حسان خان
لائبریرین
سرد مینا کا تصور، سرخ پیمانے کی یاد
عود کی خوشبو میں پھر آئی ہے میخانے کی یاد
گوشۂ دل میں پچھاڑیں کھا رہی ہے دیر سے
مست جھونکوں میں جنوں کے رقص فرمانے کی یاد
آئی ہے رہ رہ کے گرتی بجلیوں کے روپ میں
ایک شب پردہ اٹھا کر اُن کے در آنے کی یاد
لے رہا ہے ہچکیاں ایک ایک فرزانے کا نام
بھر رہی ہے سسکیاں ایک ایک دیوانے کی یاد
دل میں آہیں بھر رہی ہے، بال بکھرائے ہوئے
لڑکھڑانے، گنگنانے، ناچنے، گانے کی یاد
مقبروں سے آ رہی ہے جھٹپٹے کی چھاؤں میں
ایک ایک کر کے رفیقوں کے بچھڑ جانے کی یاد
جوش ابرِ تیرہ میں گم ہے مرا ماہِ منیر
کشتہ شمع کے دھوئیں میں جیسے پروانے کی یاد
(جوش ملیح آبادی)