سید رافع
محفلین
میرے قدم تیز اٹھ رہے تھے
اسکی آخری سانسیں تیز چل رہی تھیں
وہ بلی کا معصوم بچہ رگڑ کر کمر چل رہا تھا
فٹ پاتھ کی کھردری سطح اسکو تھپتھپا رہی تھا
جیسے ماں مرتے بچے کی کمر پر ہاتھ رکھے
لیکن چیخ نہ مار پا رہی ہو
میرے لپکتے قدم جو دھیرے ہوئے
منظر سارا پس منظر سے ابھر کر سامنے آگیا
اس کی پسلیاں تیز چکی کی مانند چل رہی تھیں
میں نے شفقت کا اک لمس جو اسکی کمر پر دیا
اسکے قدم لڑکھڑانے لگے
میں نے حال اسکا پوچھ کر اپنی زبان میں
جو اسکے لبوں پہ کی نظر
آخری لمحوں کا جھاگ اس کے چہرے پر پھیل چکا تھا
ہر خشک و سیاہ اس جھاگ سے لپٹ چکا تھا
اس کی نرم اور گرم جان ہانپ رہی تھی
وہ اس دنیا میں بس کچھ ہی لمحے کا مہماں رہ گیا تھا
بس پھر اس نے ایک آخری ہچکی لی
اور اس دنیا کی کلفتوں سے دور چل دیا
اسکی آخری سانسیں تیز چل رہی تھیں
وہ بلی کا معصوم بچہ رگڑ کر کمر چل رہا تھا
فٹ پاتھ کی کھردری سطح اسکو تھپتھپا رہی تھا
جیسے ماں مرتے بچے کی کمر پر ہاتھ رکھے
لیکن چیخ نہ مار پا رہی ہو
میرے لپکتے قدم جو دھیرے ہوئے
منظر سارا پس منظر سے ابھر کر سامنے آگیا
اس کی پسلیاں تیز چکی کی مانند چل رہی تھیں
میں نے شفقت کا اک لمس جو اسکی کمر پر دیا
اسکے قدم لڑکھڑانے لگے
میں نے حال اسکا پوچھ کر اپنی زبان میں
جو اسکے لبوں پہ کی نظر
آخری لمحوں کا جھاگ اس کے چہرے پر پھیل چکا تھا
ہر خشک و سیاہ اس جھاگ سے لپٹ چکا تھا
اس کی نرم اور گرم جان ہانپ رہی تھی
وہ اس دنیا میں بس کچھ ہی لمحے کا مہماں رہ گیا تھا
بس پھر اس نے ایک آخری ہچکی لی
اور اس دنیا کی کلفتوں سے دور چل دیا