بنگلہ دیش بھارت سرحد پر محصور علاقے

الفاظ کی طلب نہیں تصویر کو ذرا

بنگلہ دیش اور بھارت کی سرحد پر بنگلہ دیش میں سو کے قریب بھارتی علاقے ہیں جبکہ اسی طرح بھارت میں پچاس سے زیادہ بنگلہ دیشی محصور علاقے ہیں۔ یہ علاقے متنازع رہے ہیں اور یہاں کے لوگوں کو غیر یقینی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ 2,400 کلو میٹر کے اس سرحد پر اکثر مقامات پر خاردار تار لگائی گئی ہیں۔

130321070103_india-bangladesh-border.jpg

بہ شکریہ بی بی سی اردو
 
لیکن سرحد کے بعض حصوں کی واضح طور پر حد بندی نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے بہت ابہام ہے۔اس تصویر کے دائیں جانب دکھائی دینے والا سفید پتھر بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد کا واحد نشان ہے۔

130321065910_india-bangladesh-border01.jpg
 
وہ لوگ جو محصور بھارتی علاقوں میں رہتے ہیں انہیں بھارتی شہری سمجھا جاتا ہے۔ اس تصویر میں ہندوستانیوں کا ایک گروپ ہندوستان کی سرزمین پر کھڑے ہیں جو تصویر میں دائیں طرف دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اگر یہ لوگ یہ تصویر کے بائیں جانب جاتے ہیں تو بنگلہ دیش میں داخل ہونگے جو کہ غیر قانونی ہے

130321065912_india-bangladesh-border02.jpg
 
یہ محصورہ علاقے 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت بنے تھے۔ خشکی سے گھرے اس علاقے میں زندگی گزارنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ یہاں پر کوئی بجلی، سڑک، سکول، ہسپتال یا کسی قسم کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس تصویر میں ایک بچہ پلاسٹک کے گلاس کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔

130321065914_india-bangladesh-border03.jpg
 
بہت سے محصور علاقوں کے لوگ اپنے بچوں کو جعلی شناخت کے ساتھ غیر قانونی طور پر سکول بھیجتے ہیں۔ دونوں اطراف کے باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ان کے ممالک نے ترک کر کے اکیلا چھوڑ دیا ہے۔

130321065916_india-bangladesh-border04.jpg
 
ان محصور علاقوں کو ’چیٹ محل‘ بھی کہا جاتا ہے۔اور یہاں پر زیادہ تر لوگوں کی زندگی کا دورومدار زراعت پر ہے۔ اس تصویر میں ایک گائے بنگلہ دیش کے محصور علاقے میں چر رہی ہے۔

130321065918_india-bangladesh-border05.jpg
 
منصور علی جس کی تصویر ان کے گھر میں لی گئی ہے محصور علاقوں میں رہنے والوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ’2011 میں مردم شماری ہوئی تھی۔اس کی بنیاد پر ہمیں شہریت کیوں نہیں ملی؟‘ انہیں اپنے پچپن کے دن یاد ہیں جب وہ اچانک ایک دوسرے ملک کے شہری بن گئے جبکہ باقی کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔

130321065920_india-bangladesh-border06.jpg
 
دلی اور ڈھاکہ نے 2011 میں متنازع علاقوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک معاہدہ کیا تھا جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ ان علاقوں کے لوگوں کو جو ملک پسند ہو اس کی شہریت دی جائے گی۔ لیکن اس معاہدے پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔

130321065924_india-bangladesh-border08.jpg
 
اکیاسی سالہ سادنہ چکرورتی صرف بھارت کی شہری کی حیثیت سے پہچان چاہتی ہیں اور کچھ نہیں وہ اور ان کی دو بہوئیں مٹی کے چولہے پر کھانا پکاتی ہیں کیونکہ اس علاقے میں گیس نہیں ہے۔ ان کے دو بیٹے فوت ہو چکے ہیں اور یہ تینوں عورتیں مشکل سے زندگی گزارتی ہیں۔

130321065926_india-bangladesh-border09.jpg
 
ان محصور علاقوں میں روزانہ کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے۔ یہاں پر بجلی نہیں ہے اور رات کو لوگ لالٹین اور موم بتیاں جلاتے ہیں۔

130321065928_india-bangladesh-border10.jpg
 
حکام کے مطابق ان محصور علاقوں میں تقریباً پچاس ہزار سے زیادہ افراد آباد ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غیر سرکاری طور پر یہاں کے لوگوں کی تعداد اِس کی دْگنی ہے۔ اس تصویر میں محمد شاہ جمال شیخ رات کی تاریکی میں گھر لوٹ رہے ہیں۔

130321070055_india-bangladesh-border11.jpg
 
اسکی ذیلی سرخی آپ کو ڈالنی تھی "الفاظ کی طلب نہیں تصویر کو ذرا":)
واقعی وقار بھائی کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے لئے کوئی عنوان نہیں ہوتااور اسی طرح کچھ تصاویر بھی ایسی ہوتی ہیں جن کو بتانے کے لیے الفاظ تنگ اور زبان گنگ ہو جاتے ہیں۔
 
اسکی ذیلی سرخی آپ کو ڈالنی تھی "الفاظ کی طلب نہیں تصویر کو ذرا":)
واقعی وقار بھائی کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے لئے کوئی عنوان نہیں ہوتااور اسی طرح کچھ تصاویر بھی ایسی ہوتی ہیں جن کو بتانے کے لیے الفاظ تنگ اور زبان گنگ ہو جاتے ہیں۔
واقعی یہ ایک زبردست ذیلی سرخی ہوتی لیکن میں عموماً اورجنل سرخی کو تبدیل نہیں کیا کرتا:)
پس نوشت:اب دیکھنا ذرا۔ذیلی سرخی شامل کر دی ہے
 
Top