زین
لائبریرین
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمد خان کو نامعلوم شخص نے فائرنگ کرکے قتل کردیا ۔
پولیس حکام کے مطابق شفیق احمد خان ایک تقریب میں شرکت کے بعد کوئٹہ کے علاقے امیر آباد تیل گودام میں واقع اپنی رہائشگاہ پہنچے ابھی اپنی گاڑی سے اترے ہی تھے کہ پہلے سے موجود ایک شخص نے ان پر فائر کیا اور ایک گولی ان کے سر میں لگی جو جان لیوا ثابت ہوئی ۔ حملہ آور کی فائرنگ سے شفیق احمد کا رشتہ دار ہدایت جعفر بھی زخمی ہوا ۔ واقعہ کے بعد شفیق احمد خان کی لاش ضروری کارروائی کے لئے سول ہسپتال کوئٹہ پہنچائی گئی ۔
ابتدائی معلومات کے مطابق شفیق احمد خان کو کسی قسم کی دھمکی نہیں ملی تھی اس لئے ان کے ہمراہ کوئی محافظ بھی نہیں تھا۔میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشن شاہد نظام درانی نے بتایا کہ ملزم فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تاہم اس کی گرفتاری کے لئے علاقے کی ناکہ بندی کردی گئی ہے۔شفیق احمد خان کے قتل کی خبر پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن ، وکلاء، تاجر اور حکومتی اہلکار سول ہسپتال پہنچ گئے ۔ ہسپتال میں ضروری کارروائی کے بعد شفیق احمد خان کی لاش ان کے گھر پہنچائی گئی ۔ انہیں آج (پیرکو) بعد نماز ظہر مقامی قبرستان میں سپردخاک کردیا جائیگا ۔
دریں اثناء بلوچ لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ(بی ایل یو ایف ) نے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرلی۔ اپنے آپ کو تنظیم کا ترجمان ظاہر کرنے والے شہک بلوچ نے نامعلوم مقام سے ٹیلی فو ن پر کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ صوبائی وزیر تعلیم کا قتل تربت میں قتل ہونیوالے بلوچ سیاسی رہنماؤں کا بدلہ ہے اور ہم بلوچ شہداء کے خون کا بدلہ لیکر رہیں گے انہوں نے کہا کہ شفیق احمد خان بلوچ دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھے اس لئے انہیں نشانہ بنایا گیا ۔وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے شفیق احمد خان کے قتل پر صوبے میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے اس دوران بلوچستان کے تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بشمول کالجز تین دن تک بند رہیں گے ۔ وزیراعلیٰ نے صوبائی وزیر کے قتل کی تحقیقات اور ملزمان کی گرفتاری کا حکم بھی دیا
55سالہ شفیق احمد خان کی پیدائش صوبائی دار الحکومت کوئٹہ میں ہوئی ،1985میں بلوچستان یونیورسٹی سے بی اے ، ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی،شفیق احمد خان نے میونسپل کارپوریشن کوئٹہ میں چار برس تک چیئرمین فنانس کمیٹی کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ وہ کوئٹہ کے وارڈ نمبر6سے تین مرتبہ 12برس تک کونسلر منتخب ہوتے رہے اورتین سال تک ضلع کوئٹہ کے چیئرمین زکواة و عشر کمیٹی بھی رہے ۔ شفیق احمد خان پاکستان پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن تھے ، وہ پیپلز پارٹی کوئٹہ سٹی کے صدر بھی رہے ۔نچلی سطح سے عملی سیاست کا آغاز کرنیو الے شفیق احمد نے بہت جلد صوبے کی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کیا ،اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے ۔ شفیق احمد خان 2002ء کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے متحدہ اپوزیشن کے رکن کی حیثیت سے انتہائی فعال کردار ادا کیاجس کے بعد18فروری 2008 ء کے عام انتخابات میں حلقہ پی بی ون کوئٹہ ون سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پردوبارہ بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ،مخلوط حکومت میں انہیں وزار ت تعلیم کا قلمدان سونپا گیا ۔ شفیق احمد خان ،وزارت کی ذمہ داری انتہائی عمدگی اور محنت سے ادا کرتے رہے۔اپنی وزارت کے دوران تعلیم کے شعبے کی حالت زار بہتر بنانے کے لئے انہوں نے قلیل عرصے میں دور دراز علاقوں کے دورے کئے ۔شفیق احمد خان صوبائی خود مختاری اور بلوچستان کے آئینی حقوق کے حوالے سے واضح موقف کے حامل تھے۔ جن کا شہرہ اعتدال پسند اور فعال ترین سیاسی کارکن کا تھا ۔بلوچستان کے مسئلے پر بعض اوقات وفاق کے رویے پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے رہے ۔ شفیق احمد خان نے حال ہی میں بلوچستان کی صورتحال کاذمہ دار بھارت کو قرار دیا کہ افغانستان میں موجود بھارتی قونصل خانے بلوچستان میں حالات خراب کرنے کی سازشیں کررہے ہیں ۔انہوں نے سوگواروں میں چار بیٹیاں اور ایک بیوہ چھوڑی ہے ۔
ر۔ زین ۔ کوئٹہ
پولیس حکام کے مطابق شفیق احمد خان ایک تقریب میں شرکت کے بعد کوئٹہ کے علاقے امیر آباد تیل گودام میں واقع اپنی رہائشگاہ پہنچے ابھی اپنی گاڑی سے اترے ہی تھے کہ پہلے سے موجود ایک شخص نے ان پر فائر کیا اور ایک گولی ان کے سر میں لگی جو جان لیوا ثابت ہوئی ۔ حملہ آور کی فائرنگ سے شفیق احمد کا رشتہ دار ہدایت جعفر بھی زخمی ہوا ۔ واقعہ کے بعد شفیق احمد خان کی لاش ضروری کارروائی کے لئے سول ہسپتال کوئٹہ پہنچائی گئی ۔
ابتدائی معلومات کے مطابق شفیق احمد خان کو کسی قسم کی دھمکی نہیں ملی تھی اس لئے ان کے ہمراہ کوئی محافظ بھی نہیں تھا۔میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشن شاہد نظام درانی نے بتایا کہ ملزم فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تاہم اس کی گرفتاری کے لئے علاقے کی ناکہ بندی کردی گئی ہے۔شفیق احمد خان کے قتل کی خبر پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن ، وکلاء، تاجر اور حکومتی اہلکار سول ہسپتال پہنچ گئے ۔ ہسپتال میں ضروری کارروائی کے بعد شفیق احمد خان کی لاش ان کے گھر پہنچائی گئی ۔ انہیں آج (پیرکو) بعد نماز ظہر مقامی قبرستان میں سپردخاک کردیا جائیگا ۔
دریں اثناء بلوچ لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ(بی ایل یو ایف ) نے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرلی۔ اپنے آپ کو تنظیم کا ترجمان ظاہر کرنے والے شہک بلوچ نے نامعلوم مقام سے ٹیلی فو ن پر کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ صوبائی وزیر تعلیم کا قتل تربت میں قتل ہونیوالے بلوچ سیاسی رہنماؤں کا بدلہ ہے اور ہم بلوچ شہداء کے خون کا بدلہ لیکر رہیں گے انہوں نے کہا کہ شفیق احمد خان بلوچ دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھے اس لئے انہیں نشانہ بنایا گیا ۔وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے شفیق احمد خان کے قتل پر صوبے میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے اس دوران بلوچستان کے تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بشمول کالجز تین دن تک بند رہیں گے ۔ وزیراعلیٰ نے صوبائی وزیر کے قتل کی تحقیقات اور ملزمان کی گرفتاری کا حکم بھی دیا
شفیق احمد خان کی سوانح عمری
55سالہ شفیق احمد خان کی پیدائش صوبائی دار الحکومت کوئٹہ میں ہوئی ،1985میں بلوچستان یونیورسٹی سے بی اے ، ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی،شفیق احمد خان نے میونسپل کارپوریشن کوئٹہ میں چار برس تک چیئرمین فنانس کمیٹی کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ وہ کوئٹہ کے وارڈ نمبر6سے تین مرتبہ 12برس تک کونسلر منتخب ہوتے رہے اورتین سال تک ضلع کوئٹہ کے چیئرمین زکواة و عشر کمیٹی بھی رہے ۔ شفیق احمد خان پاکستان پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن تھے ، وہ پیپلز پارٹی کوئٹہ سٹی کے صدر بھی رہے ۔نچلی سطح سے عملی سیاست کا آغاز کرنیو الے شفیق احمد نے بہت جلد صوبے کی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کیا ،اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے ۔ شفیق احمد خان 2002ء کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے متحدہ اپوزیشن کے رکن کی حیثیت سے انتہائی فعال کردار ادا کیاجس کے بعد18فروری 2008 ء کے عام انتخابات میں حلقہ پی بی ون کوئٹہ ون سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پردوبارہ بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ،مخلوط حکومت میں انہیں وزار ت تعلیم کا قلمدان سونپا گیا ۔ شفیق احمد خان ،وزارت کی ذمہ داری انتہائی عمدگی اور محنت سے ادا کرتے رہے۔اپنی وزارت کے دوران تعلیم کے شعبے کی حالت زار بہتر بنانے کے لئے انہوں نے قلیل عرصے میں دور دراز علاقوں کے دورے کئے ۔شفیق احمد خان صوبائی خود مختاری اور بلوچستان کے آئینی حقوق کے حوالے سے واضح موقف کے حامل تھے۔ جن کا شہرہ اعتدال پسند اور فعال ترین سیاسی کارکن کا تھا ۔بلوچستان کے مسئلے پر بعض اوقات وفاق کے رویے پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے رہے ۔ شفیق احمد خان نے حال ہی میں بلوچستان کی صورتحال کاذمہ دار بھارت کو قرار دیا کہ افغانستان میں موجود بھارتی قونصل خانے بلوچستان میں حالات خراب کرنے کی سازشیں کررہے ہیں ۔انہوں نے سوگواروں میں چار بیٹیاں اور ایک بیوہ چھوڑی ہے ۔
ر۔ زین ۔ کوئٹہ