محمد اجمل خان
محفلین
بوریت ‘ ڈپریشن اور ٹینشن
جدید مغربی تہذیب سے ہم بور ہو گئے ہیں۔
جدید مغربی تہذیب سے ہم ڈپریشن میں ہیں۔
جدید مغربی تہذیب نے ہمیں ٹینشن میں ڈال دیا ہے۔
بوریت ‘ ڈپریشن اور ٹینشن جدید مغربی تہذیب کے تحائف ہیں۔
جن سے ہم اپنی بچپن میں ناآشنا تھے بلکہ ہمارے بڑے بھی ناآشنا تھے۔
لیکن آج بچہ ‘ بڑا ‘ بوڑھا ہر کوئی ٹینشن میں ہے‘ ڈپریشن میں ہے ‘ بوریت کا شکار ہے۔
بچے اسکولوں میں بور ہوتے ہیں اور گھر آکر بھی بوریت کا شکار رہتے ہیں۔
ہوم ورک ملنے پر ٹینشن یا ڈپریشن میں پڑ جاتے ہیں اور ہوم ورک نہ ہوتو بور ہوتے ہیں۔
آج ہر ماں بچوں کو اسکول بھیجنے کی ٹینشن میں رہتی ہے‘ بچے اسکول نہ جائیں تو ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہے۔
اور بچوں کو اسکول بھیج کر دن بھر بور ہوتی رہتی ہے اور پھر شوہر کو دفتر میں فون کرکے ٹینشن میں ڈالتی ہے۔
شوہر پہلے ہی بیوی بچوں کے اخراجات پوری کرنے کی ٹینشن میں رہتا ہے۔اسے صبح آفس جانے کی ٹیشن لگی رہتی ہے تو شام کو جلد گھر آنے کی ٹینشن میں رہتا ہےاور یہ روٹیں ورک اُسے بوریت اور ڈپریشن کا شکار کرتی رہتی ہے۔کام زیادہ ہو تو ٹینشن اور کام کم ہوتو بوریت اور ڈپریشن کہ اب کیا ہوگا کہیں جاب نہ چلی جائے۔آفس میں باس کی جھڑکیاں اسے ڈپریشن میں ڈالتی ہے تو بیگم کی فون سے وہ ٹینشن میں پڑ جاتا ہے۔گھر آتا ہے تو بیوی بچوں کی بور ہونے کی شکایت اور بوریت دور کرنے کیلئے باہر جانے کی فرمائش اسے ٹینشن دیتی ہے۔گھر پر ٹی وی کی ایک ہی طرح کی پروگرام اسے بور کرتی ہے اور ریموٹ سے چینل بدل بدل کر وہ ٹینشن میں پڑ جاتا ہے۔ جب خود ٹینشن میں ہوتا ہے تو بیوی بچوں کو ٹینشن میں ڈالتا ہے اور بور ہوتا ہے تو بوریت میں اور ڈپریشن میں ہوتا ہے تو ڈپریشن میں ڈالتا ہے۔
جاب ہو تو ٹینشن اور بوریت ‘ جاب نہ ہو تو ڈپریشن اور بوریت ‘ دفتر میں کام ہو تو ٹینشن اور کام نہ ہو تو ڈپریشن اور بوریت ۔
اورآج ہمارے نوجوانوں کے حال تو اس سے بھی بُرے ہیں ۔ بوریت‘ ڈپریشن اور ٹینشن کے علاوہ ان کی زندگی میں رکھا ہی کیا ہے ؟
کالج اور یونیورسیٹی میں بور سبجیکٹس‘ ٹیشن والی ایکزام اور ڈپریشن میں لے جانے والی ریزلٹس۔ پھر تعلیم سے فراغت پر گھر پر وقت گزارنا سب سے بڑی بوریت ‘ جاب تلاش کرنی سب سے بڑی ٹینشن اور جاب نہ ملنا ڈپریشن کی انتہا ۔ اس کے باوجود اِن فراغت کے دنوںیں رات کو دیر تک جاگنا‘ صبح دیر سے اُٹھنا‘ ہر وقت ایک ہی جگہ بیٹھ کر موبائل یا لیپ ٹاپ پر نیٹ سرفنگ ‘ ٹی وی دیکھنا یا کمپیوٹر پر گیم کھیلنا اور اسی طرح بوریت ‘ ڈپریشن اور ٹینشن میں زندگی گزارنا ‘ ماں باپ سے اپنی بوریت‘ ڈپریشن اور ٹینشن کی شکایت کرتے رہنا اور انہیں ٹینشن یا ڈپریشن میں ڈالنا۔
غرض کہ آج پورا خاندان بلکہ پورا معاشرہ ہی بوریت‘ ڈپریشن اور ٹینشن میں ہےجبکہ یہاں سب مسلمان ہیں۔
کیا ایک مسلمان کے پاس اتنا فارغ وقت ہے کہ وہ بوریت کا شکار ہو؟
ایک مسلمان صبح اٹھتا ہے‘ فجر کی نماز باجماعت پڑھتا ہے‘ پھر قرآن کی تلاوت اور ذکر اذکار میں مصروف رہتا ہے‘ پھر پھر اگر ممکن ہو تواشراق کی نفلیں پڑھتا ہے اور ناشتہ کرکے دفتر کیلئے نکلتے وقت گھر سے نکلنے کی دعا پڑھتا ہے‘ راستے میں بھی ذکر اذکار کرتا جاتا ہے‘ اپنی ڈیوٹی کے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیتا ہے‘ پھر ظہر‘ عصر‘ مغرب اور عشا کی نمازیں‘ شام کے اذکار ‘ بیوی بچوں کی دیکھ بھال اور رشتہ داروں و پڑسیوں کی خبر گیری وغیرہوغیرہ کے بعد کیا اس کےپاس اتنا وقت ہوتا کہ وہ بور ہو اور ڈپریشن و ٹینشن کا شکار ہو۔
لیکن اب ایک مسلمان کی روٹین ایسی کہاں؟
اب وہ رات دیر تک جاگتا ہے۔ صبح دیر سے اُٹھتا ہے۔فجر کی نماز وہ پڑھتا نہیں کہ دن بھر اللہ کی حفاظت میں رہے۔ ذکر اذکار اسے آتی نہیں کہ شیطانی قوتوں سے محفوظ رہے۔پھربوریت‘ ٹینشن اور ڈپریشن سے دل تنگ نہ ہو تو اور کیا ہو؟
دل کے خالق نے تو اُسے بہترین نشخہ دیا ہے:
اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اﷲِ أَلاَ بِذِکْرِاﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔۔۔۔(الرعد : ۲۸)
’’ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں ، یاد رکھو ! دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں۔‘‘
لیکن آج کا مسلمان اس نشخے پر عمل ہی نہیں کرتا اور بوریت‘ ٹینشن اور ڈپریشن کی شکایت کرتا ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج ایک مسلمان كو يہ بھى علم نہيں كہ وہ اپنا وقت كيسے بسر كرے اور خاص کر فارغ اوقات میں کیا کرے؟
آج ایک مسلمان کے فارغ اوقات ٹى وى پر كفريہ اور شركيہ پروگرام ، گانے بجانےموسیقی اور دیگر برائىاں ديكھنے کیلئے ہے ‘ نیٹ سرفنگ کیلئے ہے‘ گندی ویڈیوز دیکھنے کیلئے ہے‘ نا محرم سے چیٹ کرنے کیلئے ہے یا پھر کمپیوٹر پر گیم کھیلنے کیلئے ہے لیکن اللہ کی عبادت‘ نماز‘ تلاوتِ قرآن اور ذکر اِلٰہی وغیرہ کیلئے نہیں ہے۔
پھر ان خرافات سے دل تنگ اور مردہ نہ ہو تو کیا ہو ؟
دل کی اس تنگی اور مردہ پن کا نام ہی بوریت‘ ڈپریشن اور ٹینشن ہے۔
فارغ اوقات کے بارے میں رسول کریم ﷺ نےمتنبہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’ دو نعمتيں ايسى ہيں جس ميں بہت سارے لوگ خسارے ميں رہتے ہيں، ايك تو صحت و تندرستى اور دوسرى فراغت ہے ‘‘ (صحيح بخارى حديث نمبر 5933)
اورآپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
’’ پانچ كو پانچ سے قبل غنيمت جانو: 1۔ اپنى زندگى كو اپنى موت سے قبل، 2۔ اپنى صحت كو بيمارى سے قبل، اور 3۔ اپنى فراغت كو مشغول ہونے سے قبل، اور 4۔ اپنى جوانى كو بڑھاپے سے قبل، اور 5۔ اپنى مالدارى كو فقيرى سے قبل ‘‘ (اسے حاكم نے روايت كيا ہے، اور يہ صحيح الجامع حديث نمبر 1077 ميں مذكور ہے)۔
زندگی بہت قیمتی ہے‘ صحت بہت قیمتی ہے ‘ وقت بہت قیمتی ہے ‘ فراغت بہت قیمتی ہے ‘ جوانی بہت قیمتی ہے اور مالداری کو تو سب ہی قیمتی سمجھتے ہیں۔
آج ہم مسلمان اللہ کی اِن نعمتوں اور زندگی کے قیمتی سرمائے کا صحیح تصرف کرنے کی بجائے جدید یت کے رنگ میں رنگ کر مادیت پرستی اور لہو و لعب میں کھو گئے ہیں ۔آجہم سے ہماری زندگی کے مقاصد گم ہو گئے ہیں اور جب مقاصد نہ ہو تو وقت گزارنا مشکل ہوجاتا ہے اور انسان ہر وقت بوریت‘ ڈپریشن اور ٹینشن میں رہتا ہے۔
آج مسلمان ہونے کے باوجود اکثریت یہ بھلا بیٹھی ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی کے مقاصد تو اللہ کی عبادت‘ اسکی رضا اور آخرت میں جنت کا حصول ہے۔جس دل میں یہ عظیم مقاصد ہوں گے وہ دنیاوی لَغویات و خرافات سے پاک زندگی گزارے گا اوردنیاوی معاملات میں کبھی بھی بوریت و ڈپریشن یا ٹینشن کا شکار نہ ہوگا۔اگر کبھی بوریت ‘ ڈپریشن یا ٹینشن میں پڑ بھی گیا تو نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے استفادہ حاصل کرکے اُن سے نکل آئے گا۔
لہذا بوریت ‘ ڈپریشن اور ٹینشن کے وقت درج ذیل دعائیں پڑھئے اور پڑھتے رہئے جب تک یہ عارضہ ختم نہ ہو جائے:
نمبر 1 ۔۔۔ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ
’’اے زندہ ! اے قیوم ! میں تیری رحمت کے ساتھ مدد کا طلبگار ہوں۔‘‘
( حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے‘ ترمذی : ۳۵۲۴)
نمبر 2 ۔۔۔أَللَّهُ أَللَّهُ رَبِّي لَا أُشْرِکُ بِهِ شَيْئًا
’’اللہ، اللہ ہی میرا رب ہے ، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا‘‘
(حضرت اسماء بنت عمیسؓ کو آپ ﷺ نے پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی‘ابو داؤد: ۱۵۲۵‘ وصححہ الالبانی فی صحیح سنن ابی داؤد ج ۱ ص ۲۸۴ )
نمبر 3 ۔۔۔ لَا إلٰہَ إلَّا ﷲُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ ، سُبْحَانَ اﷲِ وَتَبَارَکَ ﷲُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ، وَالْحَمْدُ لِلہ رَبِّ الْعٰالَمِیْنَ
’’اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ، وہ برد بار اور کریم ہے ، اللہ پاک ہے ، اور با برکت ہے وہ اللہ جو کہ عرشِ عظیم کا رب ہے ، اور تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جو کہ تمام جہانوں کا رب ہے‘‘ (حضرت علیؓ کو آپ ﷺ نے پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی‘ مسنداحمدج ۱ ص ۹۱ وصححہ الشیخ احمد شاکر ج ۲ ص ۸۷)
نمبر 4 ۔۔۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ، وَرَبُّ الْأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ
’’اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ، وہ عظمت والا اوربرد بار ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ عرشِ عظیم کا رب ہے، اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ آسمانوں کا رب اور زمین کا رب اور عرشِ عظیم کا رب ہے‘‘ (حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے‘بخاری : الدعوات ،باب الدعاء عند الکرب ،الفتح ج ۱۱، ص ۱۲۳ ، مسلم : ۲۷۳۰)
نمبر 5 ۔۔۔ لَا إلٰہَ إلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ
’’تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ، تو پاک ہے ، بے شک میں ظلم کرنے والوں میں سے تھا‘‘
(یہ دعائے یونس علیہ السلام ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو مسلمان اس دعا کے ساتھ کسی بھی چیز کے بارے میں دعا کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے یقیناً قبول کرتا ہے۔‘‘ صححہ الحاکم فی المستدرک ج ۱، ص ۵۰۵ ووافقہ الذہبی)
عام حالات میں نماز کا اہتمام‘ صبح شام کی دعائیں اور دیگر روز مرہکے ذکر و اذکار میں مصروف رہیں۔ اپنے فارغ اوقات کو میں زیادہ سے زیادہ اذكار و دعائیں‘ نوافل‘ علمائے حق کے دروس سننے‘ تلاوت قرآن کرنے اور اللہ تعالى كى نشانيوں اور آيات و نعمتوں ميں غور و فكر كرنے سے بوریت‘ ڈپریشن یا ٹینشن سے دور رہا جا سکتا ہے۔
خود بھی ان اصولوں پر عمل کریں اور اپنے بچوں کو بھی عمل کرنا سکھائیں تاکہ بچے بھی بوریت، ڈپریشن یا ٹینشن سے دور رہ سکیں۔
اور دل کی تنگی دور ہو‘ دل میں یادِ الٰہی سے تازگی آئے اور زندگی آسان ہو۔
زندگی ٹینشن فری‘ ڈپریشن فری اور بوریت فری ہو۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔
جدید مغربی تہذیب سے ہم بور ہو گئے ہیں۔
جدید مغربی تہذیب سے ہم ڈپریشن میں ہیں۔
جدید مغربی تہذیب نے ہمیں ٹینشن میں ڈال دیا ہے۔
بوریت ‘ ڈپریشن اور ٹینشن جدید مغربی تہذیب کے تحائف ہیں۔
جن سے ہم اپنی بچپن میں ناآشنا تھے بلکہ ہمارے بڑے بھی ناآشنا تھے۔
لیکن آج بچہ ‘ بڑا ‘ بوڑھا ہر کوئی ٹینشن میں ہے‘ ڈپریشن میں ہے ‘ بوریت کا شکار ہے۔
بچے اسکولوں میں بور ہوتے ہیں اور گھر آکر بھی بوریت کا شکار رہتے ہیں۔
ہوم ورک ملنے پر ٹینشن یا ڈپریشن میں پڑ جاتے ہیں اور ہوم ورک نہ ہوتو بور ہوتے ہیں۔
آج ہر ماں بچوں کو اسکول بھیجنے کی ٹینشن میں رہتی ہے‘ بچے اسکول نہ جائیں تو ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہے۔
اور بچوں کو اسکول بھیج کر دن بھر بور ہوتی رہتی ہے اور پھر شوہر کو دفتر میں فون کرکے ٹینشن میں ڈالتی ہے۔
شوہر پہلے ہی بیوی بچوں کے اخراجات پوری کرنے کی ٹینشن میں رہتا ہے۔اسے صبح آفس جانے کی ٹیشن لگی رہتی ہے تو شام کو جلد گھر آنے کی ٹینشن میں رہتا ہےاور یہ روٹیں ورک اُسے بوریت اور ڈپریشن کا شکار کرتی رہتی ہے۔کام زیادہ ہو تو ٹینشن اور کام کم ہوتو بوریت اور ڈپریشن کہ اب کیا ہوگا کہیں جاب نہ چلی جائے۔آفس میں باس کی جھڑکیاں اسے ڈپریشن میں ڈالتی ہے تو بیگم کی فون سے وہ ٹینشن میں پڑ جاتا ہے۔گھر آتا ہے تو بیوی بچوں کی بور ہونے کی شکایت اور بوریت دور کرنے کیلئے باہر جانے کی فرمائش اسے ٹینشن دیتی ہے۔گھر پر ٹی وی کی ایک ہی طرح کی پروگرام اسے بور کرتی ہے اور ریموٹ سے چینل بدل بدل کر وہ ٹینشن میں پڑ جاتا ہے۔ جب خود ٹینشن میں ہوتا ہے تو بیوی بچوں کو ٹینشن میں ڈالتا ہے اور بور ہوتا ہے تو بوریت میں اور ڈپریشن میں ہوتا ہے تو ڈپریشن میں ڈالتا ہے۔
جاب ہو تو ٹینشن اور بوریت ‘ جاب نہ ہو تو ڈپریشن اور بوریت ‘ دفتر میں کام ہو تو ٹینشن اور کام نہ ہو تو ڈپریشن اور بوریت ۔
اورآج ہمارے نوجوانوں کے حال تو اس سے بھی بُرے ہیں ۔ بوریت‘ ڈپریشن اور ٹینشن کے علاوہ ان کی زندگی میں رکھا ہی کیا ہے ؟
کالج اور یونیورسیٹی میں بور سبجیکٹس‘ ٹیشن والی ایکزام اور ڈپریشن میں لے جانے والی ریزلٹس۔ پھر تعلیم سے فراغت پر گھر پر وقت گزارنا سب سے بڑی بوریت ‘ جاب تلاش کرنی سب سے بڑی ٹینشن اور جاب نہ ملنا ڈپریشن کی انتہا ۔ اس کے باوجود اِن فراغت کے دنوںیں رات کو دیر تک جاگنا‘ صبح دیر سے اُٹھنا‘ ہر وقت ایک ہی جگہ بیٹھ کر موبائل یا لیپ ٹاپ پر نیٹ سرفنگ ‘ ٹی وی دیکھنا یا کمپیوٹر پر گیم کھیلنا اور اسی طرح بوریت ‘ ڈپریشن اور ٹینشن میں زندگی گزارنا ‘ ماں باپ سے اپنی بوریت‘ ڈپریشن اور ٹینشن کی شکایت کرتے رہنا اور انہیں ٹینشن یا ڈپریشن میں ڈالنا۔
غرض کہ آج پورا خاندان بلکہ پورا معاشرہ ہی بوریت‘ ڈپریشن اور ٹینشن میں ہےجبکہ یہاں سب مسلمان ہیں۔
کیا ایک مسلمان کے پاس اتنا فارغ وقت ہے کہ وہ بوریت کا شکار ہو؟
ایک مسلمان صبح اٹھتا ہے‘ فجر کی نماز باجماعت پڑھتا ہے‘ پھر قرآن کی تلاوت اور ذکر اذکار میں مصروف رہتا ہے‘ پھر پھر اگر ممکن ہو تواشراق کی نفلیں پڑھتا ہے اور ناشتہ کرکے دفتر کیلئے نکلتے وقت گھر سے نکلنے کی دعا پڑھتا ہے‘ راستے میں بھی ذکر اذکار کرتا جاتا ہے‘ اپنی ڈیوٹی کے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیتا ہے‘ پھر ظہر‘ عصر‘ مغرب اور عشا کی نمازیں‘ شام کے اذکار ‘ بیوی بچوں کی دیکھ بھال اور رشتہ داروں و پڑسیوں کی خبر گیری وغیرہوغیرہ کے بعد کیا اس کےپاس اتنا وقت ہوتا کہ وہ بور ہو اور ڈپریشن و ٹینشن کا شکار ہو۔
لیکن اب ایک مسلمان کی روٹین ایسی کہاں؟
اب وہ رات دیر تک جاگتا ہے۔ صبح دیر سے اُٹھتا ہے۔فجر کی نماز وہ پڑھتا نہیں کہ دن بھر اللہ کی حفاظت میں رہے۔ ذکر اذکار اسے آتی نہیں کہ شیطانی قوتوں سے محفوظ رہے۔پھربوریت‘ ٹینشن اور ڈپریشن سے دل تنگ نہ ہو تو اور کیا ہو؟
دل کے خالق نے تو اُسے بہترین نشخہ دیا ہے:
اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اﷲِ أَلاَ بِذِکْرِاﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔۔۔۔(الرعد : ۲۸)
’’ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں ، یاد رکھو ! دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں۔‘‘
لیکن آج کا مسلمان اس نشخے پر عمل ہی نہیں کرتا اور بوریت‘ ٹینشن اور ڈپریشن کی شکایت کرتا ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج ایک مسلمان كو يہ بھى علم نہيں كہ وہ اپنا وقت كيسے بسر كرے اور خاص کر فارغ اوقات میں کیا کرے؟
آج ایک مسلمان کے فارغ اوقات ٹى وى پر كفريہ اور شركيہ پروگرام ، گانے بجانےموسیقی اور دیگر برائىاں ديكھنے کیلئے ہے ‘ نیٹ سرفنگ کیلئے ہے‘ گندی ویڈیوز دیکھنے کیلئے ہے‘ نا محرم سے چیٹ کرنے کیلئے ہے یا پھر کمپیوٹر پر گیم کھیلنے کیلئے ہے لیکن اللہ کی عبادت‘ نماز‘ تلاوتِ قرآن اور ذکر اِلٰہی وغیرہ کیلئے نہیں ہے۔
پھر ان خرافات سے دل تنگ اور مردہ نہ ہو تو کیا ہو ؟
دل کی اس تنگی اور مردہ پن کا نام ہی بوریت‘ ڈپریشن اور ٹینشن ہے۔
فارغ اوقات کے بارے میں رسول کریم ﷺ نےمتنبہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’ دو نعمتيں ايسى ہيں جس ميں بہت سارے لوگ خسارے ميں رہتے ہيں، ايك تو صحت و تندرستى اور دوسرى فراغت ہے ‘‘ (صحيح بخارى حديث نمبر 5933)
اورآپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
’’ پانچ كو پانچ سے قبل غنيمت جانو: 1۔ اپنى زندگى كو اپنى موت سے قبل، 2۔ اپنى صحت كو بيمارى سے قبل، اور 3۔ اپنى فراغت كو مشغول ہونے سے قبل، اور 4۔ اپنى جوانى كو بڑھاپے سے قبل، اور 5۔ اپنى مالدارى كو فقيرى سے قبل ‘‘ (اسے حاكم نے روايت كيا ہے، اور يہ صحيح الجامع حديث نمبر 1077 ميں مذكور ہے)۔
زندگی بہت قیمتی ہے‘ صحت بہت قیمتی ہے ‘ وقت بہت قیمتی ہے ‘ فراغت بہت قیمتی ہے ‘ جوانی بہت قیمتی ہے اور مالداری کو تو سب ہی قیمتی سمجھتے ہیں۔
آج ہم مسلمان اللہ کی اِن نعمتوں اور زندگی کے قیمتی سرمائے کا صحیح تصرف کرنے کی بجائے جدید یت کے رنگ میں رنگ کر مادیت پرستی اور لہو و لعب میں کھو گئے ہیں ۔آجہم سے ہماری زندگی کے مقاصد گم ہو گئے ہیں اور جب مقاصد نہ ہو تو وقت گزارنا مشکل ہوجاتا ہے اور انسان ہر وقت بوریت‘ ڈپریشن اور ٹینشن میں رہتا ہے۔
آج مسلمان ہونے کے باوجود اکثریت یہ بھلا بیٹھی ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی کے مقاصد تو اللہ کی عبادت‘ اسکی رضا اور آخرت میں جنت کا حصول ہے۔جس دل میں یہ عظیم مقاصد ہوں گے وہ دنیاوی لَغویات و خرافات سے پاک زندگی گزارے گا اوردنیاوی معاملات میں کبھی بھی بوریت و ڈپریشن یا ٹینشن کا شکار نہ ہوگا۔اگر کبھی بوریت ‘ ڈپریشن یا ٹینشن میں پڑ بھی گیا تو نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے استفادہ حاصل کرکے اُن سے نکل آئے گا۔
لہذا بوریت ‘ ڈپریشن اور ٹینشن کے وقت درج ذیل دعائیں پڑھئے اور پڑھتے رہئے جب تک یہ عارضہ ختم نہ ہو جائے:
نمبر 1 ۔۔۔ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ
’’اے زندہ ! اے قیوم ! میں تیری رحمت کے ساتھ مدد کا طلبگار ہوں۔‘‘
( حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے‘ ترمذی : ۳۵۲۴)
نمبر 2 ۔۔۔أَللَّهُ أَللَّهُ رَبِّي لَا أُشْرِکُ بِهِ شَيْئًا
’’اللہ، اللہ ہی میرا رب ہے ، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا‘‘
(حضرت اسماء بنت عمیسؓ کو آپ ﷺ نے پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی‘ابو داؤد: ۱۵۲۵‘ وصححہ الالبانی فی صحیح سنن ابی داؤد ج ۱ ص ۲۸۴ )
نمبر 3 ۔۔۔ لَا إلٰہَ إلَّا ﷲُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ ، سُبْحَانَ اﷲِ وَتَبَارَکَ ﷲُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ، وَالْحَمْدُ لِلہ رَبِّ الْعٰالَمِیْنَ
’’اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ، وہ برد بار اور کریم ہے ، اللہ پاک ہے ، اور با برکت ہے وہ اللہ جو کہ عرشِ عظیم کا رب ہے ، اور تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جو کہ تمام جہانوں کا رب ہے‘‘ (حضرت علیؓ کو آپ ﷺ نے پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی‘ مسنداحمدج ۱ ص ۹۱ وصححہ الشیخ احمد شاکر ج ۲ ص ۸۷)
نمبر 4 ۔۔۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ، وَرَبُّ الْأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ
’’اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ، وہ عظمت والا اوربرد بار ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ عرشِ عظیم کا رب ہے، اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ آسمانوں کا رب اور زمین کا رب اور عرشِ عظیم کا رب ہے‘‘ (حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے‘بخاری : الدعوات ،باب الدعاء عند الکرب ،الفتح ج ۱۱، ص ۱۲۳ ، مسلم : ۲۷۳۰)
نمبر 5 ۔۔۔ لَا إلٰہَ إلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ
’’تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ، تو پاک ہے ، بے شک میں ظلم کرنے والوں میں سے تھا‘‘
(یہ دعائے یونس علیہ السلام ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو مسلمان اس دعا کے ساتھ کسی بھی چیز کے بارے میں دعا کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے یقیناً قبول کرتا ہے۔‘‘ صححہ الحاکم فی المستدرک ج ۱، ص ۵۰۵ ووافقہ الذہبی)
عام حالات میں نماز کا اہتمام‘ صبح شام کی دعائیں اور دیگر روز مرہکے ذکر و اذکار میں مصروف رہیں۔ اپنے فارغ اوقات کو میں زیادہ سے زیادہ اذكار و دعائیں‘ نوافل‘ علمائے حق کے دروس سننے‘ تلاوت قرآن کرنے اور اللہ تعالى كى نشانيوں اور آيات و نعمتوں ميں غور و فكر كرنے سے بوریت‘ ڈپریشن یا ٹینشن سے دور رہا جا سکتا ہے۔
خود بھی ان اصولوں پر عمل کریں اور اپنے بچوں کو بھی عمل کرنا سکھائیں تاکہ بچے بھی بوریت، ڈپریشن یا ٹینشن سے دور رہ سکیں۔
اور دل کی تنگی دور ہو‘ دل میں یادِ الٰہی سے تازگی آئے اور زندگی آسان ہو۔
زندگی ٹینشن فری‘ ڈپریشن فری اور بوریت فری ہو۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔