بلوچیوں کے گیت - جناب علی احمد

کاشفی

محفلین
بلوچیوں کے گیت
(جناب علی احمد ، ستمبر 1947ء پاکستان)

بلوچی شاعری کے وجود کا علم اس وقت تک کسی کو نہ ہوا تھا جب تک کہ لیچ نے "بلوچی زبان کا خاکہ" کے عنوان سے چند مسلسل مضامین 1840ء کے "جرنل آف دی ایشیاٹک سوسائٹی بنگال" میں شائع نہ کئے۔ لیکن چھاپے کی خرابیوں اور عملے کی غلطیوں کی وجہ سے یہ نظمیں اپنے "اصل متن" کی حقیقی ترجمانی سے قاصر رہیں۔ لیچ کے مرنے کے بعد بہیترے سالوں تک کسی نے اس عنوان کی طرف توجہ نہیں کی۔ 1877ء میں سرآربرٹن نے اپنی کتاب "سندھ کا دوبارہ سفر" میں گیتوں کے ترجمے اصل عبارت کے بغیر پیش کئے۔ ان میں سے پہلا گیت تو لفظ بہ لفظ لیچ سے سرقہ تھا۔ اور دوسرا بھی لیچ کے گیت "عیسی اور باری" کا پھیلاؤ تھا۔ تیسرا گیت شاید برٹن کا ذاتی تھا۔ اس ایک استثنا کو نظر انداز کرکے یہ کہا جاسکتا ہے کہ لیچ کے بعد 1875ء تک بلوچی شاعری منظرِ عام پر نہ آئی۔ یہاں تک کہ "لانگ ورتھ ڈیمس" نے برسوں کی کوششوں کے بعد ڈیرہ غازی خان، راجن پور، گورکھانیوں، ماریوں اور بگتیوں اور لیگھاری کی پہاڑی سرزمین سے کثیر تعداد میں نظمیں حاصل کیں۔ اور 1881ء میں "جنوبی بلوچی زبان کا خاکہ" کے عنوان سے ان کے تراجم شائع کئے۔ لیکن یہ مجموعہ بہت ہی مختصر تھا۔ چنانچہ مصنف مذکور چھبیس سال تک "بلوچی شاعری" کے متعلق مواد فراہم کرتا رہا۔ علاوہ اس کے براہیم شمبانی، خدابخش اور لشاری گورکھانی نے نظموں کا ایک بڑا سرمایہ حاصل کرنے میں مدد دی۔ 1896ء میں اس نے خود بلوچستان کا سفر کیا اور تب ؎1907ء میں "بلوچیوں کی عمومی شاعری" کے نام سے ایک بسیط وضخیم کتاب شائع کی۔ یہ ساری کتابیں انگریزی زبان میں ہیں۔ اردو زبان میں ہمیں صرف ایک مختصر کتاب "بلوچی نامہ" ملتی ہے۔ اس کا مصنف ہیتورام ہے۔ اور یہ 1881ء میں لاہور سے شائع ہوئی۔

یہ نظمیں یا گیت جو شعروں کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل ہیں۔ بلوچی قبیلوں کی ترجمان ہیں۔ اور اس سارے خطہء زمیں پر پھیلے ہوئے ہیں ۔ جو درّہ بولان اور کَچھ کے میدانوں سے شروع ہو کر کوہِ سلیمان کے جنوبی حصہ سے ہوتا ہوا پنجاب کے جنوب اور سندھ کے دائیں ساحل تک پہنچتا ہے۔ اس رقبہ کا وسطی علاقہ پہاڑی سلسلوں سے بھرا ہوا ہے۔ البتہ وادیاں اس قدر بنجر نہیں۔ بلوچی جو یہاں آباد ہیں مختلف قبیلوں اور جرگوں میں منقسم ہیں۔

ان قبیلوں میں اس نسل کے بھی بہت سے خاندان شامل ہیں جو ڈوم کہلاتے ہیں۔ یہ بلوچیوں کے موروثی بھاٹ اور مغنی شاعری ہیں۔ جو قدیم شاعرانہ روایات کے امانت دار ہیں۔ یہی سلسلہ نسل بعد نسل آج تک پھیلا آرہا ہے۔ یہ ڈوم صرف بلوچستان ہی میں نہیں بلکہ افغانستان، ایران اور شمال مغربی پاکستان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ آپس میں کسی سندھی زبان یا پوربی پنجابی میں گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن اپنے مقامِ اصلی کے لحاظ سے فارسی، پشتو، بلوچی اور براہئی سے بھی اسی قدر واقف ہوتے ہیں۔

صفحہ 1/26
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
 
Top