بندگلی سے نکلنے کا راستہ

جاسم محمد

محفلین
بندگلی سے نکلنے کا راستہ
by TFT
January 1, 2021


پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ غیر مشروط وابستگی رکھنے والے خواجہ آصف کی حکومت کے کٹھ پتلی ادارے، نیب کے ہاتھوں گرفتاری نے عمران خان کی ذہنیت کو بے نقاب کردیا ہے۔ وہ حزب اختلاف کی ہر اُس کوشش کو ناکام بنائیں گے جس کا مقصد اُنہیں اسٹبلشمنٹ سے دور کرنا ہے۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ خواجہ آصف کے شمار مسلم لیگ ن کے اُن راہ نماؤں میں ہوتا ہے جو جنرلوں سے رابطے تھے تاکہ موجودہ بحران کے حل کے لیے کوئی لائحہ عمل تلاش کیا جاسکے۔ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع دینے کی وکالت کرنے میں خواجہ صاحب مسلم لیگ ن میں پیش پیش تھے حالانکہ اس کی وجہ سے نواز شریف کے بیانیے کو نقصان پہنچاتھا۔

اس سے پہلے نیب نے شہباز شریف کو حراست میں لے لیا۔ وہ بھی اسی راہ کے مسافر تھے۔ درحقیقت یہ شہباز شریف ہی تھے جنہوں نے جنرلوں کو قائل کیا تھا کہ نواز شریف کو بیرون ِ ملک جانے کی اجازت دے دی جائے۔ اس دوران وہ جنرلوں کے ساتھ حکومت کی ممکنہ تبدیلی کے لیے بھی مذاکرات کررہے تھے۔

خواجہ آصف کی موجودہ گرفتاری سے پہلے اسٹبلشمنٹ کے خاص آدمی، محمد علی درانی کی طرف سے ایک چونکا دینے والی سرگرمی دیکھنے میں آئی تھی۔ محمد علی درانی نے کھلے الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ وہ جیل میں شہباز شریف سے اس لیے ملے تھے تاکہ اُنہیں قائل کرسکیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن اُن جنرلوں پر تنقیدی حملوں سے گریز کرے جو عمران خان کو سہارادیے ہوئے ہیں جب کہ اس دوران تحریک انصاف حکومت کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے عوام کا غصہ بڑھ رہا ہے۔

ایسی ہی وجوہ کی بنا کر حکومت شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی کیس کھول رہی ہے۔ اُنہیں بھی ایسے راہ نما کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو نواز شریف اور جنرلوں کے درمیان ثالثی کراسکتے ہیں۔ لیکن بات صرف عمران خان کی سوچ کی ہی نہیں۔ جنرلوں نے بھی شہباز شریف اور خواجہ آصف سے بات چیت کی تھی جب آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ سلگ رہا تھا۔ درحقیقت مولانا فضل الرحمن کے نومبر 2019 ء میں کیے گئے لانگ مارچ کے بارے میں قیاس آرائیاں سامنے آئی تھیں کہ اس کا مقصد توسیع دینے کے لیے عمران خان پر دباؤ ڈالنا ہے۔اس کی تصدیق مولانا کے اس حالیہ بیان سے ہوتی ہے کہ اُنہوں نے اسلام آباد سے اپنے پیروکاروں کو اس لیے اُٹھایا تھا کیوں کہ اُن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ مارچ 2020 ء تک عمران خان کی حکومت ختم ہوجائے گی۔ اگرمولانا فضل الرحمن کے جنرلوں پر غصے کی وجہ اُن کی وعدہ خلافی ہے تو شہبازشریف اور خواجہ آصف کہیں زیادہ پریشانی کا شکار ہیں۔ نہ صرف وہ جنرلوں کے ساتھ کھلے عام رابطے رکھنے کی پاداش میں جیل میں ہیں بلکہ وعدہ خلافی کے بعد نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے جنرلوں کے خلاف اختیار کیے گئے سخت موقف کی ذمہ داری بھی اُنہی پر عائد ہوتی ہے۔

حزب اختلاف کی جنرلوں پر تنقید کو عمران خان فوج مخالف سازش کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ایسے حملے جنرلوں کے لیے بہت پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں کیوں کہ یہ الزامات اُن کی سیاسی چالوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ اپوزیشن عمران خان کی بجائے ان جنرلوں پر جتنی تنقید کرے گی اتنا ہی اسٹبلشمنٹ کادامن ایک غیر جانبدار ادارے کی بجائے ایک سیاسی سرپرست کے طور پرداغ دار ہوتا جائے گا۔ اس سے لازمی طور پر داخلی دباؤ بڑھے گا کہ اپنی مقدس ساکھ کو پہنچنے والے نقصان سے بچنے کے لیے عمران خان کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچا جائے۔ اسی لیے جنرل حزب اختلاف کے ساتھ مذاکرات کا آغا کرانا چاہتے ہیں۔

اس طرح ہمارے سامنے تین ٹکراؤہوتے دکھائی دے رہے ہیں: سلیکٹڈ وزیر اعظم، عمران خان اور عوامی مقبولیت رکھنے والی حزب اختلاف کے درمیان،تنقید کا نشانہ بننے والے جنرلوں اور انتقام کا نشانہ بننے والی اپوزیشن کے درمیان، اورصورتِ حال کو جوں کا توں رکھنے کے خواہش مند عمران خان اور بحران کا حل تلاش کرنے والے جنرلوں کے درمیان۔ اب یہ بات واضح ہے کہ پہلے دو ٹکراؤ کی شدت بڑھانے کا مطلب تیسرے کی شدت میں اضافہ ہوگا،ا ور اپوزیشن یہی چاہتی ہے۔

اب عمران خان کو چلتا کرنے کی ”حکمت عملی“ آصف علی رزداری نے تجویز کی ہے جس کے مطابق پاکستان ڈیموکریٹک موومٹ اکتیس جنوری تک اپنے منتخب شدہ نمائندوں کے استعفے اکٹھے کرے، لیکن سپیکر قومی اسمبلی کے پاس جمع کرانے کے لیے ایک خاص وقت کا انتظار کرے۔ گلیوں اور سڑکوں پر احتجاجی مظاہروں کے ذریعے ماحول گرما رکھنے کے باوجود ابھی مستعفی ہونے کی بجائے پی ڈی ایم کو مارچ میں سینٹ کے انتخابات میں حصہ لینا چاہیے تاکہ حکومت اپنی طاقت کو مستحکم نہ کرسکے۔ احتجاجی مظاہروں سے جنرلوں پر بھی عمران خان سے جان چھڑانے کا دباؤ بڑھے گا۔

اس کے بعد یہ مستعفی ہونے کے لیے اسلام آباد لانگ مارچ اور اس کے نتیجے میں گہرے ہونے والے بحران کے تمام پہلووں کا جائزہ لے۔ اگر حکومت ضمنی انتخابات کرانے کا فیصلہ کرے تو پی ڈی ایم اُنہیں جلسے، احتجاجی مظاہرے، ہڑتال، دھرنے یا گھیراؤ کرکے ناکام بنائے۔ جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان مسلم لیگ ن کے جوشیلے کارکنوں کی موجودگی میں یہ مشکل نہیں ہوگا، چاہے مزید گرفتاریاں کیوں نہ کرلی جائیں۔ جب تک شدید سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی پن کی فضا گہری رہے گی، حکومت معیشت کو بحال نہیں کرسکے گی، چنانچہ عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ پربھی دباؤ ہوگا۔ خطے کی کھولتی ہوئی صورت ِحال کی وجہ سے قومی سلامتی کے بجٹ پر دباؤ پڑے گا اور بجٹ کے لیے معیشت کا جاندار ہونا ضروری ہے۔

موجودہ بحران سے نکلنا دو وجوہات کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پہلا یہ کہ تحریک انصاف کی حکومت نے دکھادیا ہے کہ وہ حکومت کرنے کی معمولی سی صلاحیت سے بھی عاری ہے۔ درحقیقت اس نے معیشت کو اتنا خراب کردیا ہے کہ اس کا تسلسل پاکستانیوں کے لیے کسی سزا سے کم نہیں۔ اس نے اپنی تمام تر توانائیاں اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے لیے وقف کرکے اپنا کام مزید بگاڑ لیا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ اسے بلاجواز سہارا دیے رکھنے سے اسٹبلشمنٹ بھی غیرمعمولی تنقید کی زد میں ہے۔ ایک وقت تھا جب روز مرہ کی گفتگو میں لفظ ”اسٹبلشمنٹ“ بہت سوچ سمجھ کر بولا جاتا تھا، زبان لڑکھڑا جاتی تھی۔ اب توحاضر سروس جنرلوں کو اسٹبلشمنٹ کے پرانے دوست، اتحادی اور اثاثے نام لے کر مخاطب ہوتے ہیں۔

ناقابل یقین بات ہے کہ مذہبی جماعتیں جو کبھی اسٹبلشمنٹ کے مضبوط اثاثے ہوتے تھے، اب اس کی مخالفت پر اترآئی ہیں۔ اُنہوں نے اپنی توپوں کا رخ اس کی طرف کرلیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما، مولانا فضل الرحمن، مولانا غفور حیدری، مولانا کفایت اللہ، اور جماعت اسلامی کے امیر، سراج الحق کا کھلے عام شرم دلانا، تحریک لبیک کے سربراہ، خادم حسین رضوی (مرحوم) کا جنرلوں کانام لے کر تنقید کرنا ظاہر کرتا ہے کہ تمام جماعتوں، علاقوں اور نظریاتی دھڑوں میں اسٹبلشمنٹ مخالف جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔ اس منہ زور عوامی اشتعال کا اظہار روز بروز طاقت ور ہوتے ہوئے سوشل میڈیا سے ہورہا ہے۔ یہ ایک نئی سماجی حقیقت بن کر ابھرا ہے۔

یہ ”ہائبرڈ“ سسٹم بہت بڑی تباہی کا موجب بن رہا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کو عوامی جذبات کا لحاظ کرنا ہوگاتاکہ کسی مستحسن اور جمہوری طریقے سے مسائل کا بہتر سیاسی اور معاشی بندوبست کیا جاسکے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ ”ہائبرڈ“ سسٹم بہت بڑی تباہی کا موجب بن رہا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کو عوامی جذبات کا لحاظ کرنا ہوگاتاکہ کسی مستحسن اور جمہوری طریقے سے مسائل کا بہتر سیاسی اور معاشی بندوبست کیا جاسکے۔
عمران خان کی دو سالہ حکومت ناکام ہو گئی۔ اس لئے فوج اس کا تختہ الٹ کر موروثیت کو دوبارہ حکومت کا موقع دے: جمہوری انقلابی سینیر لفافی نجم سیٹھی
 

سیما علی

لائبریرین
عمران خان کی دو سالہ حکومت ناکام ہو گئی۔ اس لئے فوج اس کا تختہ الٹ کر موروثیت کو دوبارہ حکومت کا موقع دے: جمہوری انقلابی سینیر لفافی نجم سیٹھی
جمہوریت وآمریت ہمیشہ قوم کو ایک سکے کے دونوں جمہوری رخ دکھائے نہیں جاتے بلکہ ایک عجیب تیسرا بیانیہ سامنے لایا جاتا ہے اوروہ بندگلی کا ہے جب کہ منطق کا ہی یہ سوال ہے کہ بندگلی کا حوالہ دیا جاتا ہے، اس گلی کا ذکر سیاست میں کب نہیں ہوا اور وہ تاریک سرنگ کتنی بار قومی زندگی میں آکر تباہی مچاتی چلی گئی۔ مگر اس گلی میں اہل اقتدارکم وبیش خاطر غزنوی کا ایک مشہورشعرضرورعوام کو سناتے رہے کہ
؀
میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے

گمبھیرسیاسی منظرنامہ - ایکسپریس اردو
 
فوج سے تختہ الٹنے کی مانگ نہیں ہے بلکہ فوج نے پچھلے الیکشن کو چوری کرکے جو ظلم کیا ہے ۔ وہ بےجا حمایت کے خاتمہ کی بات کی جارہی ہے
کیونکہ فوج نے ہی عمران خان کو زبردستی مسلط کیا ہے ایک کٹھ پتلی کی شکل میں صرف اس لئے تاکہ نہ صرف فوج اپنی پرانی کرپشن کو بچا سکے بلکہ مزید کرپشن کا بازار جاری رکھ سکے
 

ثمین زارا

محفلین
فوج سے تختہ الٹنے کی مانگ نہیں ہے بلکہ فوج نے پچھلے الیکشن کو چوری کرکے جو ظلم کیا ہے ۔ وہ بےجا حمایت کے خاتمہ کی بات کی جارہی ہے
کیونکہ فوج نے ہی عمران خان کو زبردستی مسلط کیا ہے ایک کٹھ پتلی کی شکل میں صرف اس لئے تاکہ نہ صرف فوج اپنی پرانی کرپشن کو بچا سکے بلکہ مزید کرپشن کا بازار جاری رکھ سکے
یہ فوج کا کڑا احتساب تمام چور اچکوں اور ڈاکؤوں کو عمران خان کے دور میں تڑپ تڑپ کر یاد آ رہا ہے ، کیوں؟؟ کیا بات ہے ان کی انصاف کی تڑپ کی ۔ پہلے یہ سب اپنا کچھا چھٹا کھولیں کہ کب کب انہوں نے قوم کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر دغا دیا، کتنی دولت لوٹی اور لوٹنے دی ۔ کس کس نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے سب کے نام لیں اور سب سے بڑھ کر قوم کا لوٹا مال واپس کریں ۔ اسٹیبلشمنٹ کو دوام دینے والے، اس کی پیداوار، اس کے انڈے بچے عمران خآن کی حکومت میں انصاف اور عوام کے درد سے بےحال ہو رہے ہیں ۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
کیونکہ فوج نے ہی عمران خان کو زبردستی مسلط کیا ہے ایک کٹھ پتلی کی شکل میں صرف اس لئے تاکہ نہ صرف فوج اپنی پرانی کرپشن کو بچا سکے بلکہ مزید کرپشن کا بازار جاری رکھ سکے
فوج کی کرپشن اصلی لگتی ہے جبکہ سیاست دانوں کی کرپشن فوج کی سازش :)
 

جاسم محمد

محفلین
یہ فج کا کڑا احتساب تمام چور اچکوں اور ڈاکؤوں کو عمران خان کے دور میں تڑپ تڑپ کر یاد آ رہا ہے ، کیوں؟؟
بغض عمران کی وجہ سے۔ وگرنہ جرنل مشرف، جنرل عاصم باجوہ وغیرہ کے جو اثاثے ہیں وہ تب ہی بن چکے تھے جب اپوزیشن والے خود حکومت میں تھے۔ اس وقت جرنیلوں کا احتساب کیوں نہیں کیا؟
 

ثمین زارا

محفلین
فوج نے الیکشن چوری کیا ہے اس دعوے کو پہلے الیکشن کمیشن و عدالتوں میں ثابت تو کریں
اگر ہوا بھی (جو کہ غلط ہے ) تو یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا الیکشن تھا جو چوری ہوا ؟ پہلے الیکشن تو سچ مچ چوری ہوتی تھے اور ان کے مجرمین زندہ بھی ہیں تو پہلے ان کو سزائیں ہوں باری باری ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن کے پیٹ میں اچانک درد کی وجہ بس ایک ہی ہے کہ عمران خان کہاں سے آ گیا اور ان کی باریاں رک گئیں ۔
 
Top