بوجھ

loneliness4ever

محفلین
بوجھ
س ن مخمور


رات اپنی آغوش میں زمانے بھر کے مفلسوں کو ہر پریشانی سے غافل کر کے اپنے ہمراہ لئے خوابوں کے نگر کی سیر پر روانہ ہونے کو تیار تھی، مگر راشدہ کے بوڑھے اماں ابا اب تک برابر برابر بچھی چارپائیوں پر ایک دوسرے کی جانب پشت کئے کروٹ بدل کر آنکھوں میں کئی سوالات کا ہجوم لئے رات کے ہمراہ خواب نگر جانے کوتیار نہ تھے۔ دوسری طرف راشدہ کھلی آنکھوں سے خواب نگر کی شہزادی بن کر ٹوٹے پلنگ پرلیٹی آنے والے وقت کے سہانے خواب بن رہی تھی۔

’’ سنتے ہو ، اگرلڑکے والوں نے راشدہ کو پسند کر لیا تو؟؟؟؟؟‘‘

راشدہ کی بوڑھی ماں نے دوسری چارپائی پرلیٹے اُس کے باپ سے دھیمی آواز میں سوال کیا۔ مگر رات کے سناٹے پر سفر کرتی اُس کی آوازساتھ والے کمرے میں کھڑکی کے پاس ٹوٹے پلنگ پر لیٹی راشدہ کی سماعت میں بھی اتر گئی۔ راشدہ کے باپ اصغر امین نے جواب دینے کے لئے منہ کھلا ہی تھا کہ رات کے سناٹے میں جیسے ڈھول پیٹ دیا ہو کسی نے، اصغر امین کی زبان کو کھانسی نے پکڑ لیا ۔ اللہ اللہ کر کے کھانسی نے دم لینے دیا توراشدہ کی ماں خدیجہ بی بی نے لرزتے ہاتھوں سے پاس رکھے مٹکے سے گلاس میں پانی بھرا اور اپنے شوہر کی جانب بڑھا دیا۔ اصغر امین نے کانپتے ہاتھوں سے گلاس تھاما اور منہ کو لگا لیا۔ گھونٹ بھر پانی پی کر گلاس سرہانے کے پاس فرش پر رکھ دیا۔

’’ راشدہ کی ماں!! اِسی بات نے مجھے پریشان کر رکھا ہے، دینے کو ہے ہی کیا؟؟ جوان بیٹی ہی واحد سہارا ہے ، پسند کر گئے تو بسم اللہ،مگر اِس سہارے کے علاوہ تو کچھ نہیں پاس ہمارے، جو ہم دے سکیں‘‘

اصغر امین نے لرزتی آواز میں جواب دیا

’’ کاش!!اطہر اوراظہرساتھ ہوتے تو ایسی فکر ہمیں کبھی نہ ہوتی‘‘

راشدہ کی ماں نے اپنے دونوں بیٹوں کو یاد کرتے ہوئے حسرت بھرے لہجے میں کہا

’’ مت کر اُن دونوںکا ذکر، وہ ساتھ ہوتے تو ہم اِس سے کہیں زیادہ پریشان ہوتے۔ بیویاں کیا ملیں ، ماں باپ کی ہر بات اُن کےلئے ناقابل ِ برداشت ہو گئی تھی ۔ بوجھ تھے ہم تینوں اُن کے لئے جو چھوڑ کر ایسے گئے کہ لگتا ہے ہم مر گئے ہیں یا وہ مر گئے ہیں‘‘

بوڑھے اصغر کی آواز میں عمر بھر کا درد اُتر آیا۔ بیٹے جن کو سہارا بننا ہوتا ہے،خود اپنے ہاتھوں ماں باپ کو بے سہارا چھوڑ کر اپنی بیویوں کے ہمراہ الگ الگ گھر وںمیں جا بسے تھے۔

’’ نہ خود خوش رہتے ہونگے اور نہ ہم کو خوشی دے سکے،جیسی بھی ہے اپنی چھت تو ہے، اب کرائے پر جا کر پڑ گئے ہیں ۔ ماں باپ سے پیچھا چھڑانے کے لئے۔ ساتھ رہ کر چار پیسے بچاتے تا کہ کل کام آتے، اب کل جب ہم مر جائیں گے تو یہ چھت بیچنے واپس پلٹ آئیں گے۔ ‘‘

بوڑھا اصغر جوان بیٹوں سے ملی تنہائی کے غم کو یاد کرکے آبدیدہ ہو گیا۔

’’ اب تم بھی چھوڑو اُن کا ذکر، میری غلطی تھی جو اُن دونوں کو یاد کر لیا، ورنہ برس گزر گئے ایک بار بھی انہوں نے ہمیں یاد نہ کیا۔ اگر یاد کرتے تو کم از کم ہماری صورتیں تو دیکھنے کو آ ہی جاتے‘‘


راشدہ کی ماں بوڑھے شوہر کی آنکھوں کی نمی اپنی آنکھوں میں محسوس کرنے لگی۔ بڑے بھائیوں کا ذکر سن کر راشدہ کے میٹھے خوابوں میں بھی خلش کی کڑواہٹ اُتر گئی۔ آنے والے وقت سے زیادہ گزرے ہوئے وقت کے سائے اُس کی آنکھوں میں گہرے ہو گئے۔ راشدہ پوری طرح متوجہ ہو گئی، مگربرابر والے کمرے میں گہری خاموشی سانس لینے لگی، ایسا لگتا تھا کہ راشدہ کے بھائیوں کی یاد نے اُس کے ماں باپ پر سکوت طاری کر دیا ہے۔دوسری جانب آنے والے وقت کے خواب اپنی آنکھوں میں بننے والی راشدہ اپنے بھائیوں سے زیادہ اپنے متعلق ہونے والی گفتگو سننے کو بے چین تھی۔کچھ دیر خاموشی سماعت میں اترتی رہی اور کمرا پھر راشدہ کی ماں کی سرگوشی سے گونج اٹھا

’’کیا سو گئے ، کچھ پوچھا ہے تم سے، اگر راشدہ کو پسند کر لیا تو۔۔۔۔ ؟؟‘‘

’’ کہہ تو دیا اگرپسند کر لیا تو الحمداللہ، جو ہم مفلسوں کے گھر آکر ہماری لڑکی دیکھ گئے ہیں، کیا اُن کو یہاں آنے سے پہلے معلوم نہیں ہو گا کہ ہمارے پاس دینے کو زندگی گزارنے کا یہ سہارا ہی رہا گیا ہے، ورنہ فریج ، ٹی وی، موٹر سائیکل، جمع پونجی تو سب میری بیماری کی نظر ہو گئی ہیں۔اب دوکمرے، اُجاڑ صحن، ٹوٹی چارپائیوں اورچٹائی کے سواء رکھا ہی کیا ہے ‘‘

اصغر امین کے لہجے میں زمانے بھر کی محرومی امڈ آئی

’’ کاش !!مالک بیٹوں کے بجائے بیٹیاں ہی دیتا ہم کو، نہ بیٹے ہوتے نہ اُن سے نا آشنائی کاغم ملتا، ایک راشدہ ہی تو ہے جو بیٹی ہو کر بیٹوں کی ذمہ داری پوری کر رہی ہے، دن بھر گارمنٹ فیکٹری میں کمر دوہری کئے کپڑے سیتی ہے اور شام میں گھر آکر ہانڈی چولھا کرتی ہے۔ یہ اکیلی اُن دونوں نالائقوں پر بھاری ہے جو اپنی اپنی بیویوں کے آتے ہی ہمیں چھوڑ گئے‘‘

بوڑھے اصغر امین کی آنکھوں میں ستارے جھلملانے لگے۔کچھ دیر کمرے میں پھر گہری خاموشی سانس لینے لگی۔

’’ راشدہ چلی گئی تو ہمارا کیا ہوگا؟؟؟؟؟؟‘‘

خوف سے بھرے راشدہ کی ماں کے سوال نے بوڑھے اصغر امین کی زبان کے ہر بند توڑ دئیے ۔

’’ بھیک کے لئے نہ تیرے ہاتھ پھیل سکیں گے نہ میرے، اور نہ تو اب برتن مانجھ سکتی ہے، نہ جھاڑو پکڑ سکتی ہے اور نہ میں اینٹیں اٹھاسکتا ہے، یہ راشدہ ہی ہے جس نے اپنے کندھوں پر ہمارا بوجھ اٹھا رکھا ہے، مگر یہ سہارا تو پرایا ہے ایک نہ ایک دن بے سہارا تو ہمیں ہونا ہی پڑے گا۔ ڈھلتی عمر پر بیماری خود ایک بوجھ ہوتی ہے اور اُس پر جوان بیٹوں کی نالائقی نے چلتی سانسوں کو بھی بوجھ بنا دیا ہے ، راشدہ اپنے گھر کی ہو جائے گی تو یہ بوجھ بھی جلد اتر جائے گا، اور ہم بھی کسی روز اخبار کی چھوٹی سی خبر بن جائیں گے۔۔‘‘

اس سے آگے بوڑھے باپ کی آواز برابر کمرے میں لیٹی خواب بنتی راشدہ سن نہ سکی۔ اُس نے کروٹ بدلی اوربھیگی آنکھوں پر موجود نئی زندگی کے خوابوں کے بوجھ کو اُتار پھینکا۔


س ن مخمور
 
آخری تدوین:
کیا افسانہ ہے جناب ، اس تحریر نے اداس کردیا۔۔۔ بہت کمال لکھا ہے۔ معاشرے کی عکاسی کرتا ہوا افسانہ۔۔۔ جہاں مفلسی بھی ہو اور بیٹی رخصت کرنے کو ہاتھ کچھ نہ ہو۔۔۔۔ جنہوں نے سہارہ بننا تھا وہ اپنی بیویوں کیساتھ چل دیئے ۔۔۔۔۔ ایک دکھ بھری کہانی ۔۔۔۔۔
خوش رہیں جناب اور لکھتے رہیں
 

loneliness4ever

محفلین
کیا افسانہ ہے جناب ، اس تحریر نے اداس کردیا۔۔۔ بہت کمال لکھا ہے۔ معاشرے کی عکاسی کرتا ہوا افسانہ۔۔۔ جہاں مفلسی بھی ہو اور بیٹی رخصت کرنے کو ہاتھ کچھ نہ ہو۔۔۔۔ جنہوں نے سہارہ بننا تھا وہ اپنی بیویوں کیساتھ چل دیئے ۔۔۔۔۔ ایک دکھ بھری کہانی ۔۔۔۔۔
خوش رہیں جناب اور لکھتے رہیں


آپ کی آمد پر خاکسار ممنون ہے
رونق بخشنے کا بے حد شکریہ

توجہ کا یہ سلسلہ مستقل رکھیں
اللہ آباد و بے مثال رکھے آپکو ۔۔۔۔ آمین
 
حقیقت سے بھرپور افسانہ
جب سے شہربڑھتے جارہےہیں، آبادیاں گاوں سے یہاں منتقل ہوتی جارہی ہے تب سے اجتماعی نظام کانام ونشان مٹتاجارہاہے۔
بس ہرایک نے دوکمروں کے ایک فلیٹ میں اپنی دنیا بسائی ہوئی ہے، نہ پڑوس کی خبرنہ کسی رشتہ کاپوچھ پاچھنا۔
شعرعرض ہے:

کسی کوگھر ملا حصہ میں یا کوئی دوکان آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصہ میں ماں آئی
(منور رانا، کوکلکتہ انڈیا)
 

loneliness4ever

محفلین
حقیقت سے بھرپور افسانہ
جب سے شہربڑھتے جارہےہیں، آبادیاں گاوں سے یہاں منتقل ہوتی جارہی ہے تب سے اجتماعی نظام کانام ونشان مٹتاجارہاہے۔
بس ہرایک نے دوکمروں کے ایک فلیٹ میں اپنی دنیا بسائی ہوئی ہے، نہ پڑوس کی خبرنہ کسی رشتہ کاپوچھ پاچھنا۔
شعرعرض ہے:

کسی کوگھر ملا حصہ میں یا کوئی دوکان آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصہ میں ماں آئی
(منور رانا، کوکلکتہ انڈیا)


آپ کی آمد اور اس توجہ پر فقیر ممنون ہے
سچ کہا ہم گھر میں بیٹھے دیوار کے اس پار اب نہ دیکھنا چاہتے ہیں
اور ان کی نگاہوں کو برداشت کر پاتے ہیں
معاشرہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر تنہائی کا شکار ہو چلا ہے اور یہ
ایسی تنہائی ہے جو انسان کو کھائے جا رہی ہے
اوپر سے غربت ۔۔۔۔۔۔

غریبوں کی اگر آنکھوں میں دیکھو گے
الجھ جائو گے جانے کن سوالوں سے

اللہ آباد رکھے آپکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمین
 

جاسمن

لائبریرین
تلخ حقائق لئے ایک مختصر ،پُر اثر،اور آداس کر دینے والا افسانہ۔۔۔۔کاش یہ سب نہ ہؤا کرے۔۔۔کاش!
 
Top