بلوچستان: پکچر ابھی باقی ہے! عابد میر

کیا بلوچستان میں انتخابات ہوسکیں گے؟ یہ وہ سوال ہے، جو پاکستان میں انتخابی عمل کے آغاز کے ساتھ ہی سیاسی و عوامی حلقوں میں گردش کرنے لگا تھا جس کی شدت میں اب روز بروز تیزی آتی جا رہی ہے۔ ہر گزرتا دن اس سوال کے آگے لگے سوالیہ نشان میں مزید اضافہ کرتا چلا جارہا ہے۔ سردار ثنا اﷲ زہری اور سردار عبد الرحمان کھیتران پر ہونیوالے جان لیوا حملوں کے بعد یہ سوال مزید تیزی سے گردش کرنے لگا ہے۔
اس سوال کے تناظر پر کچھ روشنی ہم اپنے گزشتہ کالم ’بلوچستان میں انتخابی اپ سیٹ‘ میں ڈال چکے ہیں۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ سوائے مکران و جھالاوان کے چند ایک حلقوں کے، باقی بلوچستان میں کوئی بڑا انتخابی اپ سیٹ ہونے کا امکان ہے ، نہ ہی انتخابات کے ملتوی ہونے کا۔ ہم نے اس کی وجوہات کا بھی تفصیلی تذکرہ کیا تھا۔ لیکن حالیہ حملوں نے فطری طور پر ایک سراسیمگی کی کیفیت پیدا کردی ہے، اور خود صحافیوں کی اکثریت بھی ایک دوسرے سے بے یقینی کی کیفیت میں یہ سوال دہرا رہی ہے کہ کیا بلوچستان میں انتخابات ہوسکیں گے؟
بلوچستان میں کسی سردار کو مزاحمتی تنظیم کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں لیکن اپنے انجام و نقصانات کے تناظر میں یہ اہم ضرور ہے۔ سابق وزیراعلیٰ نواب رئیسانی، گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی سمیت ثنا اﷲ زہری کو بھی ماضی میں نشانہ بنایا گیا، جو ان واقعات میں محفوظ رہے، سوائے گزشتہ برس مستونگ میں ہونیوالے بم دھماکے میں نواب رئیسانی کے جواں سال بھتیجے کی موت کے، ان واقعات میں اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ گو کہ ثنا اﷲ زہری کو نشانہ بنانے والی مزاحمتی تنظیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ ہر اس شخص کو نشانہ بنائینگے جو بلوچوں کے خون کے عوض پارلیمنٹ کو دوام بخشنے کی کوشش کرے گا۔
لیکن بلوچستان میں ایک حلقے کا یہ خیال ہے کہ درحقیقت مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے اس نوعیت کے حملے، اس الزام کو دھونے کی کوشش ہیں، جن میں بعض عوامی حلقوں کی جانب سے یہ تنقید کی جارہی تھی کہ رازق بگٹی ہو، حبیب جالب ہو یا مولا بخش دشتی، بلوچستان میں مڈل کلاس کا سیاست کرنے والا آدمی تو ماردیا جاتا ہے، لیکن عملی طور پر طاقت کے مالک نوابوں اور سرداروں کا کوئی نام نہیں لیتا۔ جس کے باعث مزاحمتی تنظیموں کے زیر اثر علاقوں میں بھی ان کی حمایت و مقبولیت میں کمی محسوس کی جانے لگی تھی۔
مزاحمتی تنظیمیں مختلف مواقع پر اس تاثر کو رد کرنے کی کوشش تو کرتی رہی ہیں، لیکن ایسا محض زبانی جمع خرچ کی حد تک ہی رہا، اس کا عملی مظاہرہ پہلی بار نواب رئیسانی کے قافلے پر ہونے والے حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ حالیہ حملوں سے گویا انھوں نے دو فوری مقاصد حاصل کر لیے، ایک تو انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ ان کا نشانہ محض مڈل کلاس کے سیاست دان ہیں، بلکہ وہ اپنے کسی بھی سیاسی و نظریاتی مخالف کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتے، خواہ وہ کوئی نواب، سردار ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری طرف انتخابات سے متعلق خوف کا ماحول بنانے میں بھی وہ خاصی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں۔
مکران اور جھالاوان کے مکینوں کا کہنا ہے کہ وہاں کے عام آدمی میں انتخابات سے متعلق پہلے ہی کوئی خاص دلچسپی نہیں پائی جاتی تھی لیکن حالیہ حملوں کے بعد تو گویا عوام کی اکثریت کی انتخابی عمل سے لاتعلقی یقینی ہوگئی ہے لیکن اس کے باوجود تاحال ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ انتخابی عمل یکسر غیرموثر یا معطل ہو کر رہ جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کی کچھ ٹھوس وجوہات بھی ہیں۔ اول تو ان تنظیموں کے مابین پائی جانے والی اندرونی کشمکش ہے جو انتخابات کے نزدیک آنے تک مزید شدت اختیار کرسکتی ہے، اس کشمکش کی وجوہات یہاں زیر بحث نہیں۔
دوسری طرف بلوچستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی عمل میں شمولیت کا اعلان ہے۔ گویا بلوچستان کی تمام تر سیاسی قوتیں ایک ہوچکی ہیں جب کہ مزاحتمی تنظیمیں دوسری جانب ہیں۔ سیاسی جماعتیں نہتی ہیں اور مزاحتمی تنظیمیں مسلح جو اپنی بات منوانے کے لیے مکالمے کے بجائے گولی کا سہارا لے رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کی جمہوری قوتیں اس کی حمایت نہیں کریں گی، یوں ان کے موقف کو وہ پذیرائی بھی شاید حاصل نہ ہوسکے جس کے وہ مستحق ہیں۔ انھیں یہ تسلیم کرنا ہو گا مکالمے کی جگہ گولی اکثر آپ کے درست و جائز موقف کو بھی غلط سمت پر ڈال دیتی ہے۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مزاحمتی قوتوں کو اس حد تک جانے پر مجبور کرنے میں ان سیاسی قوتوں کا اپنا قصور بھی ہے۔ سیاسی اور مزاحمتی قوتوں کے مابین باقاعدہ تصادم کا آغاز 2006 میں نواب بگٹی کے قتل کے بعد قلات میں ہونے والے بلوچستان کے تمام سرداروں کے گرینڈ جرگے میں ہونے والے فیصلوں سے ہوا۔ اسی جرگے میں بعض سیاسی قائدین نے جذبات میں آکر کہہ دیا کہ اب پاکستان سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں، جب کہ خان آف قلات نے اعلان کیا کہ وہ بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ جبری الحاق کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں داخل کروائیں گے۔
بعدازاں یہی سردار سیاسی عمل کا حصہ بنے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں شامل ہوئے۔ خان آف قلات نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی اور لندن منتقل ہوگئے۔ اس جرگے میں شامل ہونے والے بی ایس او کے کئی نوجوان کارکن بعدازاں مزاحمتی تنظیموں کا حصہ بنے۔ وہ ان سرداروں کو اپنے معصوم خوابوں کا قاتل سمجھتے ہیں، وہ اب انھیں کسی صورت بخشنے کو تیار نہیں۔
لیکن یہ محض ایک رخ ہے۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اب کے جنھیں نشانہ بنایا گیا یا بنایا جارہا ہے، وہ مڈل کلاس کے کوئی عام لوگ نہیں کہ جن کا خون رزقِ خاک ہو کر رائیگاں چلا جائے گا۔ یہ قبائلی لو گ ہیں، انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انھیں مارنے کی ذمے داری کون سی تنظیم قبول کرتی ہے، وہ اس بات کا سراغ لگائیں گے کہ انھیں کس قبیلے کے لوگوں نے نشانہ بنایا اور پھر بلوچستان قبائلی جنگوں کے ایک اور بے رحم دور میں داخل ہوجائے گا۔ ہم برادرکشی کی ایک طویل تاریخ رکھنے والی قوم ہیں۔ اور جب ہم پر قبائلی انا طاری ہوجائے تو پھر ہم برادرکشی کے لیے اپنے شدید ترین دشمن سے بھی ہاتھ ملانے (بلکہ اس کے سامنے جھک جانے) میں بھی عار محسوس نہیں کرتے، بلوچستان میں ایک بار پھر یہی کچھ ہونے جارہا ہے۔
مزاحمتی تنظیمیں یہ سمجھتی ہیں کہ تمام تر سیاسی قوتوں اور شخصیات کی جانب سے سیاسی عمل میں شمولیت سے ان کے کاز کو عالمی سطح پر دھچکا پہنچے گا۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ بلوچستان کی تمام سیاسی قوتیں پاکستان کے پارلیمانی نظام پر یقین رکھتی ہیں۔ اس لیے مزاحمتی تنظیمیں انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ دوسری طرف اپنے گزشتہ تجربے کی روشنی میں سیاسی قوتیں یہ سمجھتی ہیں اگر اب بھی وہ سیاسی عمل سے باہر رہیں تو مخالفین کے ذریعے ان کا صفایا کردیا جائے گا۔ اس لیے انتخابی عمل میں شرکت ان کے لیے بقا کا مسئلہ ہے۔
ملکی مقتدرہ بھی دنیا کو یہ دکھانا اور باورکرانا چاہتی ہے کہ بلوچستان میں ’سب ٹھیک ہے‘ اس لیے انتخابات کا بروقت انعقاد اس کے لیے بھی درد سر بنا ہوا ہے۔ اسی تناظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں انتخابات ہوں گے، یہ اور بات کہ ’فرشتے‘ ووٹ ڈالیں گے اور بلوچستان میں پاکستان کے تمام صوبوں سے زیادہ حیرت انگیز ٹرن آئوٹ سامنے آئے گا۔ لیکن ساتھ ہی سیاسی و مزاحمتی قوتوں کے درمیان تصادم میں بھی شدت آئے گی۔ سرداروں پر قاتلانہ حملوں کی جو نئی کہانی شروع ہوئی ہے، عین ممکن ہے وہ کوئی ڈرامائی رخ اختیار کرلے اور موجودہ انتخابات اس کا تھرل سے بھرپور ’انٹرول‘ ثابت ہوں۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس پکچر کا اختتام انتہائی بھیانک اور دہشت ناک ہوگا۔ تمام تر نقصان ’خاموش تماشائیوں‘ کے حصے میں ہی آئے گا۔
 
Top