سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 13 جون ، 2015
پاکستان کی وزارت اطلاعات نے 1971ء میں ایک کتاب "ٹیررز ان ایسٹ پاکستان" چھاپ کر یا تو اپنے سفارت خانوں کے زریعے تقسیم کی یا پھر لندن کے ٹریفیگل اسکوائر کے 14 اگست 1971ء کے مظاہرئے میں تقسیم کی، یہ کتاب آج بھی ریکارڈ کے طور پر وزارت اطلاعات میں موجود ہونی چاہیے۔ اس کتاب میں وہ تصاویر موجودتھیں جو انسانیت کو شرمارہی تھیں۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے جارہے تھے، بچوں کے پیٹوں میں بندوقوں کی سنگین ڈال کر اُنکو مردہ حالت میں اٹھاکر ناچا جارہا تھا۔اور یہ سب کچھ وہی مکتی باہنی کررہی تھی جسکا ذکر بنگلہ دیش کے حالیہ دورے کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے کیا اور اپنی دہشتگردی کا برملااظہار کرتے ہوئے کہا کہ "بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی اوربھارتی فوج مکتی باہنی کے ساتھ ملکرلڑی تب ہی بنگلہ دیش کو آزادی نصیب ہوئی"۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے برملا اور سینہ ٹھونک کر اِس کا بھی اعتراف کیا کہ وہ 1971ءمیں مکتی باہنی کی حمایت میں ستیہ گرہ تحریک میں بطور نوجوان رضاکارشرکت کے لئے دہلی آئے تھے۔ نریندر مودی کی طرف سے 1971ء کے سقوط ڈھاکہ میں بھارت کے ملوث ہونے کے اعتراف نے اُسکی پاکستان دشمنی کو پورئے طریقے سے ننگا کردیا ہے۔دہشتگرد نریندر مودی نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران چار مرتبہ پاکستان کا نام لیا اور دہشتگردی کے حوالہ سے بے بنیاد الزام تراشیاں کیں۔
سابقہ مشرقی پاکستان اور حالیہ بنگلہ دیش میں آج بھی پچیس فیصد سے زیادہ آبادی ہندوں کی ہے ان ہندوں میں سے اکثریت آج بھی بھارت کی وفادار ہے، پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے مسلم قومیت کے بجائے بنگالی قومیت کا نعرہ بلند کیا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت نے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کے زریعے مشرقی پاکستان کو علیدہ کرنے کی سازشیں تیز کردیں۔ 1966 میں پہلی مرتبہ نیشنل کانفرنس لاہور کے اجلاس میں شیخ مجیب نے چھ نکات پیش کیے۔ پندرہ اگست 1975ءجو بھارت کی آزادی کا دن ہے مجیب الرحمان اپنےپورے خاندان کے ساتھ اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں مارا گیا، یہ وہی فوجی تھے جنہوں نے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا تھا۔ میر جعفر کے خاندان سے تعلق رکھنے والےغدار مجیب الرحمان کی بیٹی حسینہ واجد اپنے باپ سے زیادہ بھارت کی وفادار ہے اور پاکستان سے اپنی نفرت کو کھلے عام ظاہر کرتی ہے۔ حسینہ واجد جو بھارت کی وفاداری میں میرجعفر کا روپ دھار کراپنے ہی لوگوں کو پھانسی چڑھارہی ہے اور پاکستان سے اپنی نفرت کا اظہار کرنے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑتی چاہے وہ کرکٹ کا میچ ہی کیوں نہ ہو، اقتدارمیں آنے کے بعد سے حسینہ واجد پاکستان دشمنی میں پیش پیش ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی جب چھ جون کو بنگلہ دیش کے دارلحکومت ڈھاکہ میں اپنی بہن بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد سے سے ملنے پہنچا تو وہ بہت جذباتی تھا، دونوں بہن بھائی میں ایک قدر جو مشترک ہے وہ ہے پاکستانی دشمنی۔ اس سے پہلے نریندرمودی چین سمیت دوسرئے کئی ممالک کے دوروں کے دوران پاکستان مخالف راہ ہموار کرنے میں ناکام رہا تھا۔اس مشترکہ دشمنی کا اظہار کرنے کےلیے حسینہ واجد نے نریندر مودی کے دورہ بنگلہ دیش کے دوران ایک تقریب میں سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو انتہائی قابل احترام سیاستدان قرار دیا اور نہ صرف بنگلہ دیش کی جنگ میں اُنکے "فعال کردار" کا ذکر کیابلکہ پاکستان توڑنے اور غیرمستحکم کرنے کے اعتراف میں واجپائی کو "فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار ایوارڈ" دیا گیا جو نریندر مودی نے وصول کیا۔ اس سے قبل حسینہ واجد 2012ء میں اندرا گاندھی کو بھی اسی ایوارڈ سے نواز چکی ہے جسے کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے وصول کیا تھا۔ نریندر مودی نے بھی بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کو چھ دسمبر1971ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں کی جانے والی اٹل بہاری واجپائی کی تقریر یاد دلائی جس میں واجپائی نے بھارتی حکومت سے بنگلہ دیش تسلیم کرنے کی درخواست کی تھی۔
آج ایک مرتبہ پھر اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ حضرت سعدی فرماتے ہیں کہ میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ "بچھوؤں کی پیدائش عام جانوروں کی طرح نہیں ہوتی، اپنی ماں کے پیٹ میں جب یہ کچھ بڑا ہو جاتا ہے تو اندر سے پیٹ کو کاٹنا شروع کر دیتا ہے اور یوں سوراخ کر کے باہر آ جاتا ہے"۔ حضرت سعدی مزید فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات ایک دانا کے سامنے بیان کی تو انہوں نے فرمایا: "میں سمجھتا ہوں کہ بات درست ہی ہو گی بچھو کی فطرت اور عادت پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے پہلے دن سے برائی ہی کی ہوگی"۔ ڈنک مارنا بچھوکی فطرت ہے، اور ایسا ہی ہوا جب جون کے پہلے ہفتے میں بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے اپنے پاکستان کے غدار باپ مجیب الرحمان کی روح کو جہنم میں خوش کرنے کےلیے اور پاکستان کو بدنام کرنے کےلیے واجپائی کو "فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار ایوارڈ" سے نوازا، جبکہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی کوکھ سے جنم لینے والی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اورسنگھ پریوار جسکا قیام ہی مسلم دشمنی کے سبب عمل میں آیا تھا اول دن سے ہی پاکستان مخالف ہے ، اُسی سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والا نریندرمودی جو اب بھارت کا وزیراعظم بھی ہے اپنی پاکستان اور مسلم دشمنی کا بھرپور مظاہرہ کررہا ہے۔ حسینہ واجد ہو یا نریندرمودی پاکستان کےلیے تو دونوں ہی بچھو ثابت ہوئے ہیں۔
نریندر مودی وزیراعظم بننے کے بعد سےاپنی شبیہ کو سدھارنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، اُسکے بارئے میں ساری دنیا جانتی ہے کہ 2002ء میں گجرات کے اندر ہونے والے فسادات جن میں 2000 سے زیادہ مسلمان مارئے گئے تھے اُن فسادات کا اصل مجرم نریندر مودی ہی ہے جو اسوقت گجرات کا وزیراعلی تھا۔ کیا وجہ ہے کہ نریندر مودی جسکی شبیہ ابھی تک پوری دنیا کے سامنے بگڑی ہوئی ہے وہ اور اُسکی کابینہ کے اراکین مسلسل پاکستان دشمنی میں بیانات دئے رہے ہیں، کیا مودی حکومت نے ہندوستان کے غریب عوام کے سارئے مسائل حل کردیئے ہیں، ایسا بلکل نہیں ہے اور ان مسائل سے توجہ ہٹانے کےلیے ہی پاکستان کے خلاف عوام کو بھڑکایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں کشمیری مسلمان مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں دوسری طرف آپریشن ضرب عضب کی کامیابی اور پاک چین اقتصادی راہدری کے منصوبے اور معاہدوں نے بھارتی حکمرانوں کی نیدیں اڑائی ہوئی ہیں اور جب نید نہ آئے تو انسان اول فول بکتا ہے اور یہ ہی کام مودی اور اُسکی کابینہ کررہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ مودی جو پاکستان کےلیے تو اب موزی بن چکا اُسکے موزی پن کی خود بھارت میں بڑی شدت سے مخالفت کی جارہی ہے۔
بدقسمتی سے نواز شریف کے سامنے اُن کی اپنی پارٹی یا ملک میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے جسکو وزیر خارجہ بنایا جاسکے، وزارت خارجہ کا جو حال نواز شریف حکومت میں ہوا ہے اتنا برا حال کبھی بھی نہیں ہوا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ پاکستان کے مشترکہ دشمنوں بنگلہ دیش اور بھارت کا اصل چہرہ دکھانے سے سے قاصر رہی جسطرح کا جواب بنگلہ دیش اور بھارت کو جانا چاہیے تھا اسطرح کا جواب نہیں گیا۔ پاکستان کو چاہیے کہ بنگلہ دیش کے بارئے میں اپنی خارجہ پالیسی کو بدلے یہ جو ہمارئے دفتر خارجہ کے ترجمان فرمارہے ہیں پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام کے درمیان نہ صرف مذہبی اقدار کی بنیاد پر مضبوط تعلقات قائم ہیں بلکہ ان کی نوآبادیاتی نظام کے خلاف آزادی کی جدوجہد کی تاریخ بھی مشترک ہے۔کونسی مذہبی اقدار ، کونسے مضبوط تعلقات اور کونسی مشترکہ جدوجہدسب بیکار کی باتیں ہیں، کیا وزارت خارجہ بنگلہ دیش کی حکومت اور خاصکر حسینہ واجد کی پاکستان دشمنی سے ناواقف ہے۔
وازرت خارجہ کو اپنے بیان میں بھارت کو 1965ء میں اُسکی ذلت آمیز شکست کو یاد دلاتے ہوئے یہ بھی یاد دلانا ضروری تھا کہ یہ 1971ء نہیں 2015ء ہے، پاکستان ایک ایٹمی قوت رکھنے والا دنیا کا ساتواں ملک ہے اورپورا بھارت پاکستان کے نشانے پر ہے، تم لڑتو نہیں سکتے ہاں دہشت گردی ضرور کرسکتے ہو، کراچی ہو یا بلوچستان یا پورا پاکستان ہر جگہ تمارئے دہشتگرد موجود ہیں لیکن 60 ہزار لوگوں کے شہید ہونے کے باوجود کسی ایک پاکستانی نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ ہم تمیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کو تیار ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کا مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرانا، آپریشن ضرب عضب کی کامیابی یا پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ دہشتگرد بھارت اور اُسکی موزی سرکاران تمام باتوں کو برداشت کرنے سے قاصرہے ، اسلیے بھارت ہر وہ حربہ استعمال کرے گا جس سے پاکستان کو نقصان پہنچے، اب یہ پاکستانی حکومت کا فرض ہے کہ وہ بھارت کی سازشوں کو ناکام بنائے اوربھارت کے جارحانہ رویے کا منہ توڑ جواب دئے۔
بنگلہ دیش اوربھارت کا اصل چہرہ
تحریر: سید انور محمود
تحریر: سید انور محمود
پاکستان کی وزارت اطلاعات نے 1971ء میں ایک کتاب "ٹیررز ان ایسٹ پاکستان" چھاپ کر یا تو اپنے سفارت خانوں کے زریعے تقسیم کی یا پھر لندن کے ٹریفیگل اسکوائر کے 14 اگست 1971ء کے مظاہرئے میں تقسیم کی، یہ کتاب آج بھی ریکارڈ کے طور پر وزارت اطلاعات میں موجود ہونی چاہیے۔ اس کتاب میں وہ تصاویر موجودتھیں جو انسانیت کو شرمارہی تھیں۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے جارہے تھے، بچوں کے پیٹوں میں بندوقوں کی سنگین ڈال کر اُنکو مردہ حالت میں اٹھاکر ناچا جارہا تھا۔اور یہ سب کچھ وہی مکتی باہنی کررہی تھی جسکا ذکر بنگلہ دیش کے حالیہ دورے کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے کیا اور اپنی دہشتگردی کا برملااظہار کرتے ہوئے کہا کہ "بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی اوربھارتی فوج مکتی باہنی کے ساتھ ملکرلڑی تب ہی بنگلہ دیش کو آزادی نصیب ہوئی"۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے برملا اور سینہ ٹھونک کر اِس کا بھی اعتراف کیا کہ وہ 1971ءمیں مکتی باہنی کی حمایت میں ستیہ گرہ تحریک میں بطور نوجوان رضاکارشرکت کے لئے دہلی آئے تھے۔ نریندر مودی کی طرف سے 1971ء کے سقوط ڈھاکہ میں بھارت کے ملوث ہونے کے اعتراف نے اُسکی پاکستان دشمنی کو پورئے طریقے سے ننگا کردیا ہے۔دہشتگرد نریندر مودی نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران چار مرتبہ پاکستان کا نام لیا اور دہشتگردی کے حوالہ سے بے بنیاد الزام تراشیاں کیں۔
سابقہ مشرقی پاکستان اور حالیہ بنگلہ دیش میں آج بھی پچیس فیصد سے زیادہ آبادی ہندوں کی ہے ان ہندوں میں سے اکثریت آج بھی بھارت کی وفادار ہے، پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے مسلم قومیت کے بجائے بنگالی قومیت کا نعرہ بلند کیا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت نے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کے زریعے مشرقی پاکستان کو علیدہ کرنے کی سازشیں تیز کردیں۔ 1966 میں پہلی مرتبہ نیشنل کانفرنس لاہور کے اجلاس میں شیخ مجیب نے چھ نکات پیش کیے۔ پندرہ اگست 1975ءجو بھارت کی آزادی کا دن ہے مجیب الرحمان اپنےپورے خاندان کے ساتھ اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں مارا گیا، یہ وہی فوجی تھے جنہوں نے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا تھا۔ میر جعفر کے خاندان سے تعلق رکھنے والےغدار مجیب الرحمان کی بیٹی حسینہ واجد اپنے باپ سے زیادہ بھارت کی وفادار ہے اور پاکستان سے اپنی نفرت کو کھلے عام ظاہر کرتی ہے۔ حسینہ واجد جو بھارت کی وفاداری میں میرجعفر کا روپ دھار کراپنے ہی لوگوں کو پھانسی چڑھارہی ہے اور پاکستان سے اپنی نفرت کا اظہار کرنے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑتی چاہے وہ کرکٹ کا میچ ہی کیوں نہ ہو، اقتدارمیں آنے کے بعد سے حسینہ واجد پاکستان دشمنی میں پیش پیش ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی جب چھ جون کو بنگلہ دیش کے دارلحکومت ڈھاکہ میں اپنی بہن بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد سے سے ملنے پہنچا تو وہ بہت جذباتی تھا، دونوں بہن بھائی میں ایک قدر جو مشترک ہے وہ ہے پاکستانی دشمنی۔ اس سے پہلے نریندرمودی چین سمیت دوسرئے کئی ممالک کے دوروں کے دوران پاکستان مخالف راہ ہموار کرنے میں ناکام رہا تھا۔اس مشترکہ دشمنی کا اظہار کرنے کےلیے حسینہ واجد نے نریندر مودی کے دورہ بنگلہ دیش کے دوران ایک تقریب میں سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو انتہائی قابل احترام سیاستدان قرار دیا اور نہ صرف بنگلہ دیش کی جنگ میں اُنکے "فعال کردار" کا ذکر کیابلکہ پاکستان توڑنے اور غیرمستحکم کرنے کے اعتراف میں واجپائی کو "فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار ایوارڈ" دیا گیا جو نریندر مودی نے وصول کیا۔ اس سے قبل حسینہ واجد 2012ء میں اندرا گاندھی کو بھی اسی ایوارڈ سے نواز چکی ہے جسے کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے وصول کیا تھا۔ نریندر مودی نے بھی بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کو چھ دسمبر1971ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں کی جانے والی اٹل بہاری واجپائی کی تقریر یاد دلائی جس میں واجپائی نے بھارتی حکومت سے بنگلہ دیش تسلیم کرنے کی درخواست کی تھی۔
آج ایک مرتبہ پھر اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ حضرت سعدی فرماتے ہیں کہ میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ "بچھوؤں کی پیدائش عام جانوروں کی طرح نہیں ہوتی، اپنی ماں کے پیٹ میں جب یہ کچھ بڑا ہو جاتا ہے تو اندر سے پیٹ کو کاٹنا شروع کر دیتا ہے اور یوں سوراخ کر کے باہر آ جاتا ہے"۔ حضرت سعدی مزید فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات ایک دانا کے سامنے بیان کی تو انہوں نے فرمایا: "میں سمجھتا ہوں کہ بات درست ہی ہو گی بچھو کی فطرت اور عادت پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے پہلے دن سے برائی ہی کی ہوگی"۔ ڈنک مارنا بچھوکی فطرت ہے، اور ایسا ہی ہوا جب جون کے پہلے ہفتے میں بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے اپنے پاکستان کے غدار باپ مجیب الرحمان کی روح کو جہنم میں خوش کرنے کےلیے اور پاکستان کو بدنام کرنے کےلیے واجپائی کو "فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار ایوارڈ" سے نوازا، جبکہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی کوکھ سے جنم لینے والی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اورسنگھ پریوار جسکا قیام ہی مسلم دشمنی کے سبب عمل میں آیا تھا اول دن سے ہی پاکستان مخالف ہے ، اُسی سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والا نریندرمودی جو اب بھارت کا وزیراعظم بھی ہے اپنی پاکستان اور مسلم دشمنی کا بھرپور مظاہرہ کررہا ہے۔ حسینہ واجد ہو یا نریندرمودی پاکستان کےلیے تو دونوں ہی بچھو ثابت ہوئے ہیں۔
نریندر مودی وزیراعظم بننے کے بعد سےاپنی شبیہ کو سدھارنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، اُسکے بارئے میں ساری دنیا جانتی ہے کہ 2002ء میں گجرات کے اندر ہونے والے فسادات جن میں 2000 سے زیادہ مسلمان مارئے گئے تھے اُن فسادات کا اصل مجرم نریندر مودی ہی ہے جو اسوقت گجرات کا وزیراعلی تھا۔ کیا وجہ ہے کہ نریندر مودی جسکی شبیہ ابھی تک پوری دنیا کے سامنے بگڑی ہوئی ہے وہ اور اُسکی کابینہ کے اراکین مسلسل پاکستان دشمنی میں بیانات دئے رہے ہیں، کیا مودی حکومت نے ہندوستان کے غریب عوام کے سارئے مسائل حل کردیئے ہیں، ایسا بلکل نہیں ہے اور ان مسائل سے توجہ ہٹانے کےلیے ہی پاکستان کے خلاف عوام کو بھڑکایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں کشمیری مسلمان مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں دوسری طرف آپریشن ضرب عضب کی کامیابی اور پاک چین اقتصادی راہدری کے منصوبے اور معاہدوں نے بھارتی حکمرانوں کی نیدیں اڑائی ہوئی ہیں اور جب نید نہ آئے تو انسان اول فول بکتا ہے اور یہ ہی کام مودی اور اُسکی کابینہ کررہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ مودی جو پاکستان کےلیے تو اب موزی بن چکا اُسکے موزی پن کی خود بھارت میں بڑی شدت سے مخالفت کی جارہی ہے۔
بدقسمتی سے نواز شریف کے سامنے اُن کی اپنی پارٹی یا ملک میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے جسکو وزیر خارجہ بنایا جاسکے، وزارت خارجہ کا جو حال نواز شریف حکومت میں ہوا ہے اتنا برا حال کبھی بھی نہیں ہوا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ پاکستان کے مشترکہ دشمنوں بنگلہ دیش اور بھارت کا اصل چہرہ دکھانے سے سے قاصر رہی جسطرح کا جواب بنگلہ دیش اور بھارت کو جانا چاہیے تھا اسطرح کا جواب نہیں گیا۔ پاکستان کو چاہیے کہ بنگلہ دیش کے بارئے میں اپنی خارجہ پالیسی کو بدلے یہ جو ہمارئے دفتر خارجہ کے ترجمان فرمارہے ہیں پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام کے درمیان نہ صرف مذہبی اقدار کی بنیاد پر مضبوط تعلقات قائم ہیں بلکہ ان کی نوآبادیاتی نظام کے خلاف آزادی کی جدوجہد کی تاریخ بھی مشترک ہے۔کونسی مذہبی اقدار ، کونسے مضبوط تعلقات اور کونسی مشترکہ جدوجہدسب بیکار کی باتیں ہیں، کیا وزارت خارجہ بنگلہ دیش کی حکومت اور خاصکر حسینہ واجد کی پاکستان دشمنی سے ناواقف ہے۔
وازرت خارجہ کو اپنے بیان میں بھارت کو 1965ء میں اُسکی ذلت آمیز شکست کو یاد دلاتے ہوئے یہ بھی یاد دلانا ضروری تھا کہ یہ 1971ء نہیں 2015ء ہے، پاکستان ایک ایٹمی قوت رکھنے والا دنیا کا ساتواں ملک ہے اورپورا بھارت پاکستان کے نشانے پر ہے، تم لڑتو نہیں سکتے ہاں دہشت گردی ضرور کرسکتے ہو، کراچی ہو یا بلوچستان یا پورا پاکستان ہر جگہ تمارئے دہشتگرد موجود ہیں لیکن 60 ہزار لوگوں کے شہید ہونے کے باوجود کسی ایک پاکستانی نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ ہم تمیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کو تیار ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کا مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرانا، آپریشن ضرب عضب کی کامیابی یا پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ دہشتگرد بھارت اور اُسکی موزی سرکاران تمام باتوں کو برداشت کرنے سے قاصرہے ، اسلیے بھارت ہر وہ حربہ استعمال کرے گا جس سے پاکستان کو نقصان پہنچے، اب یہ پاکستانی حکومت کا فرض ہے کہ وہ بھارت کی سازشوں کو ناکام بنائے اوربھارت کے جارحانہ رویے کا منہ توڑ جواب دئے۔