کاشفی
محفلین
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
بندہ نوازیوں پہ خدائے کریم تھا
کرتا نہ میں گناہ ، تو گناہِ عظیم تھا
کیا کیا نہ آفتوں کے رہے ہم کو سامنے
یارب، شباب تھا کہ بلائے عظیم تھا
دُنیا میں کچھ قیام نہ سمجھو کرو خیال
اس گھر میں تم سے پہلے بھی کوئی مقیم تھا
دُنیا کا حال، اہلِ عدم، ہے یہ مختصر
اک دو قدم کا کوچہء امید و بیم تھا
ہم اپنے دل میں مست تھے کیا جانیں حشر میں
کس سمت کو جنان تھا، کدھر کو جحیم تھا
سامانِ عفو ، کیا میں کہوں مختصر ہے یہ
بندہ گناہ گار تھا، خالق کریم تھا
گلگشت میں نقاب اُلٹتے وہ رُخ سے کیا
شرم آتی تھی صبا سے لحاظِ نسیم تھا
دامانِ گل کو خود نہ چھوا، ورنہ اے امیر
کچھ ڈر صبا کا ہم کو، نہ خوفِ نسیم تھا
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
بندہ نوازیوں پہ خدائے کریم تھا
کرتا نہ میں گناہ ، تو گناہِ عظیم تھا
کیا کیا نہ آفتوں کے رہے ہم کو سامنے
یارب، شباب تھا کہ بلائے عظیم تھا
دُنیا میں کچھ قیام نہ سمجھو کرو خیال
اس گھر میں تم سے پہلے بھی کوئی مقیم تھا
دُنیا کا حال، اہلِ عدم، ہے یہ مختصر
اک دو قدم کا کوچہء امید و بیم تھا
ہم اپنے دل میں مست تھے کیا جانیں حشر میں
کس سمت کو جنان تھا، کدھر کو جحیم تھا
سامانِ عفو ، کیا میں کہوں مختصر ہے یہ
بندہ گناہ گار تھا، خالق کریم تھا
گلگشت میں نقاب اُلٹتے وہ رُخ سے کیا
شرم آتی تھی صبا سے لحاظِ نسیم تھا
دامانِ گل کو خود نہ چھوا، ورنہ اے امیر
کچھ ڈر صبا کا ہم کو، نہ خوفِ نسیم تھا