اس ايشو کے حوالے سے ميں نے امريکی حکومت کا جو موقف پيش کيا تھا، وہ يہ ہے
"بليک واٹر ايک نجی سيکورٹی ايجنسی ہے۔ کوئ بھی کارپوريٹ يا نجی ادارہ اس ايجنسی کی خدمات حاصل کر سکتا ہے۔ اس تناظر ميں يہ ذمہ داری امريکی حکومت کی نہيں ہے کہ وہ اس ايجنسی کے ملازمين کی پاکستان ميں موجودگی کی وضاحت يا توجيہہ پيش کرے۔
پاکستان ميں رہنے اور کام کرنے والے ہر غير ملکی کو ويزے کے اجراء کی ذمہ دار حکومت پاکستان اور متعلقہ پاکستانی محکمے اور ايجينسياں ہیں۔
جہاں تک امريکی حکومت کا تعلق ہے تو میں يہ بات پورے وثوق اور يقين کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان ميں امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا يو ايس ٹريننگ سنٹر (جو کہ بليک واٹر کے نام سے جانی جاتی تھی) سے کوئ معاہدہ نہيں ہے۔"
ڈيفنس سيکرٹری رابرٹ گيٹس نے جو بيان ديا ہے وہ اس سوال کے جواب ميں تھا جس ميں افغانستان اور عراق ميں سيکورٹی کمپنیوں کی موجودگی کا حوالہ بھی موجود تھا۔ انھوں نے واضح طور پر يہ کہا کہ يہ کمپنياں اپنی "انفرادی" حيثيت ميں کام کر رہی ہيں۔ کنٹريکٹ کمپنيوں کے حوالے سے قواعد و ضوابط موجود ہيں۔
انھوں نے اپنے بيان ميں يہ بھی کہا کہ "اگر ان کمپنيوں کا پاکستان ميں اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ يا ہم سے کنٹريکٹ ہو تو اس ضمن ميں اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے واضح قوانين موجود ہيں"۔
ميں ڈين کورپ کے حوالے سے امريکی موقف بھی دہرانا چاہوں گا جو ميں پہلے بھی فورمز پر پيش کر چکا ہوں۔
"جہاں تک پاکستان ميں سفارتی عملے کی سيکورٹی کا سوال ہے تو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا اس ضمن ميں ڈين کورپ نامی کمپنی سے معاہدہ ہے۔"
امريکی حکومت اور پاکستان ميں متعلقہ سيکورٹی ايجينسيوں کے مابين کوئ ابہام يا غلط فہمی نہيں ہے۔ اس ضمن ميں امريکی حکومت کو کچھ چھپانے کی ضرورت نہيں ہے۔
پاکستان کے حاليہ دورہ پاکستان ميں وزير دفاع رابرٹ گيٹس نے پاکستانی راہنماؤں کے ساتھ اپنی تمام ملاقاتوں ميں پہنچائے گئے پيغام کا اعادہ کيا کہ امريکہ نے پاکستان کے ساتھ باہمی احترام اور مشترکہ اقدار پر مبنی ايک مستحکم اور طويل المدت شراکت کار کا عزم کر رکھا ہے جو مستقبل ميں وسيع اور گہرا ہوتا جائے گا۔
انھوں نے يہ بات زور دے کر کہی کہ امريکہ متشدد انتہا پسندوں کے خلاف لڑائ ميں پاکستانيوں کی جانب سے دی جانے والی قربانيوں کو قدر کی نگاہ سے ديکھتا ہے۔ انھوں نے پاکستان ميں ہونے والے حاليہ دہشت گرد حملوں کے متاثرين کے ليے تعزيت بھی کی۔
وزير دفاع گيٹس افغانستان اور پاکستان ميں سلامتی کے باہمی تعلق، پورے خطہ ميں استحکام، ايشيا ميں انتہا پسندی کے خطرہ، ناجائز منشيات اور دنيا پر ان کے مضر اثرات کے خاتمہ اور جہازرانی کی سلامتی کے بارے ميں اعلی پاکستانی رہنماؤں سے مشاورت کرنے اور ان کا نقطہ نظر معلوم کرنے کے ليے ہی پاکستان کے دورے پر ہيں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
اب کیا کہیںگے آپ لوگ؟ تردید بھی آ گئی ہے جو کہ بظاہر فواد کی وضاحت سے مختلف ہے۔
کیا ساری اہمیت صرف اخباری بیانات کی ہے ؟
حقیقت اخباری بیانات اور میڈیا کی دنیا سے بہت دور ہے
ابھی خبرآئی ہے کہ طالبان کی شوری کے افراد نے اقوام متحدہ کے نمائندوںسے ملاقات کی ہے
کل خبر تھی کہ امریکہ نے طالبان رہنماوںسے پابندی ہٹالی ہے اور ان کے اثاثے بھی بحال کردیے گئے ہیں
عجیب کھیل تماشہ ہے
ایک طرف دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ اور دوسری طرف یہ
طالبان کے روپوش رہنما اقوام متحدہ کو کیسے مل گئے
عجیب سی بات ہے
خیر اب کوئی نیا کھیل شروع ہونے کو ہے
ميرے نزديک يہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ ڈيفينس سيکرٹری رابرٹ گيٹس کے بيان کے ايک حصے کو غلط انداز ميں پيش کر کے کچھ تجزيہ نگار اسے "ناقابل ترديد" ثبوت قرار دے رہے ہيں ليکن جب وہی عہديدار اپنی اسی سرکاری حيثيت ميں اپنے بيان کی توجيہہ اور وضاحت پيش کرتے ہيں تو وہی تجزيہ نگار اسے ناکافی اور غلط قرار ديتے ہیں۔
ڈيفنس سيکرٹری رابرٹ گيٹس نے پاکستان کے حاليہ دورے کے دوران کچھ اور بيانات بھی دیے تھے جن ميں سے کچھ يہ ہيں۔
"امريکہ پاکستان کی سرزمين کے ايک انچ علاقے پر بھی قبضے کا خواہاں نہيں ہے"۔
"ہم پاکستان ميں کسی فوجی اڈے کے حصول کے خواہش مند نہيں ہيں۔"
"ہم پاکستان کے ايٹمی ہتھياروں پر کنٹرول کی کوئ خواہش نہيں رکھتے"۔
منطق اور انصاف کا تقاضا تو يہ ہے کہ ميڈيا کے کچھ عناصر اور سازشی تھيوری پر يقين رکھنے والے تجزيہ نگار رابرٹ گيٹس کے ان بيانات کو بھی اتنی ہی اہميت اور کريڈٹ ديں اور ان کی روشنی ميں امريکہ کے پاکستان کے حوالے سے مبينہ مذموم ارادوں اور منصوبوں کے حوالے سے اپنی سوچ پر نظرثانی کريں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
يہ بيانات امريکہ کی خارجہ پاليسی کے ايجنڈا اور مقاصد کی عکاسی کرتے ہيں۔ امريکی سفارتی اہلکار اور عہديدار اپنی سرکاری حيثيت ميں ديے گئے بيانات اور الفاظ کے ليے مکمل ذمہ دار ہوتے ہيں۔
ميں اس امر سے بخوبی واقف ہوں کہ پاکستان ميں حکومتی عہديداروں اور مختلف حکومتی اداروں کی طرف سے جاری کردہ بيانات اور سرکاری ٹی وی پر خبروں اور رپورٹوں پر عام طور پر بھروسہ نہيں کيا جاتا۔
پاليسی بيانات کے حوالے سے عام طور پر شکوک و شبہات اور تحفظات پائے جاتے ہيں۔ امريکہ ميں بھی پاليسی بيانات کے حوالے سے تنقيد اور تحفظات کا عنصر موجود ہوتا ہے ليکن اس کے ساتھ ساتھ ہر عہديدار اس امر سے بھی واقف ہوتا ہے کہ احتساب کا عمل موجود ہے اور غلط بيانات کے نتيجے ميں ان کے خلاف کاروائ کی جا سکتی ہے۔ جب وائٹ ہاؤس يا اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی جانب سے کسی معاملے پر کوئ بيان جاری کيا جاتا ہے تو وہ اس معاملے پر براہراست امريکی حکومت کے موقف کی ترجمانی کرتا ہے۔
اس تناظر ميں ان بيانات کو نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
بلیک واٹر پاکستان میںکام کر رہی ہے تو کیا پاکستانی حکومت امریکہ میں حکومت کررہی ہے؟؟؟
پاکستانی حکومت"گٹریلے"کالے پانی کو باہر کیوں نہیں نکا لتی ؟؟؟؟