ایم اسلم اوڈ
محفلین
امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کے لئے تمام حربے آزما لئے ہیں۔ مسلسل ملنے والی ناکامیوں اور شدید مزاحمت کے بعد امریکہ نے افغانستان و پاکستان میں کرائے کے فوجی استعمال کرنے کے منصوبہ پر عمل شروع کردیا ہے، اس حوالے سے پاکستان و افغانستان میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے بدنام زمانہ سکیورٹی فرم ”بلیک واٹر“ کو ٹھیکہ دیا گیاہے۔
ذرائع کے مطابق بدنام زمانہ امریکی سکیورٹی فرم بلیک واٹر پاکستان کے قبائلی علاقوں سمیت مختلف شہروں کوئٹہ ، پشاور ، اسلام آباد میں قدم جمانے کے بعد اب کراچی میں بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرچکی ہے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کراچی میں اپنی کمپنی کے ڈھانچہ کو مضبوط کررہی ہے۔اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ کراچی میں بلیک واٹر کی موجودگی کا انکشاف کراچی پورٹ پر ہونے والی غیر ملکی افراد کی سرگرمیوں سے ہوا ہے۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ کراچی پورٹ پر دو غیر ملکی باقاعدگی سے نیٹو فورسز کو افغانستان بھجوائے جانے والے سامان کی معلومات حاصل کرتے ہیں اور خود کو امریکی سفارتخانہ کا اہلکار ظاہر کرکے ضروری کاغذات بھی ہمراہ لے جاتے ہیں۔ابتداءمیں ان افراد کو روکا گیا اور ان کی شناخت معلوم کی گئی، بعد ازاں ان کی بتائی ہوئی تفصیلات کے مطابق تحقیقات کی گئی تو ان افراد کی جانب سے بتائی گئی تفصیلات درست ثابت ہوئیں۔ حساس اداروں کے اہلکاروں نے بھی ان افراد کے حوالے سے تحقیقات مکمل کرنے کے بعد رپورٹ حکومت کو بھجوا دی ہے جبکہ مزید کسی کاروائی سے گریز کیا جارہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ان افراد کو حساس ایریاز میں بھی نقل و حرکت کی مکمل آزادی ہے۔ حساس اداروں نے حکومت کی جانب سے واضح احکامات نہ ملنے کی وجہ سے خاموشی اختیار کر لی ہے۔ اطلاعات کے مطابق شہر کے پوش علاقے ڈیفنس مذکورہ سکیورٹی فرم کی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں مقامی افراد کو ہائر کرکے ان سے بھاری رقوم کے عوض کام لیا جارہا ہے۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ حکومتی جماعتوں کے دو اہم افراد جو کراچی میں سرگرمیوں کے حوالے سے معروف ہیں ، اس سکیورٹی فرم کے افراد سے باقاعدہ رابطہ میں ہیں اور متعدد بار میٹنگ کرچکے ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں مذکورہ دونوں افراد اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک پروگرام میں شریک ہوئے تھے جس میں انھیں کراچی کے حوالے سے مشترکہ طور پر کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ واضح رہے کہ مذکورہ سکیورٹی فرم امریکی اداروں ایف بی آئی اور سی آئی اے کے تعاون سے دنیا بھر میں کام کرتی ہے جبکہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے خون ریزی اور کسی بھی ملک کی اہم شخصیات کو قتل کرنے کے واقعات میں بھی ملوث پائی گئی ہے۔
اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے محکمہ داخلہ کے اہم ذمہ دار نے بساط کو بتایا کہ بلیک واٹر کی کراچی میں موجودگی کے حوالے سے حساس اداروں کی رپورٹس موجود ہیں۔ ان رپورٹس کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داران کے کئی اہم اجلاس ہوچکے ہیں اور تمام صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ رپورٹس حکومتی اعلیٰ عہدیداران کوبھی بھجوادی گئی ہے اس حوالے سے ذمہ داران کو خصوصی بریفنگ دی گئی ہے اور اب ان کی جانب سے جواب کا انتظار کیا جارہا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ بلیک واٹر کے لئے کام کرنے والے مقامی افراد کا مکمل ریکارڈموجود ہے اور ان پر گہری نظر رکھی جارہی ہے۔اس حوالے سے بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا ہوم ورک مکمل کرچکے ہیں۔
بدنام زمانہ امریکی کمپنی بلیک واٹر کا قیام 1997میں عمل میں آیا اور یہ کمپنی ہر سال 40ہزار سے زائدفوجیوں اور دیگر ایجنسیوں کے افراد کو خصوصی تربیت دیکر اپنے منصوبوں کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ اس کمپنی کا نام اس وقت دنیا کی نظروں میں آیا جب اس کی جانب سے عراق میں کی جانے والی مختلف خون ریز کاروائیوں میں ہزاروں عراقی جاں بحق ہوگئے تھے۔اس وقت امریکہ کی جانب سے عراق میں تعینات تین نجی سکیورٹی فرموں میں سے بلیک واٹر سب سے بڑی ہے اور اس کی آمدنی کا 90فیصد حکومتی ٹھیکوں سے پورا ہوتا ہے جبکہ ان ٹھیکوں کے لئے کوئی باقاعدہ اعلان بھی نہیں کیا جاتا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق عراق میں کام کرنے والے بلیک واٹر کے ایک اہلکار پر سالانہ 445000ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں جو کسی بھی امریکہ جنرل کی 26سال کی ملازمت کے دوران حاصل کی گئی تنخواہ سے بھی زائد ہے ۔ 2003میں امریکہ نے بلیک واٹر سے اکیس ملین ڈالر میں عراق میں امریکی آپریشن کے ذمہ دار پال بارمر کو11ماہ تک سکیورٹی فراہم کرنے کا ٹھیکہ دیا تھاجو اس وقت تک بلیک واٹر کے لئے سب سے بڑا ٹھیکہ تھا۔ 21جون 2004تک بلیک واٹر کو 3.2 ملین ڈالر ادا کئے جاچکے تھے جبکہ مجموعی طور پر اسے ایک بلین ڈالر ادا کئے جانے تھے جو کہ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا شورش زدہ علاقوں میں اپنے سفارتکاروں کو سکیورٹی فراہم کرنے کا پانچ سال کا بجٹ ہے۔ اسی طرح بلیک واٹر نے 2006میں عراق میں امریکی سفارتخانہ کو تحفظ فراہم کرنے کا ٹھیکہ حاصل کیا۔ بلیک واٹر کسی بھی ملک کی بہترین فوج کی طرح ہر قسم کے فوجی سازوسامان سے مسلح اور باقاعدہ جنگ لڑنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے ۔اس حوالے سے امریکی میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بلیک واٹر اس وقت دنیا کی مضبوط ترین نجی فوج ہے۔
2007میں جب امریکی فوج کو افغانستان میں اپنی شکست کے آثار نظر آنا شروع ہوئے تو اس نے اپنی فوج کی حفاظت اور فوجی قافلوں کی نقل و حرکت کے دوران ان کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بلیک واٹر کو ٹھیکہ دیا ۔ ابتداءمیں بلیک واٹر کو خطرناک پہاڑی سلسلوں میں قائم امریکی اڈوں، جن تک پہنچنے والے زمینی راستوں پر القاعدہ اور طالبان کا قبضہ تھا ، تک ہوائی جہازوں کے ذریعے سامان رسد پہنچانے کا ٹھیکہ ملا ۔ اس مقصد کے لئے بلیک واٹر نے روسی طیارے کرائے پر حاصل کئے جو خصوصی طور پر پہاڑی علاقوں میں پروازوں کے لئے بنائے گئے تھے ۔ بلیک واٹر نے ان طیاروں پر سفید رنگ کرایا تاکہ اس کے ذریعے مذکورہ طیارے اقوام متحدہ سے متعلقہ ہونے کا تاثر دیا جاسکے۔ اس کے بعد بلیک واٹر نے افغانستان میں اپنے قدم جمانے شروع کردئے اور امریکی فوج مکمل طور پر بلیک واٹر کی محتاج ہوکر رہ گئی۔ امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بلیک واٹر پر عراق میں بھی جنگی جرائم اور شہریوں کے قتل عام میں ملوث ہونے کے مقدمات درج ہیں تاہم اس کے امریکی حکومتی حلقوں میں اثر ورسوخ رکھنے والے حمایتی اس کا دفاع کرتے ہیں ۔رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ عراق میں لوگوں کے گلے کاٹنے کی روایت بلیک واٹر نے ہی شروع کی تھی۔
بلیک واٹر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) حمید گل نے بساط کو بتایا کہ بلیک واٹر ایک نجی فوج ہے جو عام طور پر امریکی مفادات کے لئے کام کرتی ہے اور بین الاقوامی سازشوں کا حصہ رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ بلیک واٹر سے پاکستانی فوج کو تربیت دلوانے کا معاہدہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے دور میں کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اب جنرل اشفاق پرویز کیانی لاکھ کہتے رہے ہیں کہ ہماری
فوج کو کسی سے تربیت لینے کی ضرورت نہیں ہے اس کے باوجود بلیک واٹر کو ملک میں آنے سے نہیں روکا جاسکتا کیونکہ پرویز مشرف معاہدہ کرچکے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جو خطرناک ہے ۔ بلیک واٹر اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، کراچی ، سمیت پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنے قدم جماچکی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ انتہائی خطرناک بات ہے اور بلیک واٹر کسی بھی وقت میں ملک میں سنگین حالات پیدا کرسکتی ہے ۔
بشکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ http://islamicupdates.com/black_water.html
ذرائع کے مطابق بدنام زمانہ امریکی سکیورٹی فرم بلیک واٹر پاکستان کے قبائلی علاقوں سمیت مختلف شہروں کوئٹہ ، پشاور ، اسلام آباد میں قدم جمانے کے بعد اب کراچی میں بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرچکی ہے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کراچی میں اپنی کمپنی کے ڈھانچہ کو مضبوط کررہی ہے۔اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ کراچی میں بلیک واٹر کی موجودگی کا انکشاف کراچی پورٹ پر ہونے والی غیر ملکی افراد کی سرگرمیوں سے ہوا ہے۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ کراچی پورٹ پر دو غیر ملکی باقاعدگی سے نیٹو فورسز کو افغانستان بھجوائے جانے والے سامان کی معلومات حاصل کرتے ہیں اور خود کو امریکی سفارتخانہ کا اہلکار ظاہر کرکے ضروری کاغذات بھی ہمراہ لے جاتے ہیں۔ابتداءمیں ان افراد کو روکا گیا اور ان کی شناخت معلوم کی گئی، بعد ازاں ان کی بتائی ہوئی تفصیلات کے مطابق تحقیقات کی گئی تو ان افراد کی جانب سے بتائی گئی تفصیلات درست ثابت ہوئیں۔ حساس اداروں کے اہلکاروں نے بھی ان افراد کے حوالے سے تحقیقات مکمل کرنے کے بعد رپورٹ حکومت کو بھجوا دی ہے جبکہ مزید کسی کاروائی سے گریز کیا جارہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ان افراد کو حساس ایریاز میں بھی نقل و حرکت کی مکمل آزادی ہے۔ حساس اداروں نے حکومت کی جانب سے واضح احکامات نہ ملنے کی وجہ سے خاموشی اختیار کر لی ہے۔ اطلاعات کے مطابق شہر کے پوش علاقے ڈیفنس مذکورہ سکیورٹی فرم کی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں مقامی افراد کو ہائر کرکے ان سے بھاری رقوم کے عوض کام لیا جارہا ہے۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ حکومتی جماعتوں کے دو اہم افراد جو کراچی میں سرگرمیوں کے حوالے سے معروف ہیں ، اس سکیورٹی فرم کے افراد سے باقاعدہ رابطہ میں ہیں اور متعدد بار میٹنگ کرچکے ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں مذکورہ دونوں افراد اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک پروگرام میں شریک ہوئے تھے جس میں انھیں کراچی کے حوالے سے مشترکہ طور پر کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ واضح رہے کہ مذکورہ سکیورٹی فرم امریکی اداروں ایف بی آئی اور سی آئی اے کے تعاون سے دنیا بھر میں کام کرتی ہے جبکہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے خون ریزی اور کسی بھی ملک کی اہم شخصیات کو قتل کرنے کے واقعات میں بھی ملوث پائی گئی ہے۔
اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے محکمہ داخلہ کے اہم ذمہ دار نے بساط کو بتایا کہ بلیک واٹر کی کراچی میں موجودگی کے حوالے سے حساس اداروں کی رپورٹس موجود ہیں۔ ان رپورٹس کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داران کے کئی اہم اجلاس ہوچکے ہیں اور تمام صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ رپورٹس حکومتی اعلیٰ عہدیداران کوبھی بھجوادی گئی ہے اس حوالے سے ذمہ داران کو خصوصی بریفنگ دی گئی ہے اور اب ان کی جانب سے جواب کا انتظار کیا جارہا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ بلیک واٹر کے لئے کام کرنے والے مقامی افراد کا مکمل ریکارڈموجود ہے اور ان پر گہری نظر رکھی جارہی ہے۔اس حوالے سے بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا ہوم ورک مکمل کرچکے ہیں۔
بدنام زمانہ امریکی کمپنی بلیک واٹر کا قیام 1997میں عمل میں آیا اور یہ کمپنی ہر سال 40ہزار سے زائدفوجیوں اور دیگر ایجنسیوں کے افراد کو خصوصی تربیت دیکر اپنے منصوبوں کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ اس کمپنی کا نام اس وقت دنیا کی نظروں میں آیا جب اس کی جانب سے عراق میں کی جانے والی مختلف خون ریز کاروائیوں میں ہزاروں عراقی جاں بحق ہوگئے تھے۔اس وقت امریکہ کی جانب سے عراق میں تعینات تین نجی سکیورٹی فرموں میں سے بلیک واٹر سب سے بڑی ہے اور اس کی آمدنی کا 90فیصد حکومتی ٹھیکوں سے پورا ہوتا ہے جبکہ ان ٹھیکوں کے لئے کوئی باقاعدہ اعلان بھی نہیں کیا جاتا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق عراق میں کام کرنے والے بلیک واٹر کے ایک اہلکار پر سالانہ 445000ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں جو کسی بھی امریکہ جنرل کی 26سال کی ملازمت کے دوران حاصل کی گئی تنخواہ سے بھی زائد ہے ۔ 2003میں امریکہ نے بلیک واٹر سے اکیس ملین ڈالر میں عراق میں امریکی آپریشن کے ذمہ دار پال بارمر کو11ماہ تک سکیورٹی فراہم کرنے کا ٹھیکہ دیا تھاجو اس وقت تک بلیک واٹر کے لئے سب سے بڑا ٹھیکہ تھا۔ 21جون 2004تک بلیک واٹر کو 3.2 ملین ڈالر ادا کئے جاچکے تھے جبکہ مجموعی طور پر اسے ایک بلین ڈالر ادا کئے جانے تھے جو کہ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا شورش زدہ علاقوں میں اپنے سفارتکاروں کو سکیورٹی فراہم کرنے کا پانچ سال کا بجٹ ہے۔ اسی طرح بلیک واٹر نے 2006میں عراق میں امریکی سفارتخانہ کو تحفظ فراہم کرنے کا ٹھیکہ حاصل کیا۔ بلیک واٹر کسی بھی ملک کی بہترین فوج کی طرح ہر قسم کے فوجی سازوسامان سے مسلح اور باقاعدہ جنگ لڑنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے ۔اس حوالے سے امریکی میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بلیک واٹر اس وقت دنیا کی مضبوط ترین نجی فوج ہے۔
2007میں جب امریکی فوج کو افغانستان میں اپنی شکست کے آثار نظر آنا شروع ہوئے تو اس نے اپنی فوج کی حفاظت اور فوجی قافلوں کی نقل و حرکت کے دوران ان کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بلیک واٹر کو ٹھیکہ دیا ۔ ابتداءمیں بلیک واٹر کو خطرناک پہاڑی سلسلوں میں قائم امریکی اڈوں، جن تک پہنچنے والے زمینی راستوں پر القاعدہ اور طالبان کا قبضہ تھا ، تک ہوائی جہازوں کے ذریعے سامان رسد پہنچانے کا ٹھیکہ ملا ۔ اس مقصد کے لئے بلیک واٹر نے روسی طیارے کرائے پر حاصل کئے جو خصوصی طور پر پہاڑی علاقوں میں پروازوں کے لئے بنائے گئے تھے ۔ بلیک واٹر نے ان طیاروں پر سفید رنگ کرایا تاکہ اس کے ذریعے مذکورہ طیارے اقوام متحدہ سے متعلقہ ہونے کا تاثر دیا جاسکے۔ اس کے بعد بلیک واٹر نے افغانستان میں اپنے قدم جمانے شروع کردئے اور امریکی فوج مکمل طور پر بلیک واٹر کی محتاج ہوکر رہ گئی۔ امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بلیک واٹر پر عراق میں بھی جنگی جرائم اور شہریوں کے قتل عام میں ملوث ہونے کے مقدمات درج ہیں تاہم اس کے امریکی حکومتی حلقوں میں اثر ورسوخ رکھنے والے حمایتی اس کا دفاع کرتے ہیں ۔رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ عراق میں لوگوں کے گلے کاٹنے کی روایت بلیک واٹر نے ہی شروع کی تھی۔
بلیک واٹر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) حمید گل نے بساط کو بتایا کہ بلیک واٹر ایک نجی فوج ہے جو عام طور پر امریکی مفادات کے لئے کام کرتی ہے اور بین الاقوامی سازشوں کا حصہ رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ بلیک واٹر سے پاکستانی فوج کو تربیت دلوانے کا معاہدہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے دور میں کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اب جنرل اشفاق پرویز کیانی لاکھ کہتے رہے ہیں کہ ہماری
فوج کو کسی سے تربیت لینے کی ضرورت نہیں ہے اس کے باوجود بلیک واٹر کو ملک میں آنے سے نہیں روکا جاسکتا کیونکہ پرویز مشرف معاہدہ کرچکے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جو خطرناک ہے ۔ بلیک واٹر اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، کراچی ، سمیت پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنے قدم جماچکی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ انتہائی خطرناک بات ہے اور بلیک واٹر کسی بھی وقت میں ملک میں سنگین حالات پیدا کرسکتی ہے ۔
بشکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ http://islamicupdates.com/black_water.html