پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں فوج کی چھاونی کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز کے ایک قافلے کے قریب دھماکہ ہوا ہے جس میں 20 اہلکار شہید اور بیس سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
یہ دھماکہ چھاونی کے علاقے میں آمندی چوک پر رزمک گیٹ کے قریب ہوا ہے۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ دھماکہ قافلے میں شامل ایک گاڑی میں ہوا ہے۔
سیکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت کے لیے ضرورت پڑنے پر پرائیویٹ گاڑیاں بھی کرائے پر حاصل کی جاتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق دھماکہ خیز مواد انھی گاڑیوں میں سے ایک میں رکھا گیا تھا اور جس وقت اہلکار گاڑیوں میں سوار ہو رہے تھے اسی وقت دھماکہ ہوا ہے۔
تحریکِ طالبان پاکستان نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بتایا کہ یہ کارروائی مولانا ولی الرحمان کی ہلاکت کا انتقام تھا اور یہ ’محسود ساتھیوں‘ نے کی ہے۔
سرکاری خبر رساں اداروں کے مطابق وزیرِ داخلہ نے اس دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے آئی جی ایف سی سے رپورٹ طلب کی ہے کہ نجی گاڑیاں کرائے پر لیتے وقت احتیاط کیوں نہیں کی گئی۔
آمندی چوک پر ایک میدان ہے جہاں سے یہ قافلہ میرانشاہ کے لیے روانہ ہوتا ہے ۔
"ہمارے 26000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور بین الاقوامی برادری کو اندازہ نہیں ہے کہ پاکستان کس قدر غیر محفوظ ہو گیا ہے۔"
وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان
سیکیورٹی ذرائع نے مقامی نمائندوں کو بتایا ہے کہ اس قافلے میں فرنٹیئر کور کے اہلکار سوار ہو رہے تھے جنھوں نے شمالی وزیرستان کی جانب جانا تھا اور اس کے لیے پرائیویٹ گاڑیاں کرائے پر حاصل کی گئی تھیں۔
بنوں پولیس کے اہلکاروں کا کہنا تھا کہ انھیں چھاونی میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں ہے کہ معلومات حاصل کر سکیں۔ سکیورٹی اہلکاروں نے خود ہی علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھی موقع پر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی اسی لیے بیشتر اطلاعات سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے دی جا رہی ہیں۔
بنوں چھاونی سے ہفتے اور اتوار کے روز سکیورٹی اہلکاروں کا قافلہ شمالی وزیرستان کے ہیڈکوارٹر میرانشاہ کی جانب سامان لے کر جاتا ہے جبکہ انھی دنوں میں دونوں جانب سے اہلکاروں کی نقل حرکت بھی جاری رہتی ہے۔ اس سے پہلے ان دنوں میں سکیورٹی اہلکاروں کے قافلوں پر حملے ہوتے رہے ہیں لیکن وہ حملے راستوں پر دیسی ساختہ بم نصب کر کے کیے جاتے تھے۔
یاد رہے کہ ملک میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لیے میاں نواز شریف کی حکومت نے برسرِاقتدار آتے ہی شدت پسند عناصر سے مذاکرات کی بات کی تھی تاہم حکومتی اس سطح پر اس سلسلے میں کسی پیش رفت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/01/140119_bannu_blast_soldiers_killed_sa.shtml
یہ دھماکہ چھاونی کے علاقے میں آمندی چوک پر رزمک گیٹ کے قریب ہوا ہے۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ دھماکہ قافلے میں شامل ایک گاڑی میں ہوا ہے۔
سیکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت کے لیے ضرورت پڑنے پر پرائیویٹ گاڑیاں بھی کرائے پر حاصل کی جاتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق دھماکہ خیز مواد انھی گاڑیوں میں سے ایک میں رکھا گیا تھا اور جس وقت اہلکار گاڑیوں میں سوار ہو رہے تھے اسی وقت دھماکہ ہوا ہے۔
تحریکِ طالبان پاکستان نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بتایا کہ یہ کارروائی مولانا ولی الرحمان کی ہلاکت کا انتقام تھا اور یہ ’محسود ساتھیوں‘ نے کی ہے۔
سرکاری خبر رساں اداروں کے مطابق وزیرِ داخلہ نے اس دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے آئی جی ایف سی سے رپورٹ طلب کی ہے کہ نجی گاڑیاں کرائے پر لیتے وقت احتیاط کیوں نہیں کی گئی۔
آمندی چوک پر ایک میدان ہے جہاں سے یہ قافلہ میرانشاہ کے لیے روانہ ہوتا ہے ۔
"ہمارے 26000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور بین الاقوامی برادری کو اندازہ نہیں ہے کہ پاکستان کس قدر غیر محفوظ ہو گیا ہے۔"
وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان
سیکیورٹی ذرائع نے مقامی نمائندوں کو بتایا ہے کہ اس قافلے میں فرنٹیئر کور کے اہلکار سوار ہو رہے تھے جنھوں نے شمالی وزیرستان کی جانب جانا تھا اور اس کے لیے پرائیویٹ گاڑیاں کرائے پر حاصل کی گئی تھیں۔
بنوں پولیس کے اہلکاروں کا کہنا تھا کہ انھیں چھاونی میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں ہے کہ معلومات حاصل کر سکیں۔ سکیورٹی اہلکاروں نے خود ہی علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھی موقع پر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی اسی لیے بیشتر اطلاعات سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے دی جا رہی ہیں۔
بنوں چھاونی سے ہفتے اور اتوار کے روز سکیورٹی اہلکاروں کا قافلہ شمالی وزیرستان کے ہیڈکوارٹر میرانشاہ کی جانب سامان لے کر جاتا ہے جبکہ انھی دنوں میں دونوں جانب سے اہلکاروں کی نقل حرکت بھی جاری رہتی ہے۔ اس سے پہلے ان دنوں میں سکیورٹی اہلکاروں کے قافلوں پر حملے ہوتے رہے ہیں لیکن وہ حملے راستوں پر دیسی ساختہ بم نصب کر کے کیے جاتے تھے۔
یاد رہے کہ ملک میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لیے میاں نواز شریف کی حکومت نے برسرِاقتدار آتے ہی شدت پسند عناصر سے مذاکرات کی بات کی تھی تاہم حکومتی اس سطح پر اس سلسلے میں کسی پیش رفت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/01/140119_bannu_blast_soldiers_killed_sa.shtml