بلوچی تھیریم – دنیا کا عظیم ترین ممالیہ

جہاں آجکل پنجاب کی تحصیل تونسہ کا شہر ھے وہاں سے اگر مغرب کی جانب سفر کیا جائے تو پندرہ بیس کلو میٹر پر ایک پہاڑی مقام ھے جسے “چتر وٹہ ” کہتے ہیں ۔ اس پہاڑی سلسلے کا نام بھی چتر وٹہ رینج ھے جو بڑھتا ہوا بلوچستان میں بمبور کے پہاڑی سلسلے سے جا ملتا ھے ۔ ویسے تو بمبور سلسہ کوہ اکبر بگتی کی آخری پناہ گاہ کے طور پر مشہور ھے اور اب بھی کبھی کبھی لینڈ مائنز کے دھماکوں سے گونج اٹھتا ھے جو ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار ہے لیکن اس کھیل میں شامل تمام لوگ شاید اس بات سے آگاہ ہوں یا نہ ہوں کہ وہ اس دھرتی پر اپنا حق جتانے والی پہلی جنس نہیں ہیں بلکہ ان سے پہلے بھی کچھ تھا جو اب صرف عجائب گھروں میں پایا جاتا ھے ۔

سائنسی دانش مند کہتے ہیں کہ یہی کوئی پچیس یا تیس ملین سال پہلے اس علاقے پر دیو قامت جانوروں کا راج تھا جس کی لمبائی کوئی 21 فیٹ اور قامت کوئی 26 فٹ کی تھی یعنی بندہ اس کے پیٹ کے نیچے کھڑا ہو جائے تو ہاتھ اٹھا کر پیٹ بھی نہ چھو سکے اور وزن یہی کوئی بس اٹھارہ ٹن یعنی کوئی چار بڑے ہاتھیوں کے برابر( اس کی لمبائی اور اونچائی کے متعلق بیانات مختلف ہیں لیکن اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا ممالیہ تھا ) ۔ لیکن یہ جانور ڈائینو سار نہیں تھے بلکہ ان سے مختلف تھے۔ ڈائنو سار غیر فقاریہ جانور یعنی ریپٹائلز تھے جبکہ بلوچی تھیرم ممالیہ یعنی اپنے بچوں کو دودھ پلانے والے اور ان کے سینگ نہیں تھے ۔

1910 میں ایک برطانوی ماہر حجریات کلور فوسٹر کو اس علاقے میں تحقیق کرتے ہوئے جانور کی کچھ ہڈیاں دستیاب ہوئیں تھیں لیکن مکمل جانور کا ڈھانچہ باوجود کوشش کے نہ مل سکا لیکن یہ مکمل نہیں تھیں اس کے بعد اس جانور کے متعلق تحقیق تقریبا ایک صدی تک بند رہی اور باآخر 1995 میں ایک فرانسیسی ماہر حجریات جان لوپ ویلکم اپنی ٹیم اور جامشورو یونیورسٹی کے پروفیسرز کے ہمراہ بلوچستان آئے اور 1999 تک بگتی ہلز اور چالیس دوسرے مختلف مقامات پر کھدائی کر کے اس کی مکمل ہڈیاں دریافت کیں اور اسے بلوچی تھیریم Baluchitherium کا نام دیا یعنی بلوچستان کا جنگلی جانور(بر سبیل تذکرہ صرف ڈیرہ بگتی کے علاقے سے بمختلف قسم کی انواع کے بیس ہزار فوسلز اس ٹیم کو ملے)۔ یہ جانور کوئی 14 ملین سال پہلے معدوم ہو گئے تھے اور معدومیت کی وجوہات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکیں جیسے ڈائنو سار کا معاملہ ہے ۔ خوارک میں قیاس یہ ہے کہ یہ درختوں کے پتے کھاتے تھے اور اپنی لچکیلی گردن کی وجہ سے خوارک بآسانی حاصل کر سکتے تھے اور ایک دن کی خوراک ہمارے پہلوانوں کی طرح بس کچھ خاص نہیں تھی بلکہ معمولی تھی یہی کوئی دو ٹن روزانہ – اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ھے کہ اس زمانے میں یہ علاقہ امیزان کی طرح جنگلات سے پٹا پڑا ہو گا۔ یہ بھی قیاس ہے کہ یہ جانور بہت لڑاکا تھا اور دوسروں پر اپنی اگلی ٹانگوں سے حملہ کرتا تھا ۔ اس جانور کی ہڈیاں اگرچہ چین ، وسط ایشیا وغیرہ سے بھی دریافت ہوئیں لیکن بلوچستان وہ سب سے پہلا مقام تھا جہاں اس کا سراغ ملا ۔ یوں سر کُوپر کو اس کا پہلا نشان دہندہ کہا جا سکتا ھے ۔


تصویر بشکریہ ۔ فرانسیسی ویب سائٹ آئی سی آئی

سن 2003 میں اس جانور کے بارے میں مزید سائنسی معلومات حاصل کرنے ، اس کی ایک ایک ہڈی کا بغور مشاہد و تجزیہ کر کے ڈھانچے میں صحیح جگہ بٹھانے کے لیئے نیچرل ہسٹری میوزیم آف پیرس اور یونیورسٹی آف طلوشہ فرانس کے آلات سے مدد حاصل کی گئی ( وہی طلوشہ جہاں پہ 721 عیسوی میں مسلمان فتوحات کا سیلاب رک گیا تھا ) ۔ اس کی ہڈیوں پر مگر مچھ کے دانتوں کے نشانات بھی پائے گئے جس سے ثابت ہوتا ھے کہ مگر مچھ حضرات ان سے شوق فرماتے ہوں ۔

لیکن اگر ڈارون کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ فرض کیا جائے کہ خواراک میں کمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس جانور کا سائز سکڑ گیا ہو گا تو آجکل کے جانور اونٹ سے اس کی مماثلت بہت زیادہ نظر آتی ھے ۔ وہی ناک نقشہ، خوراک ، ممالیہ اور صعوبت برداشت کرنے کی بے پناہ صلاحیت ۔ تو یہ بھی فرض کیا جا سکتا ھے کہ اونٹ اسی علاقے سے یورپ افریقہ اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں پھیلا ہو گا ۔

أَفلا يَنظُرُونَ إِلى الإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ ۔کیا یہ لوگ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے ہیں کہ اسے کس طرح پیدا کیا گیا ہے ۔ الغاشیہ

سن دو ہزار بارہ میں اس جانورکے ڈھانچے کی عوام کے لیئے نمائش کا اہتمام پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری اسلام آباد نے کیا ۔ نمائش کے باہر اس جانور کے تصوراتی ماڈلز بنا کر کھڑے کیے گئے جو پاکستانی مجسمہ ساز عاصم مرزا کے فن کا نمونہ تھے ۔

اس جانور کے بارے میں پوسٹ لکھنے کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ بلوچستان میں بلیو ویل مچھلی کے فوسلز بھی ملے ہیں جن کی قدامت کا اندازہ یہی کوئی پچاس ملین سال لگایا گیا ہےاس کے علاوہ مگر مچھ کے بھی۔ یعنی ایک زمانے میں یہاں سمندر تھا جہاں اب ہم میری اور تیری کی جنگ میں مصروف ہیں ۔

وَمِنَ ٱلنَّاسِ وَٱلدَّوَآبِّ وَٱلْأَنْعَ۔ٰمِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَٲنُهُۥ كَذَٲلِكَۗ إِنَّمَا يَخْشَى ٱللَّهَ مِنْعِبَادِهِ ٱلْعُلَمَ۔ٰٓؤُاْۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ
اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے ڈرتے ہیں، بے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے. القرآن ۔ سورہ 35 آیت 28
ربط
http://www.riazshahid.com/2014/02/27/بلوچی-تھیریم-دنیا-کا-عظیم-ترین-ممالیہ/
 

arifkarim

معطل
بلوچی تھیریم بمقابلہ حضرت انسان:
Rhino_sizes.png

ڈارون کا نظریہ درست ہے۔ 2 ٹن خوراک روزانہ ہضم کر جانے والا جانور اگر آج بھی موجود ہوتا تو باقی حیوانات کیلئے کیا بچتا؟ :)
 

فاتح

لائبریرین
اس معلوماتی مراسلے پر بہت شکریہ سید شہزاد ناصر صاحب
مصنف نے قرآنی آیات تو ساتھ نقل کر دیں لیکن ان قرآنی آیات کا مضمون کے ساتھ ربط کیا بنتا تھا؟ مثلاً ذیل کے مضمون اور آیت کو ہی لیں تو ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں نظر آتا
بلوچستان میں بلیو ویل مچھلی کے فوسلز بھی ملے ہیں جن کی قدامت کا اندازہ یہی کوئی پچاس ملین سال لگایا گیا ہےاس کے علاوہ مگر مچھ کے بھی۔ یعنی ایک زمانے میں یہاں سمندر تھا
وَمِنَ ٱلنَّاسِ وَٱلدَّوَآبِّ وَٱلْأَنْعَ۔ٰمِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَٲنُهُۥ
اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں
 
آخری تدوین:

حمیر یوسف

محفلین
ایک ماہر رکازیات یہ کسطرح طے کرتے ہیں کہ جو ملنے والے فوسل کی ہڈیاں ہیں وہ ایک ممالیہ جانور کی ہیں یا کسی ریپٹائل جانور کے؟ دوسرے الفاظ میں صرف ہڈیوں کی ساخت دیکھتے ہوئے کسطرح کسی جانور کے بارے میں تعین کیا جاتا ہے کہ وہ حیونات کے ان گروہوں میں سے کن سے تعلق رکھتا ہے؟ ذرا کوئی آسان الفاظ میں یہ بات سمجھا سکتا ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
ایک ماہر رکازیات یہ کسطرح طے کرتے ہیں کہ جو ملنے والے فوسل کی ہڈیاں ہیں وہ ایک ممالیہ جانور کی ہیں یا کسی ریپٹائل جانور کے؟ دوسرے الفاظ میں صرف ہڈیوں کی ساخت دیکھتے ہوئے کسطرح کسی جانور کے بارے میں تعین کیا جاتا ہے کہ وہ حیونات کے ان گروہوں میں سے کن سے تعلق رکھتا ہے؟ ذرا کوئی آسان الفاظ میں یہ بات سمجھا سکتا ہے؟
ممالیہ اور رینگنے والے جانوروں کی کچھ ہڈیوں کی ساخت مختلف ہوتی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ وہ فوسلز ممالیہ کے ہیں یا ریپٹائل کے مثلاً :
  • رینگنے والے جانور کے تمام دانتوں کی ساخت مخروطی اور سائز تقریباً یکساں ہوتا ہے جب کہ ممالیہ جانور کے منہ میں پائے جانے والے دانت مختلف شکلوں اور مختلف سائز کے ہوتے ہیں ۔
  • رینگنے والے جانوروں کا نچلا جبڑا کئی ہڈیوں سے مل کر بنتا ہے جب کہ ممالیہ جانوروں کا نچلا جبڑا ایک ہی ہڈی کا بنا ہوتا ہے۔
  • رینگنے والے جانوروں کے کان کے درمیانی حصے میں صرف ایک ہڈی ہوتی ہے جب کہ ممالیہ جانوروں کے درمیانی کان میں تین ہڈیاں ہوتی ہیں۔
  • رینگنے والے جانوروں کی کھوپڑی کو ان کی ریڑھ کی ہڈی سے جوڑنے والی ہڈی کا ایک منہ ہوتا ہے جب کہ ممالیہ جانوروں میں یہ ہڈی دو منہ والی ہوتی ہے۔
حوالہ
 

حمیر یوسف

محفلین
ممالیہ اور رینگنے والے جانوروں کی کچھ ہڈیوں کی ساخت مختلف ہوتی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ وہ فوسلز ممالیہ کے ہیں یا ریپٹائل کے مثلاً :
  • رینگنے والے جانور کے تمام دانتوں کی ساخت مخروطی اور سائز تقریباً یکساں ہوتا ہے جب کہ ممالیہ جانور کے منہ میں پائے جانے والے دانت مختلف شکلوں اور مختلف سائز کے ہوتے ہیں ۔
  • رینگنے والے جانوروں کا نچلا جبڑا کئی ہڈیوں سے مل کر بنتا ہے جب کہ ممالیہ جانوروں کا نچلا جبڑا ایک ہی ہڈی کا بنا ہوتا ہے۔
  • رینگنے والے جانوروں کے کان کے درمیانی حصے میں صرف ایک ہڈی ہوتی ہے جب کہ ممالیہ جانوروں کے درمیانی کان میں تین ہڈیاں ہوتی ہیں۔
  • رینگنے والے جانوروں کی کھوپڑی کو ان کی ریڑھ کی ہڈی سے جوڑنے والی ہڈی کا ایک منہ ہوتا ہے جب کہ ممالیہ جانوروں میں یہ ہڈی دو منہ والی ہوتی ہے۔
حوالہ
شکریہ فاتح بھائی، ایک بات اور، یہ جو فاسل کے جلد کی رنگت وغیرہ تصاویر میں دکھاتے ہیں، کیا وہ کسی مشاہدے کی بنیاد پر ہوتے ہیں یا آرٹسٹ کا اپنا تخیل اسمیں شامل ہوتا ہے؟ جیسے اسی بلوچی تھیریم کی جو ری کنسٹرکٹ تصاویر بنائی گئی ہیں، اس کی بنیاد کن معلومات پر ہوتی ہے؟ جب ہم ڈائنوسارز کو انکی اصلی شکل میں دیکھ ہی نہیں پائے تو انکی جلد کے رنگ وغیرہ کا فیصلہ کیسے کرسکتے ہیں؟
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ فاتح بھائی، ایک بات اور، یہ جو فاسل کے جلد کی رنگت وغیرہ تصاویر میں دکھاتے ہیں، کیا وہ کسی مشاہدے کی بنیاد پر ہوتے ہیں یا آرٹسٹ کا اپنا تخیل اسمیں شامل ہوتا ہے؟ جیسے اسی بلوچی تھیریم کی جو ری کنسٹرکٹ تصاویر بنائی گئی ہیں، اس کی بنیاد کن معلومات پر ہوتی ہے؟ جب ہم ڈائنوسارز کو انکی اصلی شکل میں دیکھ ہی نہیں پائے تو انکی جلد کے رنگ وغیرہ کا فیصلہ کیسے کرسکتے ہیں؟
بقولِ شیفتہ
فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیبِ داستاں کے لیے
اب تک تو جتنے رنگ دیے گئے ہیں وہ تمام ہی مصوروں کے تخیل پرمبنی ہیں لیکن اب سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں پہلی مرتبہ ایک ڈائنو سار کے فوسلز میں محفوظ میلانن پگمنٹ ہاتھ لگاہے جس پر تحقیقات کے بعد اس ڈائنو سار کی جلد کی رنگت کے بارے میں زیادہ وثوق سے کچھ کہا جا سکے گا۔
 
Top