مختلف ملکوں کی امداد کو میڈیا پروٹیکشن کے سلسلے میں ملنے والی امداد سے جوڑ دیا جائے۔ اگر ان سفارشات پر عمل نہ کیا گیا اور ترجیحی بنیادوں پر قابل عمل نہ بنایا گیا اور پاکستان میں صحافیوں کو تحفظ نہ ملا تو ممکن ہے کہ صحافی اپنے خضدار کے ساتھیوں کی طرح فرائض انجام دینا چھوڑ دیں اور ایسی صورت میں آزاد میڈیا کے بغیر پاکستان میں جمہوریت کا فروغ پانا مشکل ہوجائے گا۔


http://e.jang.com.pk/10-02-2012/karachi/pic.asp?picname=836.gif

پیر کو عبدالحق بلوچ کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے پر کوئٹہ کے 26 سے زائد صحافیوں پر مقدمات درج کئے گئے۔ایف آئی آر میں حج پر جانےوالے کوئٹہ پریس کلب کے صدر سلیم شاہد کا نام بھی درج کیا گیا۔

جس پر آج ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے
http://jang.com.pk/jang/oct2012-daily/02-10-2012/u122444.htm
 

زین

لائبریرین
بلوچستان میں کل ایک اور صحافی کو قتل کردیاگیا۔
پنجگور میں دنیا نیوز کے نمائندے رحمت اللہ عابد کو دکان میں گھس کر فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ ان کی محرم الحرام کے بعد شادی تھی۔
 

زین

لائبریرین
رحمت اللہ عابد گزشتہ پانچ سالوں سے صحافت سے وابستہ تھے۔ وہ سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے ساتھ ساتھ دنیا نیوز سے بھی وابستہ تھے۔ دونوں اداروں کی طرف سے انہیں کوئی تنخواہ نہیں ملتی تھی۔جوانسال بیٹے کی موت کا سنتے ہی والد کو فالج کا اٹیک ہوا ہے ۔​
ساتھی کے قتل کے بعد پنجگور میں صحافیوں نے پریس کلب بند کرکے کام چھوڑ دیا ہے ۔ خضدا ر پریس کلب کو پہلے ہی تالے لگ چکے ہیں اور صحافی کوئٹہ اور کراچی کی جانب نقل مکانی کرچکے ہیں۔​
 

زین

لائبریرین
بلوچستان کا بیچارا صحافی
تحریر: طلعت حسین
اس مرتبہ بلوچستان جا کر یوں محسوس ہوا جیسے کسی اور خطے میں آ گیا ہوں۔
ہمارے ملک کا یہ حصہ سیاسی طور پر تو ہمیشہ ہی نظروں سے اوجھل رہا ہے مگر اب یہاں کے حالات کچھ ایسے بن گئے ہیں کہ ہزاروں خبریں صحافیوں کو درپیش خطرات کے باعث بننے سے پہلے ہی غائب ہو جاتی ہیں۔ یا پھر ایسے انداز سے سامنے لائی جاتی ہیں کہ ان کا سر پیر باقاعدہ تلاش کرنا پڑتا ہے جس کے لیے ہمارے پاس آج کل وقت نہیں ہے کیونکہ ہماری تمام تر توجہ اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی سیاسی سرگرمیوں اور تازہ گہما گہمی پر ہے۔ اس صوبے میں کیا ہو رہا ہے وہ تب ہی سامنے آتا ہے جب گمشدہ افراد کے مقدمے کی بات ہوتی ہے اور یا پھر جب کوئی بڑا بحران، جیسا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سامنے آیا، پیدا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ یہاں پر زندگی کی کیا روش ہے۔ لوگ جی رہے ہیں یا معاشی موت مر رہے ہیں۔ نقل مکانی کر رہے ہیں یا خضدار کے رہائشیوں کی طرح مکمل طور پر محصور ہو کر دن گزار رہے ہیں۔ ان معاملات سے نہ کسی کو کوئی سروکار ہے اور نہ کوئی جاننا چاہتا ہے۔ بلوچستان کو اخبارات میں جگہ دلوانے کے لیے صرف بدترین معاملات اور ملک سے علیحدہ ہو جانے والی تحریکوں جیسے مسائل کے حوالے استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ ان مثالوں کی غیر موجودگی میں بلوچستان کی نہ تو نمایندگی ہوتی ہے اور نہ ہی بطور موضوع نمایاں ہو پاتا ہے۔
مرکز میں موجود بے اثر اور بے توقیر حکومت اور عمومی طور پر بے حس ذرایع ابلاغ کے علاوہ جن عوامل نے اس قابلِ مذمت صورتحال کو جنم دیا ہے، ان میں سے چند ایک کا تعلق صوبے میں موجود قیادت سے ہے۔ پاکستان کے کسی حصے میں شاید ایسی سیاسی قیادت کسی اور کی قسمت میں نہیں لکھی گئی ہو گی جیسی یہاں پر موجود ہے۔ اسمبلی اور گورنر ہائوس میں ہر شخص اس صوبے کے نام پر نام اور دام کما رہا ہے جب کہ اس وسیع سر زمین کے طول و عرض میں گھوم پھر کر آپ کو کبھی یہ احساس نہیں ہو گا کہ عوام کی فلاح کے لیے کوئی نمایاں اور دیر پا کام ہوا ہے، کوئٹہ ایئر پورٹ سے نکلتے ہی آپ بھانپ لیں گے کہ اس سر زمین پر ان طبقوں کی حکمرانی ہے جو یہاں سے صرف اپنی جیبیں بھر کر سرمایہ ملک سے باہر یا پاکستان کے دوسرے ترقی یافتہ حصوں میں منتقل کرنے میں مصروف ہوں گے کیونکہ اگر کسی کو اس علاقے کا رائی کے برابر بھی احساس ہوتا تو شاید آج بلوچستان کی بوسیدہ پوشاک پر مخمل کا ایک آدھ پیوند تو نظر آ جاتا۔ ایسا کہیں بھی نہیں ہے۔
ہاں! ڈیروں،ہُجروں، بیٹھکوںاور پُرشکوہ فصیلوں کے درمیان تنی ہوئی موٹی موٹی دیواروں کے پیچھے بیٹھے ہوئے نوابوں، مذہبی وڈیروں، جرائم پیشہ گروہوں کے سربراہوں، اسمگلروں وغیرہ کی زندگیاں آسان، پُر تعیش اور انتہائی رنگین ہیں۔ پیسے کی فراوانی ہے اور غربت کے مارے ہوئے ضرورت مندوں کی لمبی لمبی قطاریں ہیں جن کو وہ جیسے چاہیں استعمال کریں۔ کبھی اپنی ذاتی فوج کے طور پر اور کبھی نام نہاد نظریاتی جنگ میں بطور ایندھن۔ عوام ان تمام استحصالی قوتوں کے گویا زر خرید غلام ہیں۔ وقت پر ان کو ووٹ بھی دیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اپنی جان بھی۔ وہ ان کے لیے بندوق بھی اُٹھاتے ہیں اور ان کی جھوٹی قسموں کے حق میں گواہ بھی بنتے ہیں۔
چونکہ بلوچستان میں تقریباًتمام سیاسی قوتیں اسی نظام میں خوش و خرم ہیں لہٰذا کوئی کسی کے بارے میں کوئی احتجاج یا بڑی شکایت نہیں کرتا اور اس طرح بلوچستان سے باہر کبھی یہ خبر صحیح طریقے سے پہنچ ہی نہیں پاتی کہ یہاں پر روزانہ اس نظام کے چلانے والے اور اس پر ظاہراًَ تنقید کرنے والے جو اس کے حقوق کی بات کرتے ہوئے بھی نہیں تھکتے، دونوں کس طرح ایک مسلسل جبر کا تحفظ کر رہے ہیں۔ کوئی بھی اس حقیقت کو بیان کرنے میں زیادہ وقت صرف نہیں کرتا کہ پچھلے 2 سال میں اس صوبے کو دی جانے والی تقریباً 400 بلین روپوں کی خطیر رقم کہاں پر صرف ہوئی۔ ظاہر ہے جب سب نے مل کر لوٹا ہو تو لوٹنے پر شور کون مچائے گا۔
بلوچستان کو پستی کی چکی میں پیس کر یہاں کے عمائدین اور اسلام آباد میں موجود حکمرانوں نے اپنے سیاسی حلقے مضبوط کر لیے ہیں۔ ان سب نے یہاں پر گرنے والی لاشوں کو سستی شہرت کے لیے خوب بیچا ہے اور اپنی طاقت کے پھل دار درخت کو عوام کے خون سے سینچا ہے۔ اگر پاکستان میں کوئی استحصال کی اصل داستان ہے تو بلوچستان کے اس ظالم طبقے سے متعلق ہے جو خود کو مظلوموں کا حامی جتلاتا ہے مگر کبھی بھی طاقت کے توازن کو عوام کے حق میں تبدیل نہیں ہونے دیتا۔
عموماً ایسے حالات میں ذرایع ابلاغ کا کردار زیادہ موثر ہو جاتا ہے۔ میڈیا عوام کی عدالت بن جاتا ہے جہاں پر سائل آ کر اپنا مقدمہ بیان کرتا ہے۔ اگر انصاف نہ بھی ملے تو کم از کم دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی تسلی حاصل کر کے واپس چلا جاتا ہے۔ مگر بلوچستان میں میڈیا خود زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ درجنوں صحافیوں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرنے کے بعد جو تصویر بنی ہے وہ انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ آج یہاں پر کوئی قلم ایسا نہیں ہے جس پر خوف اور لرزہ طاری نہ ہو۔ کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو صاف الفاظ میں حقیقت بیان کر سکے۔ ایک طرف کالعدم مذہبی انتہاء پسند تنظیمیں ہیں تو دوسری طرف نام نہاد علیحدگی پسند گروپ۔ باقی سمتوں سے خطرات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ طاقتور سیاستدان اور ریاست کے ادارے سب ہاتھ میں چابک لیے کھڑے ہیں۔ ہر کوئی کھال اُتارنے پر تیار ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس وقت بلوچستان کا صحافی یہاں کے عوام سے زیادہ بے بس اور لاچار ہے۔ وہ حکیم جس کے دروازے پر ہر مرض کے علاج کا دعویٰ لٹکا ہوا ہے اس وقت خود نزع کے عالم میں ہے۔ گھر سے نکلنے سے لے کر واپس آنے تک صحافی کے دوست اور ان کے گھر والے کلمہ طیّبہ کا وِرد کرتے رہتے ہیں۔ نہ جانے کب کہاں سے موت کا فرشتہ آ کر دبوچ لے۔ کب کوئی فون پر یا خود دفتر میں آ کر بچوں اور خاندان کے دوسرے افراد کی تفصیل سے ایسے آگاہ کرے کہ جسے وہ اسی کے گھر میں رہتا ہو اور پھر یہ کہے کہ ہم آپ کو نہیں بلکہ ان سب کو چن چن کر مار دیں گے۔ اور پھر جب مالکان تنخواہ وقت پر نہ دیتے ہوں یا اتنی دیں کہ پٹرول کا خرچ بھی پورا نہ ہو تو پھر کس نے کیا صحافت کرنی ہے۔ جان بچ جائے یہی کافی ہے۔ بلوچستان اس وقت جس نازک دور سے گزر رہا ہے اس کا شاید سب کو اندازہ ہے۔ اس کا بھی علم ہے کہ وہاں پر گمشدہ افراد کا کیا قصہ ہے اور سیاسی جوڑ توڑ کیسے جا ری ہے۔ مگر عام لوگ، بشمول صحافی، روزانہ کس عذاب سے گزرتے ہیں اس کی خبر کبھی نہیں بنتی۔
 

زین

لائبریرین
اس کی صحافت اور شاعر ی اس کے خاندان کیلئے خطرہ بن رہی تھی ۔ اپنے بچوں کی خاطر اس نے صحافت اور شاعری بند کر دی لیکن افسوس کہ اپنی زبان بند کرکے بھی وہ اپنے بچے نہ بچا سکا ۔ اس کے دو جوان بیٹوں کو گولی ما ردی گئی ۔ کچھ دن قبل دو جوان بیٹوں کی لاشیں دفنانے والے اس بدقسمت باپ نے مجھے ایک خط لکھا ہے ۔ ذرا اس خط میں بیان کردہ دکھ کو پڑھ لیں ۔​
محترم حامد میر صاحب​
سلام مسنون ! مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنے اس خط کو کیا عنوان دوں۔ میں اپنے تین میں سے دو بیٹوں کی شہادت پر ان کی ماں کی طرف مرثیہ لکھوں۔​
میر صاحب ! میں انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں ۔ میرا خاندان کئی نسلوں سے گلہ بانی کرتا رہا ہے۔ میرا بچپن بھیڑبکریاں چراتے گزرا۔ میں نے کچھ دینی تعلیم کے بعد پرائمری سے لیکر ایم اے تک پرائیویٹ تعلیم حاصل کی ۔ نہ مجھے پڑھانے والا کوئی استاد ہے نہ میرا کوئی کلاس فیلو ہے ۔ میں اپنے بچوں کو آبائی گاؤں سے نکال کر خضدار شہر لایا تاکہ میرے بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔ بچوں کو تعلیم دلانا میرا خواب تھا ۔ میری بیوی ان پڑھ تھی لیکن اس نے اپنے بچوں کی تعلیم پر مجھ سے زیادہ توجہ دی ۔ میرے بڑے بیٹے شہید سراج احمد اور اس سے چھوٹے شہید منظور احمد کی دو سال قبل شادی ہوئی تھی ۔ بڑے بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے دو جڑواں بچے ایک بیٹا اور بیٹی جبکہ ان سے چھوٹے کو ایک بیٹی عطاء کی ۔ سراج نے بی ایس سی کرنے کے بعد بلوچستان یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا لیکن غربت کی وجہ سے پڑھائی جاری نہ رکھ سکا ۔ اس نے ہمت نہ ہاری اور ملازمت کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کر لیا۔ وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی پڑھاتا رہا ۔ منظور احمد نے اسی سال بلوچستان یونیورسٹی سے فزکس میں فرسٹ ڈویژن میں ایم ایس سی کیا اور لیکچرار بننے کیلئے پبلک سروس کمیشن کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا ۔24/اکتوبر کی رات سراج اور منظور عید کی شاپنگ کیلئے گھر سے نکلے ۔ تھوڑی دیر کے بعد گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دی ۔ میں نے فوراً بڑے بیٹے منظور کے موبائل فون پر کال کی لیکن جواب نہ ملا ۔ میں بچوں کو روتا چھوڑ کر باہر کی طرف بھاگا اور پھر میں نے دیکھا کہ بڑا بیٹا سراج احمد موقع پر شہید ہو چکا تھا ۔ منظور کو زخمی حالت میں سول ہسپتال خضدار پہنچایا گیا وہاں سرجن موجود نہ تھا اسے سی ایم ایچ خضدار پہنچایا گیا جہاں اگلے دن وہ بھی ہمیں روتا تڑپتا چھوڑ کر اس دنیا سے چلا گیا ۔​
حامد میر صاحب ! میں نے زندگی بھر اپنے بچوں کو سیاست سے دور رکھا میں نے اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم کیلئے بہت محنت کی ۔ میں اپنی مادری زبان میں شاعری کرتا تھا، افسانہ لکھتا تھا اور اخبارات میں کالم بھی لکھتا تھا ۔ بلوچستان کی موجودہ صورتحال کے باعث میں نے پچھلے چار سال سے اپنی ادبی سرگرمیاں معطل کر رکھی تھیں کہ کہیں میری شاعری، افسانے اور کالم سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے ہم نے پریس کلب خضدار کو بند کرکے اپنے اداروں کو خبروں کی ترسیل بھی بند کر رکھی تھی ۔ پھر میرے دو جوان بیٹوں کو کس جرم میں شہید کر دیا گیا ؟ اگر میں نے کوئی قصور کیا تھا تو میرے بچوں کو سزا کیوں دی گئی ؟ میں سمجھتا ہوں کہ میرا قصور صرف اتنا تھا کہ انتہائی غریب ہونے کے باوجود میں نے اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا ۔ صوبائی حکومت ہو یا ضلعی انتظامیہ آج تک کسی نے میرے ساتھ دو لفظ ہمدردی کے نہیں بولے ۔ شائد میرے بچوں کے قاتل صوبائی حکومت اور انتظامیہ سے زیادہ طاقتور ہیں ان قاتلوں نے میرے بے گناہ بچوں کو کسی جھوٹ اور غلط فہمی کی بنیاد پر اجاڑ دیا ہے لیکن میں ان قاتلوں کو آج سے قیامت تک معاف کرتا ہوں کیونکہ میرے لئے اتنا کافی ہے کہ میرے دو بیٹے شہید ہو کر تاقیامت امر ہو گئے ۔ فقط ندیم گرگناڑی صدر خضدار پریس کلب،​
ایک دکھی اور بے بس باپ کا خط آپ نے پڑھا ۔ ندیم گرگناڑی بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر کے پریس کلب کے صدر ہیں ۔ ان کے بچوں پر حملے سے قبل 29ستمبر 2012ء کو خضدار پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عبدالحق بلوچ کو بھی نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا ۔ جس کے بعد پریس کلب کو تالا لگا دیا گیا تھا اور مقامی صحافیوں نے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی بند کر دی تھی ۔ خضدار کے صحافی کافی عرصے سے ریاست کے مخالف عسکریت پسندوں اور ریاستی اداروں کے پیدا کردہ عسکریت پسندوں کی دھمکیوں کا شکار ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل ریاستی اداروں کی سرپرستی میں چلنے والے ایک مسلح گروپ نے خضدار اور چاغی کے صحافیوں کو کھلم کھلا دھمکیاں دی تھیں کہ اگر انہوں نے بی ایل اے اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کی کوریج بند نہ کی تو ان کا انجام بہت برا ہو گا ۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ریاست کے مخالفوں کی طرف سے قانون شکنی اور دھمکیوں کی تو سمجھ آتی ہے لیکن جب ریاستی ادارے بھی قومی مفاد کے نام پر قانون شکنی کرنے والوں کی پشت پناہی شروع کر دیں تو وہ ریاست کی سلامتی کیلئے خود سب سے بڑا خطرہ بن جاتے ہیں ۔ ندیم گرگناڑی اور ان کے ساتھی صحافیوں پر ریاست کے حامیوں اور مخالفین دونوں کا دباؤ تھا اور اس دباؤ کے باعث انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ صحافتی سرگرمیاں معطل کر دیں لیکن اپنے دو جوان بیٹوں کو نہ بچا سکے ۔ یہ صرف ندیم گرگناڑی کا المیہ نہیں ہے یہ صرف بلوچستان کے صحافیوں کا المیہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے پاکستانی میڈیا کا المیہ ہے بظاہر پاکستانی میڈیا کو بہت طاقتور سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خضدار پریس کلب کو تالا لگ چکا ہے۔ جنرل سیکرٹری قتل ہو گیا اور پریس کلب کا صدر اپنے دو جوان بیٹوں کے قاتلوں کو معاف کرنے کا اعلان کر رہا ہے کیونکہ ریاست اسے انصاف دینے کے قابل نہیں رہی ۔​
اس وقت میرے سامنے پچھلے دس سال کے دوران پاکستان کے مختلف شہروں میں قتل کئے جانے والے 86صحافیوں کی فہرست پڑی ہے ۔ 86میں سے صرف ایک صحافی کے قاتل پکڑے گئے اس صحافی کا نام ڈینئل پرل تھا ۔ باقی 85پاکستانی صحافیوں اور ان کے اہلخانہ کے کسی قاتل کو آج تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ صحافیوں کیلئے بلوچستان، خیبرپختونخوا اور فاٹا سب سے خطرناک علاقے ہیں ۔ انٹرمیڈیا کی ایک ریسرچ اور سروے رپورٹ کے مطابق اپریل 2012ء میں فاٹا کے 74فیصد صحافیوں کو دھمکیاں دی گئیں ۔ فاٹا کے 25فیصد صحافیوں پر پچھلے 12ماہ کے دوران حملے ہوئے لیکن اکثر نے خاموشی اختیار کی ۔ پچھلے دس سال میں کراچی کے ایک درجن کے قریب صحافی قتل کر دیئے گئے ۔ جیو نیوز کے رپورٹر ولی خان بابر کے قاتل تو گرفتار ہو گئے لیکن ریاست سے زیادہ طاقتور عناصر نے اس قتل کے گواہوں کو کراچی میں ختم کر دیا ۔ پچھلے دس سال کے دوران 4صحافی لاہور اور 4صحافی اسلام آباد میں قتل کئے گئے کسی کا قاتل نہ پکڑا جا سکا ۔ صحافت پاکستان میں سب سے خطرناک پروفیشن بن چکا ہے اس پروفیشن میں محنت کرنے والوں کو عزت بھی ملتی ہے، شہرت اور پیسہ بھی ملتا ہے لیکن ہر وقت دھمکیوں اور دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ آج آپ کو میڈیا میں جو آزادی نظر آ رہی ہے یہ آزادی کسی نے ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی بلکہ ہمارے ساتھی اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر آپ تک سچ پہنچاتے ہیں ۔ کچھ کالی بھیڑیں اس آزادی کا غیر ذمہ دارانہ استعمال بھی کرتی ہیں لیکن اس آزادی کا ذمہ دارانہ استعمال ہی میڈیا کو مضبوط اور موثر بنا سکتا ہے ۔ میڈیا اس وقت مضبوط اور موثر بنے گا جب وہ صرف دوسروں کیلئے نہیں اپنے لئے بھی انصاف حاصل کرسکے گا جب خضدار پریس کلب کا تالا کھل جائے گا اور ندیم گرگناڑی کا قلم اور زبان دوبارہ متحرک ہو جائے گی ۔​
 

طالوت

محفلین
اس صوبے میں جس پھرتی سے غدار بنائے جاتے رہے اور گذشتہ دہائی میں جن سرگرمیوں کا یہ مرکز رہا ، ایسے مایوس کن حالات بالکل بھی حیرت انگیز نہیں۔
 
Top