کاشفی

محفلین
بلوچ ہر عہدے کے لیے نا اہل ہیں ؟
ایک بار پھر بلوچستان کو صدارت کے عہدے میں نظر انداز کردیا گیا جبکہ ماضی میں بلوچستان سے صدر کے عہدے پر کوئی بھی تعینات نہیں رہا۔ سیاسی وسماجی حلقوں نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ حکومت میں بھی بلوچستان کو کوئی اہم عہدہ حاصل نہیں ۔ حکمران جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وزیراعظم ‘ اسپیکر ‘ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی ‘ چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین سینٹ کے عہدوں پر موجود افراد کا تعلق کسی ایک صوبے سے نہ ہو بلکہ تمام صوبوں کو نمائندگی ملے ۔ لیکن صدر کے عہدے پر معاملہ ذرا مختلف ہے اور اس عہدے پر براجمان رہنے کا حق کبھی کسی بلوچ کو نہیں دیا گیا ۔ پاکستان میں چاروں صوبوں کے وفاق کی علامت کے حامل عہدہ صدارت پر اب تک پنجاب سے 5‘سندھ سے3‘ سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخوا سے 2جبکہ ایک شخصیت مشرقی پاکستان سے براجمان رہ چکی ہے ۔ اب کی بار بھی حکمران جماعت نے اعلان کیا تھا کہ نیا صدر چھوٹے صوبے سے ہوگا لیکن اب تک زیر غور نام سندھ اور خیبر پختونخوا سے سامنے آرہے ہیں ۔ نواز شریف کی حکومت ایک طرف تو چین کے ساتھ مل کر گوادر سے خنجر اب اقتصادی راہداری قائم کرنے اور گوادر بندر گاہ کو تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بنانا چاہتی ہے لیکن حالات کی بہتری کے لئے کسی اور جماعت سے نہ سہی اپنی جماعت میں موجود لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ جیسا قابل قبول آپشن بھی استعمال نہیں کررہی جو نہ صرف بلوچستان کو موجودہ حالات سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں بلکہ نواز شریف کے معاشی خواب پر عمل درآمد کرنے میں بھی معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔ شریف برادران کے ترجیحی مسائل میں بلوچوں کی محرومیوں کا ازالہ اور ان کی ترقی و فلاح شاید شامل ہی نہیں ،انہیں اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں یہی غم کھا ئے جارہا تھا کہ بلوچستان میں وزیراعلیٰ ایسے شخص کو بنایا جائے جس کے نام کے ساتھ بلوچ کا لاحقہ لگا ہو اس کے لئے انہیں ڈاکٹر مالک بلوچ کی صورت میں ایک نام ہاتھ آیا۔ اگرچہ نواز لیگ کے صوبائی صدر نواب ثناء اللہ خان زہری اور نوابزادہ چنگیز مری اس عہدے کے لئے اپنی اپنی کمر کس چکے تھے مگر چونکہ وفاق کے من پسند بااصول سیاستدان جناب محمود خان اچکزئی اور ان کی پارٹی کو ان دونوں شخصیات پر تحفظات تھے کیونکہ اگر ان دونوں میں سے کوئی وزیراعلیٰ بنتا تو انہیں ’’ کام نکالنے ‘‘ میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی صورت میں درویش منش انسان جیسے وزارت اعلیٰ کے عہدے پر متمکن شخص سے دو دو ہاتھ کیا جانا از حد آسان کام ہے ۔ بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کی قربانی کو نواز شریف اور ان کی پارٹی کے ہر رکن نے اپنی تقریروں کا جزو لاینفک بنا دیا اور ہر کہیں یہ راگ الاپتے رہے کہ بلوچستان میں اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی ہم نے وزارت اعلیٰ اور گورنر شپ کی قربانی دے کر قوم پرستوں کو دونوں کلید ی مناصب سونپ دئیے ۔ مگر جب بات تخت پنجاب کی آتی ہے تو وہاں ایثار و قربانی کا یہ جذبہ مفقود ہوتا ہے اور میاں شہباز شریف ہی پنجاب کے خادم اعلیٰ کے منصب کے اہل ٹھہرتے ہیں ۔ وفاقی کابینہ کے قیام کے وقت بھی بلوچستان سے دو ہی افراد کو اتمام حجت کے طورپر کابینہ کا حصہ بنایا گیا اور برائے نام وفاقی وزیر جیسے عہدے انہیں سونپے گئے اور جن دو اہم این ایز کو وفاقی عہدیدار بنایا گیا ان کا تعلق صرف اور صرف نواز شریف کی پارٹی سے ہے اس وقت بھی بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی اور پشتون قوم پرست پشتونخوا میپ کے ایم این ایز وفاقی وزیر کے عہدے کے لئے نا اہل قرار دئیے گئے ۔ اس سے بہتر تو پیپلزپارٹی کی سابق حکومت تھی جس نے آیت اللہ درانی ‘ میر ہمایوں عزیز کرد‘ میر اسرار اللہ زہری جیسے لوگوں کو وزارتوں پر متمکن کیا ۔ بلوچ سیاسی عہدوں پر نا اہل ہیں ہی ،حکومت کی کارپوریشنوں تک میں بھی اس بد بخت صوبے سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کے جانے پر غیر اعلانیہ پابندی ہے ۔ گوادر پورٹ کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔وسائل و ساحل اس صوبے کے ہونے کے باوجود اہم کلیدی عہدے پر اس وقت کے وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ نے اقربا ء پروری کی روایات بحال رکھتے ہوئے کراچی کے لوگوں میں اس غریب صوبے کے عہدے ریوڑیوں کی طرح بانٹنے میں کوئی باک محسوس نہیں کی ۔ سوئی گیس فیلڈ میں یہی صورت حال کا سلسلہ پچھلے پچاس سال سے جاری و ساری ہے جبکہ بلوچستان کے اپنے محکموں میں دیدہ دانستہ بلوچوں کو اچھوت سمجھتے ہوئے ایک منظم سازش کے تحت اہم و کلیدی عہدوں سے محروم کرنے کی سعی کی جارہی ہے ۔ وومن یونیورسٹی میں ایک بلوچ وائس چانسلر کے خلاف ایک طبقے نے میرٹ کے نام نہاد دعوے کو مہمیز بناتے ہوئے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا اور جب اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے گورنر نے حلف اٹھایا تو پہلا ترجیحی کام یہی کیا گیا کہ اس بلوچ وائس چانسلر کو فی الفور سبکدوش کیا جائے اور اپنی مرضی کی وائس چانسلر کو تعینات کیا جائے تاکہ اس ادارے میں کھل کھیلنے کا موقع ہاتھ آجائے ۔بلوچ وائس چانسلر کو نا اہل قرار دے کر ہٹایا گیا جبکہ آئی ٹی یونیورسٹی میں پچھلے چار سال سے ایک ہی شخص وائس چانسلر کے عہدے کو اس لئے بہتر چلایا ہے کیونکہ اس کا تعلق اسی لسانی طبقے سے ہے ۔ وہ اہل بھی ہے اور باصلاحیت بھی ‘ بلوچوں کی بدقسمتی ہے کہ نہ صرف وفاقی سطح پر بلکہ ان کے اپنے صوبے میں بھی ان کے ساتھ استحصال کا سلسلہ جو عشروں سے چلا آرہا ہے وہ موجودہ حکومت میں بھی جاری و ساری ہے ۔ نواز شریف کو چائیے کہ بلندوبانگ دعوؤں کی بجائے بلوچوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی پالیسیوں کا فوری ادراک کرتے ہوئے اس سلسلہ کو بند کرنے کے اقدامات کریں ۔
ربط: روزنامہ آزادی کوئٹہ
 
Top